سول ایوارڈز کی بہار
یوم آذادی کے روز اخبارات میں چھپنے والے سول ایوارڈز کی فہرست دیکھی تو فورا آنکھیں ملیں کہ کہیں روزے کی وجہ سے کچھ کا کچھ اور تو نہیں پڑھ لیا۔ ایسا لگا جیسے حکمراں پیپلز پارٹی کے اہم ترین رہنماؤں کی فہرست شائع ہوئی ہے۔
لیکن ایسا کچھ نہیں تھا یہ حکمراں جماعت کے اہم ترین رہنماؤں کے نام تھے جنہیں 'ان کی اعلی کارکردگی کے پیش نظر' سول ایوارڈز سے نوازا گیا ہے۔ مجھے یقین ہے اگر جنہیں یہ ایواڈ دیئے گئے خود بھی دل ہی دل میں میں غیرجانبدارانہ تجزیہ کریں تو انہیں بھی معلوم نہیں ہوگا کہ کس بنیاد پر انہیں یہ اعزاز بخشا جا رہا ہے۔ ایک نے تو مجھ سے بات کرتے ہوئے اس کا برملا اظہار بھی کیا۔
اگر سینٹ کے چیرمین فاروق ایچ نائیک اور قومی اسمبلی کی سپیکر فہمیدہ مرزا کا اپنے عہدوں پر فرائض
سرانجام دینا اتنا ہی مشکل تھا تو پھر ماضی کے تمام سپیکر اور چیرمینوں کو بھی یہ ملنا چاہیے۔ اس مرتبہ میں ایسی کیا خاص بات تھی؟ ہاں وزیر داخلہ کی کارکردگی کے تو ہم سب معترف ہیں لہذا ان پر انگلی اٹھانے کی میں کسی کو اجازت نہیں دوں گا۔ انہوں نے تو امن عامہ کے لیے اپنا دن رات ایک کر دیا۔ کچھ بہتری آئی یا نہیں یہ سب تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
بس بھئی فراخ دلی اگر کسی نے سیکھنی ہے تو ہمارے صدر سے سیکھے۔ جس نے جو مانگا اس کو دیا۔ ناصرف اپنی قریبی ساتھیوں کو اعلی ترین وزارتیں اور عہدے دیئے بلکہ اب انہیں قومی ایوارڈ سے بھی نواز دیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت ان کی کارکردگی سے کتنی مطمئن ہے۔ عوام کی بات کون کرتا ہے اور ایسے 'پرمسرت' مواقع پر کرنی بھی نہیں چاہیے۔
لیکن اس اعلان سے مجھے ایک پریشانی سے لاحق ہوئی کہ کیا اس سال کو حکومت اپنا آخری سال تصور کر رہی ہے کہ ابھی سے اپنی ٹیم کے سب اہم اراکین کو شاباشی عطا کر دی۔ ابھی تو اس حکومت کا کم از کم ایک اور یوم آذادی باقی ہے۔ آخر اتنی جلدی کیا تھی۔ یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے بعد صدر کو ان پیپلز پارٹی رہنماؤں سے اس سے زیادہ اچھے کی امید نہیں تھی۔
دوسری پریشانی یہ تھی کہ ان ایوارڈز کی وقعت کیا رہی؟ یقینا اکثریت قابل تعریف کارکردگی کے بل بوتے پر اس کی جائز حقدار ہے لیکن ایک عاد کا نام دیکھ کر تو محض سلیکشن معیار پر 'اف' ہی کی جاسکتی ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
پريشان ہونے کی ضرورت نہيں کيونکہ پاکستان ميں جتنے صدور آئے انہوں نے ايسا ہی کيا۔ اگر سول ايوارڈ کے ليۓ موزوں افراد کم ہوں اور ايوارڈ زيادہ ہوں تو کيا فالتو ايوارڈ صدر گدھوں کو دے؟ آخر انسانوں کو ہی دينے ہيں۔
بات یہ ہے کہ شخصیات کو ایوارڈ دینا ایک فارملیٹی بن کر رہ گئی ہے۔ اس کے علاوہ ایوارڈ تقریب کا انععقاد اس لیے بھی کیا جاتا ہے تاکہ دنیا کو پتہ چل سکے کہ پاکستان میں صدرِ کا عہدہ بہت ہی ‘متبرک‘ ہے اور صدرِ پاکستان کے عہدے کی لاج رکھنے کے لیے ایوارڈ تقریب منعقد کی جاتی ہے۔ اور بس یہی ان ایوارڈ کی وقعت ہے۔ حالانکہ بندہ ایوارڈ دینے اور لینے اور اس رسم کو جاری و ساری رکھنے والوں سے پوچھے کہ بقول شاعر:
‘لُوٹنے والے کاش میری سچائی لُوٹ کے لے جائیں
بچے بھوکے سو جائیں تو کیا کرنا اعزازوں کو‘
ایوارڈ پھینکے ہیں اوروں کی طرف، بلکہ ثمر بھی
اے خانہ برباد چمن، کچھ ‘ریوڑیاں‘ ادھر بھی
ماضی ایسی مثالوں سے بھرا پڑا ہے۔ لگتا ہے ہم ابھی تک زوال کی اس نچلی سطح تک نہیں پہنچے ہیں جہاں سے اقوام دوبارہ اپنی ترقی کا سفر شروع کرتی ہیں۔ الامان الاحفیظ
ناصرف اعلی وزراء بلکہ کئی پروفیسروں نے کچھ نہیں کیا اور ان کے نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ کیا کوئی ہے جو ان کی سی وی کا جائزہ لے کہ انہوں نے ملک کے لیے کیا کیا؟
پیپلز پارٹی کا ایک اور تاریخی کارنامہ۔ ثابت ہوا کہ اندھا بانٹے شیرینی مڑ مڑ اپنوں کو۔
منجانب ایک جیالا
موجود حکومت کے سر جہاں ملک میں مہنگائی، بےروزگاری، دہشتگردی اور بدامنی خطرناک حد تک بڑھ جانے کا سہرا ہے وہیں سول ایوارڈ کے نام پراپنے قریبی ساتھیوں کو خوش کرنےکی روایت کا بھی آغاز کر دیا گیاہے۔ یہ سول ایوارڈ ان لوگوں کو دئےگئے ہیں جنہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو اچھی طرح سے نبھایا۔ اس لحاظ سے تو یہ ایوارڈ پاکستانی عوام کو ملنا چاہئے تھا جس نے ان تمام چیزوں کو بخوشی نہ صرف اپنایا بلکہ اس کے عادی بھی ہوگئے۔ موجودہ جمہوری حکومت نے جن جن عجیب و غریب روایات کی داغ بیل ڈالی ہے اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ ملک و قوم کے لئے کتنی مخلص ہے۔ہارون رشید صاحب نے لکھا ہے کہ سول ایوارڈ حاصل کرنے والوں کی فہرست دیکھی تو پیپلز پارٹی کے سینئرکارکنوں کی فہرست معلوم ہوئی تو جناب جس کی لاٹھی اس کی بھینس، یا یوں کہہ لیں کہ اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنے اپنوں میں۔۔۔۔۔قوم اب تک اس بات سے بے خبر ہے کہ سول ایوارڈ ہے کیا؟ کیوں دیئے گئے؟ کس کو دئے گئے؟ اس پر اٹھنے والے اخراجات کتنے ہیں؟ قوم بھی آخر کیا بولے، اس سے قبل کئے گئے سوالوں کے جواب اب تک نہیں ملے۔ مزید سوالوں کے جواب کے لئے کتنا انتظار درکار ہوگا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
اور تو اور میرا جی کو بھی ایوارڈ مل گیا۔ ویسے حد ہوتی ہے بےضمیری کی۔ وہ کہتے ہیں نہ کہ اگر آپ کو شرم نہیں تو کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
جیسی قوم ویسا صدر اور کیا؟؟؟؟؟؟
ہم مغل بادشاہوں کے دور میں رہ رہے ہیں۔
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ پاکستان میں ہر چیز کو اچھالتے کیوں ہیں؟ پاکستان میں کچھ بھی کرو صحیع یا غلط لوگوں کی باتیں سننی پڑتی ہیں۔ جس کو ملا وہ خوش جس کو نہ ملا وہ دکھ۔
حکومت توجہ ہٹانے کے لیے ایسے کام کرتی ہے۔ اب ایک ہفتے تک لوگ ان اعزازات پر تبصرہ کرتے رہیں گے۔ اس کے بعد کوئی نیا موضوع ہاتھ آ جائے گا۔ یہ اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔
جنرل مشرف کے مارشل لاء سے پہلے کی حکومت نے پاکستان کے قومی اعزازات میں کشمیر کی ایک شخصیت کو بھی شامل کیا اور انہیں تین سال مسلسل قومی ایوارڈ دیا گیا۔ تاہم مارشل لاء کے بعد حسب قاعدہ متعلقہ سرکاری محکمے سے ایک کشمیری شخصیت کا نام قومی ایوارڈ کے لئے بھیجا گیا تو معلوم ہوا کہ مشرف حکومت نے بھارت کے کہنے پر کسی بھی کشمیری شخصیت کو قومی ایوارڈ دینا بند کر دیا ہے۔ یوم یکجہتی کشمیر (5فروری) کو بھی ایوارڈ دیئے جاتے ہیں لیکن اچھا ڈانس کرنے والوں کو، اچھی اداکاری کرنے والوں کو۔ مملکت پاکستان کے لئے بےمثال قربانیاں دینے والے کشمیریوں کے لئے پاکستان کا قومی ایوارڈ شجرہ ممنوعہ بنا دیا گیا ہے۔ قومی ایوارڈ بھی سفارش اور ذاتی پسند کی بنیاد پر دینے کے چلن سے اب ملک کا رہا سہا اعتبار بھی ختم ہو گیا ہے۔ قومی، سرکاری ادارے عوام کے اعتماد سے محروم ہو چکے ہیں۔ زرداری کی پی پی پی حکومت وہ گل کھلا رہی ہے کہ عوام مشرف کے بھیانک دور کو بھی بھول رہے ہیں۔ حکومتی عہدیدار ایک دوسرے کو ایوارڈ دے کر تاریخ میں اپنا نام ریکارڈ کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں یہ ایوارڈ نمایاں قومی مفاد پر مبنی کارکردگی کے بجائے نمایاں بدکرداری کا اعتراف بنتی جا رہی ہے۔
سول ایوارڈز کی بہار تو ایک طرف سہی لیکن یہاں پر تو تبصروں کی بہار بھی کافی عرصے بعد نظر آ رہی ہے اور جس کی اغلب وجہ یہی ہے کہ بلاگ ہذا کے لکھنے والے کا نام ہارون رشید ہے۔ لہذا سمجھ تو سب ہی گئے ہوں گے کہ تبصروں کی بہار آج کیونکر ممکن ہو رہی ہے؟
اندھا بانٹے ریوڑیاں پھیر پھیر اپنے کو ہی دے
صدر زرداری کی ایوارڈوں کی بارش نے تو لفظ ’ایواڈ’ کا مطلب ہی تبدیل کر دیا ہے۔ کیا ان پیپلز پارٹی رہنماؤں نے عوام کے ساتھ انتخاب کے وقت کئے وعدے پورے کئیے۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ چاند نہیں چاہیے بلکہ پاؤں کے نیچے پڑی چٹائی رہنے دو۔ ننگے بھوکی عوام پوچھ رہی ہے کہ ایوارڈ عوام کی جسم ڈھانپنے کے بعد دیا جاتا ہے یا ان کی چمڑی اتارنے کے بعد؟ زرداری صاحب سن رہے ہیں نا!!
گل بادشاہ صاحب، ایوارڈ زیادہ اور بندے کم والی بات نہیں ہوتی، صرف اس کے قابل افراد کو ہی دیا جاتا ہے وہ ایک ہو یا ہزار ..ایوارڈ کے کوئی تعداد مقرر کر کے افراد تلاش نہیں کئے جاتے ..اور نہ ہی بندر بانٹ کے جاتی ہے جیسے اب ہوئی ہے۔ زرداری صاحب نے تو ہر ادارے اور روایت کی بےتوقیری کی قسم کھائی ہوئی ہے۔
جن کے پاس کرنے کا کچھ نہ ہو وہ ایسا ہی کرتے ہیں۔ ماضی کی قوموں کا پسندیدہ مشغلہ!
عہدے دیئے بلکہ اب انہیں قومی ایوارڈ سے بھی نواز دیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت ان کی کارکردگی سے کتنی مطمئن ہے۔ زبردست ہارون رشید منفرد سوچ کے لیے۔
اندھا بانٹے ریوڑیاں
مڑ مڑ اپنوں کو دے
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے
انجام گلستان کیا ہوگا
بےشرمی کی انتہا ہے۔
یہ بند بانٹ پاکستان میں نئی نہیں ہے۔ ہاں اتنا ضرور کہوں گا کہ حکومت ریکارڈ ساز ہے لہذا ایک اور ریکارڈ سہی۔
زرداری جو بھی کرتا ہے زبردست کرتا ہے۔ بس ایک بات کا دکھ ہے اس نے اے این پی کے غلام بلور کے ساتھ ناانصافی کی۔ انہیں بھی ایوارڈ ملنا لازمی تھا وہ بھی بہت کام کر رہے ہیں ریلوے کی خدمت کرکے۔
جن لوگوں نے ان افراد کو ایوارڈ کے لیے نامزد کرنا تھا انہوں نے اپنا کام کر دیا۔ اب ہمیں بےچینی سے انتظار ہے ان لوگوں کا کہ جنہیں یہ اعزاز ملا وہ کیا کہتے ہیں۔
حضرت عمر تو یہ بھی بتایا کرتے تھے کہ ان کی قمیض کیسے بنی۔ یہاں تو خوشامدی ٹولے کو اعزازات سے نوازا جا رہا ہے۔ میرے خیال میں ان لوگوں کے بارے میں قرآن مجید میں بھی ہے کہ ان کے دلوں پر مہر ثبت کر دی گئی ہے۔
ہارون صاحب ميں سمجھ گيا ہوں کہ آپ وزير داخلہ پر انگلی اٹھانا پسند نہيں کريں گے مگر ميں صرف ايک تجويز دينا چاہتا ہوں۔ پہلے تو سب وزراء اور حکومتی اراکين بڑے بڑے انعامات کے مستحق ہيں اور اگر سب کو نہيں تو کم از کم وزير داخلہ نشان حيدر کے تو مستحق ہيں حالانکہ يہ فوجی اعزاز ہے اور بڑے عسکری کارناموں پر ہی ديا جاتا ہے مگر جہاں باقی انعامات کے سلسلے ميں تبديلی کی گئی ہے وہاں نشان حيدر کے سلسلے ميں بھی تو تبديلی ہو سکتی ہے۔ آخر کار وزير موصوف اس ناشکری قوم کی خدمت ميں رات دن ايک کيۓ ہوۓ ہيں۔ ميں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پوری حکومتی جماعت اور ق ليگ کو بالخصوص اور باقی پارٹيوں کو بالعموم ان کے شاندار کارناموں پر مبارکباد دينا چاہتا ہوں۔ پوری دنيا ہمارے حکومتی اور غيرحکومتی سياستدانوں پر حيران ہیں کہ کس مٹی سے بنے ہيں يہ لوگ۔
بی بی سی والے ميرے تبصرے شائع نہيں کرتے؟
ہارون صاحب کبھی فوج کے بارے میں بھی لکھ دیا کریں۔ آپ نے تو بے چاری فوج کے بارے میں یہ بھی لکھ دیا تھا کہ فوج غریب ہوگئی ہے۔ اب سمجھ میں آتا ہے فوج کی اتنی پردہ داری کیوں؟
ناجانے کیسے لوگ من،حب کیے ہیں جنہیں ایوارڈ دینے کے لیے لوگوں کو منتخب کرنا بھی نہیں آتا۔ ویسے یہ قصور محروم بھٹو کا ہے۔ ہم تو انڈیا سے آگے نکلنے کی کوشش میں مصروف ہیں لیکن ایوارڈز سے پتہ چلتا ہے کہ ایتھوپیا سے بھی نیچے گر گئے ہیں۔ چلیں قوم نے زرداری کا یہ کارنامہ بھی دیکھ لیا۔ شاید آئندہ لوگ ان کارناموں کو مدنظر رکھ کر لوٹ ماروں کو منتخب نہیں کریں گے۔
یہ سب عقل کے اندھے ہیں۔ آنکھوں کا اندھا تو دیکھ سکتا ہے لیکن عقل کا اندھا دیکھ کر بھی جہالت کے مظاہرے ضرور کرتا ہے۔
اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنے اپنا نوں۔
اگر چار چار بار جنگوں ميں منہ کی کھانے والے جرنيلوں کے سينے ميڈيلوں سے بھرے ہوئے ہيں تو بھائی صاحب آپ کو بےچارے نا اہل سویلين ہی دکھتے ہيں؟
میرے خیال میں ایوارڈ لینے والوں کی کارکردگی اور کامیابیاں بتائی جانی چاہیں۔ ویسے میرا جی کو ایوارڈ کیوں مل رہا ہے؟
قسم سے بہت افسوس ہو رہا ہے۔ دل ڈوب رہا ہے۔ احساس کہاں مر گيا ہے۔ سنا ہے کسی بزرگ نے خواب ديکھا ہے کہ 2011 کے اواخر پاکستان پستيوں کی آخری سرحدوں کو چھوکر عروج کی راہ پکڑ لے گا۔ اللہ کرے يہ سچ ہو۔
جاہل کو اگر جھل کا انعام ديا جائے
اس حادثہ وقت کو کيا نام ديا جائے
رندون کی ہتک ہے مہخانے کی توہين ہے
کم ظرف کی ہاتھوں ميں اگر جام ديا جائے
مجھے تو حيرت اس بات کی ہے کہ حکومتی اراکين کی کارکردگی ان ايوارڈز کی مستحق کسی طور پر نہيں تھی۔ ملک ميں جوتوں ميں دال بٹ رہی ہے۔ اسی طرح حکومت ايوارڈ بھی بانٹ رہی ہے۔ يہ تو جمہوريت کی خوبی ہے کہ اگر سارے متحد ہو کر ناجائز کو جائز قرار دينے کی قرارداد منظور کر ليں تو وہ صحيح تصور کيا جاتا ہے۔ اگر اسمبلی اسپيکر کو ايوارڈ ملا تو ان کی کارکردگی بھی تو کسی سے کم نہيں۔ آج تک جالی ڈگری پر ان کی معنی خيز خاموشی ان کے روئے انہيں ايوارڈ کا مستحق قرار دينے کا حکومت کے پاس جواز ہے۔ اسی طرح اور بھی لوگوں کو ايوارڈ جائز ہی ہونگے۔ عوام کو اس سے کوئی غرض نہيں وہ تو صرف اپنی جان اور عزت بچانے ميں مصروف ہيں کہ کہيں وہ بھی کسی مشکل کا شکار نہ ہو جائیں۔
دیکھئے صاحب
فلم اسٹار میرا کو ایوارڈ ملنے پر ہمیں قطعا حیرت نہیں ہوئی۔ !
ہمیں صدر صاحب سے کچھ زیادہ کی امید نہیں کرنی چاہیے۔
’اس سال جن لوگوں کو یہ ایواڈ ملے ان میں سے کئی ایک خود بھی لاعلم ہیں کہ انہیں کس بنیاد پر یہ اعزاز بخشا گیا ہے۔’ قسم سے آپ کا یہ جملہ پڑھ کر ہنسی آگئی۔ ان ایوارڈز کو آپ سال کا لطیفہ کہہ سکتے ہیں۔
اندھا بانٹے ریوڑھی مڑ مز اپنوں کو
خدا کے لیے زرداری گو
حکومت اپنے بندوں کو اس لیے سول ایوارڈز کے لیے ترجیح دیتی ہے کہ اس کی حکومت ہوتی ہے۔ اب اگر خدانخواستہ تحریک انصاف حکومت میں آ جاتی ہے تو یہ رحمان ملک کو تو ایوارڈ نہیں دے گی، اپنے ہی کسی بندے کو دے گی۔ ‘
اس قوم کے ساتھ کچھ بھی کر لو یہ نہیں جاگے گی۔ یہ لوگ پھر منتخب ہوکر آ جائیں گے۔
کوئی فکر کی بات نہیں جب اوبامہ کو نوبل انعام سے نوازا جاسکتا ہے تو یہ تو اپنا پاکستان ہے جہاں کچھ بھی ممکن ہے۔
یہ تو اندھوں میں کانا راجہ والی بات ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حکمران جماعت کا شاید نعرہ ہی یہی ہے کہ
پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔۔۔۔ جوکچھ لبھے کھائی جا
مجھے کوئی حیرت نہ ہوتی اگر یہ ۔۔۔ کو بھی ایوارڈ دے دیتے۔