بابائے قوم، مادر ملت۔۔۔
کتاب جسونت سنگھ نے لکھی، انہیں پارٹی سے بی جے پی نے نکالا، کتاب پر پابندی گجرات حکومت نے لگائی لیکن خوش پاکستانی ہیں۔
ہندو تنگ نظری کا فلسفہ جو ہمیں بچپن سے پڑھایا جاتا ہے ہمیں اس کا جیتا جاگتا ایک اور ثبوت مل گیا۔ محمد علی جناح کی عظمت کا اعتراف ہمارے دشمنوں نے بھی کر لیا۔ ہندو مسلم تاریخی دنگل میں ہمارا پہلوان جیت گیا۔ کافروں نے بھی ہمارے قائد کو قائد اعظم مان لیا۔
پاکستان حالیہ دنوں میں اتنے بحرانوں سے گزرا ہے کہ ہمیں خوشی کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا موقع ہاتھ سے نہیں گنوانا چاہیے۔ ورلڈ ٹوئنٹی ٹوئنٹی کا فائنل ہو یا جشن آزادی ہم لوگ بندوقیں نکال کر ہوائی فائرنگ شروع کر دیتے ہیں۔ کیا کریں موقع بھی تو کبھی کبھی ملتا ہے۔
لیکن ہوائی فائرنگ کے اس سلسلے کو ایک لمحے کے لیے روک کر ذرا یہ بھی سوچیے کہ کیا ہمارے دانشور سیاستدان بھی کبھی ایسا کریں گے جو جسونت سنگھ نے کیا ہے۔ کیا مولانا فضل الرحمان کبھی کوئی کتاب لکھ کر گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفے کا پرچار کرتے ہوئے پائے جائیں گے۔ کیا کوئی منظور وٹو سے توقع رکھتا ہے کہ وہ ہندوستان کے صنعتی انقلاب کے بارے میں ایک کتابچہ لکھ ڈالیں۔ کیا شہباز شریف کبھی بھول کر بھی کہیں گے کہ انہوں نے گڈ گورنیس نہرو سے سیکھی۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ اچھے دن میں ملا عمر (افغانستان والے اصلی تے وڈے ملا عمر، پاکستانی طالبان کے زیر حراست ترجمان نہیں) امیر المونین بننے سے پہلے اسلام آباد تشریف لائے۔ جس کمرے میں ان کی پاکستان کے سیکورٹی اہلکاروں (یا پیرو کاروں) سے ساتھ میٹنگ تھی وہاں دیوار پر ایک تصویر آویزاں تھی جیسا کہ ہر سرکاری دفتر میں ہوتی ہے۔ ملا عمر نے فرمایا کہ تصویر اتاری جائے ورنہ وہ اس کمرے میں نہیں رکیں گے۔ اہل کاروں نے انہیں بتایا لیکن یہ تو قائد اعظم کی تصویر ہے۔ ملا عمر نے معصومیت سے پوچھا: وہ کون ہے؟
کبھی لگتا ہے کہ ہر سرکاری دفترمیں، ہر تھانے کچہری میں، ٹیلی ویژن پر ہر فوجی ڈکٹیٹر کے پیچھے سے جھانکتا ہوا قائد اعظم کا سرکاری پورٹریٹ ہم سے صرف یہی سوال پوچھتا ہے : میں کون ہوں؟ میں یہاں کیا کر رہا ہوں۔
کیونکہ وطن عزیز میں محمد علی جناح غریب کی وہ جورو بن کر رہ گئے ہیں کہ جسکا جو چاہے نام رکھے اور جیسے چاہے استعمال کرے۔
مولانا حضرات ان کے نام کے ساتھ رحمۃ اللہ علیہ کا لاحقہ لگا کر انہیں پانچواں خلیفہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قومی یکجہتی کا شغل کرنے والے ان کی شیروانی اور ٹوپی دکھا دکھا کر ایک قوم بننے اور اردو بولنے کا درس دیتے ہیں۔ اور آزاد خیال طبقہ ان کے سوٹوں والی تصویریں، انگریزوں والی انگریزی اور شغل مے نوشی یاد دلا کر ایک سیکولر بہشت کے خواب دکھاتا ہے۔
لیکن جس معاشرے میں القاب عطا کرنے کا شوق اتنا بے تاب ہو کہ بابائے قوم، مادر ملت کا بھائی نکلے، جہاں انگریزی زبان میں بنگالیوں کو حکم دیا جائے کہ اردو بولو، جہاں بندہ مزدور کو مجبور کیا جائے کہ وہ پیٹ پر پتھر باندھ کر نہ صرف امرا کے محل سرا تعمیر کرے بلکہ ان کی حفاظت بھی کرے اور پھر اپنی خوش قسمتی پر خدا کا شکر بھی ادا کرے۔ ایسے معاشرے میں یقیناً محمد علی جناح ایک ہی وقت میں رحمتہ اللہ علیہ بھی ہو سکتے ہیں اور کافر اعظم بھی۔
تبصرےتبصرہ کریں
اگر پاکستانی خوش ہو رہے ہيں تو ’محمد حنيف‘ جيسے روشن خيالوں کو تکليف کيوں ہو رہی ہے۔۔۔
محترم محمد حینف صاحب، آداب عرض کے بعد مودبانہ عرض ہے کہ بمطابق زیرِ دستخطی، پاکستان میں، گاندھی جی کے ’عدم تشدد‘ فلسفہ پر کتاب تو دُور کی بات، پرچار تک، نہ ہی مولانا فضل الرحمان کر سکتے ہیں اور نہ ہی میاں منظور احمد وٹو۔ اگرچہ یہ دونوں کچھ ’لبرل‘ سمجھے جاتے ہیں لیکن پھر بھی آپ کے علم میں بھی تو ہو گا کہ ’چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے‘ کے مصداق ان سے گاندھی جی کے ’عدم تشدد‘ فلسفہ کی ایک ’حقیقت‘ کا قلمبند ہونا ممکن نہیں ہوسکتا۔ مزید برآں، گاندھی جی پر کتاب لکھنا انکے لیے ’اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مارنا‘ کے مترادف ہو گا کہ ملک کے نظام تعلیم نے ’ہندو دشمنی‘ اس قدر پیدا کی ہوئی ہے کہ گاندھی جی کو ’اچھے لفظوں‘ میں گرداننا ’ملک دشمنی‘ کے ذمرہ میں لیا جاتا ہے۔ بہرحال، خاکسار کو سپوت پنجاب جناب فخر زمان صاحب سے کافی امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ جلد یا بدیر، گاندھی صاحب کے ’عدم تشدد‘ فلسفہ پر کتاب لکھ کر پاکستان کا ’جسونت سنگھ‘ بنیں گے۔
’کیا شہباز شریف کبھی بھول کر بھی کہیں گے کہ انہوں نے گڈ گورنیس نہرو سے سیکھی۔‘
شاید آپ سے کچھ جلدی ہو گئی، شہباز شریف آج ہی ایک سیمنیار میں پاکستان اور انڈیا میں اداروں کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے نہرو کو انڈیا کی بہتری کا ذمہ دار قرار دے رہے تھے۔۔!
قائد اعظم کو کوئی نہیں بھولا ہے بلکہ انکی تصوير والے نوٹوں کو کيسے حاصل کيا جائے۔۔۔ ہر کوئی اسی ميں لگا ہوا ہے اور ہم ہيں ترسی ہوئی عوام، خوشی کا کوئی بھی موقع ہو بس ہميں تو سيليبريٹ کرنے کے بہانے چاہيے۔۔۔ ملا عمر لگتا ہے پاؤنڈز يہ ڈالرز بچپن سے ديکھتا آيا ہوگا تبھی پہچانا نہيں قائد کو۔۔۔ فضل الرحمن نے تہتر کے آئين کےعلاوہ کبھی کوئی بات کی ہے؟ شہبازشريف (خود ساختہ خدا ہی جانے کس کے) خادم کی راشن بانٹنے کی ناکام گورننس کے کيا کہنے۔۔۔
مجھےيہ سمجھ نہیں آتی کہ اس میں خو ش ہونے والی کون سی بات ہے۔ میں بلکہ خود سمجھتا ہوں کہ قائد ہی تو تقسيم کے داعی تھے ( خاص طور پر آخری عشرہ میں) سو اگر يہ کہا جائے کہ وہ تقسيم کے داعی نہیں تھے تو کل سے بابائے قوم نہرو ہی سہي۔۔۔؟
نہ جانے کب بی بی سی بھی انصاف کا دامن لے کے حقیقت لکھے گا۔۔۔ شاید کبھی مذہب، ملک اور قومیت سے بڑھ کر سچی خبروں کو بھی بی بی سی جگہ دےگا۔۔۔
اے این پی کی بنیاد بادشاہ خان نے گاندھی جی کے فلسفے پر رکھی تھی۔۔۔ اور اے این پی کو اس کے باؤجود ووٹ بھی ملے ہیں۔۔۔ اگر پاکستانی خوش ہو رہے ہیں، تو آپ کو کیوں تکلیف ہو رہی ہے۔۔۔؟
’لیکن جس معاشرے میں القاب عطا کرنے کا شوق اتنا بے تاب ہو کہ بابائے قوم، مادر ملت کا بھائی نکلے۔۔۔‘
آپ نے تو بات ہی ختم کر دی۔۔۔
جہاں انگریزی زبان میں بنگالیوں کو حکم دیا جائے کہ اردو بولو۔۔۔
آپ سے غلطی ہو گئی۔۔ سندھیوں، پنجابیوں، بلوچوں اور پٹھانوں سے بھی یہی کہا جا رہا ہے۔۔۔ اردو جو کہ پاکستان کے کسی حصے کی زبان نہیں ہے۔۔۔ بلکہ یہ تو ’دشمن‘ ملک کے شمالی حصے کی زبان ہے۔۔۔
سر جی اب يہ قوم اتنی بھی گئی گزری نہيں ہے۔ اگر اس ميں غلط عناصر ہيں تو اچھے لوگوں کی بھی کمی نہيں۔ اگر ہم ايک ميدان ميں کمزور ہيں تو کافی جگہ ہماری مہارات کو دنيا تسليم کرتی ہے۔ مايوسی مت پھيلائيں اور اگر کر سکتے ہيں تو روشن پہلو کو بھی اجاگر کريں۔ ويسے آپس کی بات ہے کتنے قائد اعظم ملے آپ کو يہ بلاگ لکھنے کے لیے۔
میرے خیال میں ہمیں ساٹھ سال بعد بھی یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اصل میں تقسیم کا ذمہ دار کون تھا۔ جسونت سنگھ بھی غلطی کر بیٹھے ہیں۔ تقسیم کے اصل ذمہ دار وہ گوری چمڑی والے گورے تھے جس کے فنڈ سے آج بی بی سی چلتا ہے۔ انہوں نے ہی لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی کے ذریعے سے ایک مشترکہ تہذیب کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ جب دل تقسیم ہوئے تو ملک کی تقسیم بھی لازمی تھی۔
اردو بولو يا بنگالی يا ہندي کوئی فرق نہيں پڑھتا۔ اگر امت اسلامی کا حصہ بننا ہے تو عربی بولو۔ اگر شائستہ اور تہذيب يافتہ بننا ہے تو فارسی بولو۔ اگر ٹہکا بنانا ہے تو انگريزی بولو۔ اگر صحيح معنوں ميں علمی گہرائی حاصل کر کے ترقی يافتہ بننا ہے تو فقط اپنی مادری زبان ميں تعليم حاصل کرو تاکہ سو فیصد سمجھ بھی آئے کہ کيا پڑھا جا رہا ہے۔
تقسیم جائز تھی یا ناجائز۔ تقسیم کا ذمہ دار کون تھا۔ تقسیم کا فائدہ کیا ہوا وغیرہ وغیرہ۔ ان سوالوں کا جواب ابھی ملا بھی نہیں تھا کہ تقسیم در تقسیم بھی ہوگئی اور ابھی مزید تقسیم کی توقع ہے۔ تب جو ملا صاحبان زمین کی تقسیم کے خلاف تھے آج اچانک تقسیم در تقسیم کے قائل ہو کر کلاشنکوف اٹھائے دندناتے پھر رہے ہیں۔ کوئی ہے جو ان کو بتائے کہ تم تب بھی غلط تھے اور اب بھی غلط ہو۔
بابائے قوم، مادر ملت۔ بالکل جسونت سنگھ کی موج ميں آکر لکھا گيا بلاگ ہے جو ثابت کرتا ہے کہ صرف بندے کی ’مت‘ ہی نہيں ماری جاتی بلکہ وہ خربوزے سے رنگ بھی پکڑتا ہے۔
اتنا کہوں گا کہ کس پاکستانی سیاستدان کے پاس اتنی تعلیمی قابلیت ہے کہ کتاب لکھ سکے؟ بے نظیر مرحوم تھیں یا پھر جنرل مشرف۔
ميں آپ کے بلاگ سے بالکل متفق ہوں۔ اوپر جتنے تبصرے کیے گئے ہيں کسی نے آپ کا مؤقف سمجھنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ قائد اعظم نے اسلام اور محبت کا درس ديا جبکہ ہم اور ہمارے ملا ذاتی انا، دشمنی اور بےعزتی کا درس دیتے ہيں۔
محمد حنیف صاحب نا نجانے کیوں آپ نے اپنے دل کا غبار نکالنے کے لیے یہ موقع غنیمت جانا ہے۔ پاکستان میں صدر مملکت سے لیکر عام سیاستدان تک ہر کوئی بھارتی جمہوریت کی مثال دیتے ذرہ برابر نہیں جھجھکتا۔ براہ کرم انصاف کا دامن تو ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔
ہمارے سیاستدان کہاں اس قابل ہیں کہ کسی موضوع پر دو صفحے ہی لکھ سکیں۔ یہ صرف اس قابل ہیں کے پاکستان جیسے ملک پر حکمرانی کر سکیں۔
رہے قائد اعظم تو وہ وہی اچھا ہے جو نوٹ والا ہو۔ جسونت جی کو بی جے پی والوں نے نکال باہر کیا۔ ادھر اگر نواز شریف نے گاندھی کے حق میں کچھ بول دیا تو یقیناً غدار تو کہلائیں گے۔
جناب! بات یہ ہے کہ جسونت سنگھ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے كسى پاكستانى كى تعريف كى ہے اس لیے اس كا ردعمل بھی اتنا شديد ہوا ہے کہ 30 سالہ خدمات كى باوجود پارٹى سے نكال دیا۔
اگر بنگاليوں کو زبردستی اردو بلوائی جاتی تھی تو پھر ان کی کرکٹ ٹيم ميدان ميں اردو کيوں بولتی ہے۔
ایک جسونت سنگھ کی کتاب کے وجہ سے ہم سارے ہندوؤں کی تنگ نظری کیسے بھول جائیں جناب حنیف صاحب۔