جیسی کرنی ویسی بھرنی!
ہائے ہائے کیا نخرے تھے ہمارے اب سے اکتالیس برس پہلے۔ ایوب خان کی جو شامت آئی تو اس نے چینی ایک روپے سیر سے بڑھا کر سوا روپے سیر کردی۔ بس پھر کیا تھا فرزندانِ توحیدِ پاکستان ماتم کناں سڑکوں پر نکل آئے اور وہ جو کہتے ہیں کہ قسمت خراب ہوجائے تو اونٹ سوار کو بھی کتا کاٹ لیتا ہے۔ تو یہی کچھ ایوب خان کے ساتھ بھی ہوا۔
اب حال یہ ہے کہ دسمبر میں چینی مل رہی تھی چونتیس روپے کلو۔ جنوری فروری میں مل رہی تھی بیالیس روپے کلو۔ مارچ سے جون تک دستیاب تھی پینتالیس روپے کلو، جولائی میں مل رہی تھی اڑتالیس روپے کلو، اگست کے پہلے ہفتے میں مل رہی تھی چون روپے کلو اور تیسرے ہفتے تک یہ پہنچ گئی ساٹھ روپے کلو۔
پاکستان چینی پیدا کرنے والا دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ لیکن یہاں کی شوگر مافیا اتنی ہی طاقتور ہے جتنی کہ سسلی کی سنڈیکیٹڈ مافیا یا افغانستان کی ڈرگ مافیا یا کولمبیا کی کوکین مافیا۔ اس ملک میں تراسی چینی ساز کارخانے ہیں جن میں سے پچاس کے لگ بھگ کارخانے ان کے ہیں جو مسلم لیگ ن، ق اور پیپلز پارٹی میں شامل ہیں یا ایوانِ صدر سے لے کر رائے ونڈ براستہ گجرات سالم تانگے میں آتے جاتے ہیں۔
جو اس قوم نے ایوب خان کے ساتھ کیا وہی شوگر مافیا نے اس قوم کے ساتھ کردیا۔ایک دفعہ نہیں، دو دفعہ نہیں، تین دفعہ۔ ہور چوپو تے چوپدے رہو!
تبصرےتبصرہ کریں
جناب چینی قوم نے مہنگی نہیں کی ہے بلکہ انہوں نے مہنگی کی ہے جو اس قوم سے مدینہ اور مکہ میں معافیاں اور قسمیں کھا کر آئے تھے کہ سدھر گئے ہیں۔ وہ جنہوں نے قوم کی لیڈر کے مرنے پر شہنشاہیت کا تاج پہن لیا ہے۔
افسوس یہ لوگ موت کو بھول گئے ہیں۔ پاکستان تو زندہ ہے زندہ رہے گا۔
پہلے مٹھی ميں پيسے لے کر جاتے تو تھيلا بھر چينی آتی اور اب تھيلے ميں پيسے لے کر جائيں تو مٹھی بھر چينی آتی ہے۔ ويسے چينی کے معاملے ميں مجھے آپ سے ’اتفاق‘ ہے۔ اميد ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے۔
سچی بات ہے اس لیے بہت سوں کو بری لگے گی۔ اصل میں ہماری قوم بنیادی طور پر ایک کرپٹ قوم ہے (ہاں میں بھی شامل ہوں) اسی لیے کرپٹ لوگوں کو بار بار ووٹ دے کر اپنا حکمران بنا لیتی ہے۔ ایسی قوم کے ساتھ ایسا نہیں ہوگا تو پھر اور کیسا ہوگا۔
سر جی ابھی تو تين چار سال باقی ہيں۔ اصل فلم تو ابھی باقی ہے، آپ ابھی سے گھبرا گئے۔ کم ازکم چينی کی قیمت سو روپے کلو تو ہونی چاہيے تاکہ لوگوں کو شوگر کا مرض تو نہ ہو۔ اگر چار پيسے اگلی نسلوں کے ليے بيچاروں نے کما ليے تو کيا ظلم ہوگيا، آخر ان کا بھی تو حق ہے پاکستان پر بلکہ يہ تو بنا ہی ان کے ليے ہے تو اپنے گھر ميں بھی بھلا کوئی حساب کرتا ہے۔ تو جناب دل کھول کر کمائیے تاکہ جو کل ہونا ہے وہ آج ہو جائے۔
34 سے 60 روپے تک کا سفر تو ہوا ليکن اصولاً يہ 68 ہونا چاہيے تھا کيوں کہ مسٹر10 پرسنٹ اب مسٹر 100 پرسنٹ ہوگئے ہیں۔ اس قوم کے ساتھ ايسا ہی ہونا چاہيے۔ فکر ناٹ۔
اور تو اور آج زرداری صاحب چين چينی لينے جا رہے ہيں۔
ہور چوپو تے چوپدے رہو!
وسعت اللہ خان صاحب آپ کی تحرير نے آنکھيں کھول دی ہيں۔ ہم غريبوں کی يہاں پہ سننے والا کوئی نہيں ہے۔ سب سياستدان ہميں اور اس ملک کو لوٹنے ميں مصروف ہيں۔ جن کو ہم نے چاہا ان کو ووٹ ديے اور انہوں نے ہميں پيٹ پر پتھر باندھنے پر مجبور کر ديا۔
’اپنے ہی گراتے ہيں نشيمن پہ بجلياں۔۔‘
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔
زبردست بلاگ ہے۔ ہمارے باپ دادا بتاتے ہيں کہ يہی کچھ ہوا تھا ايوب کے زمانے ميں ليکن اب پتا نہيں پاکستانی عوام بہت امير ہوگئی ہے يا اس کے پاس وقت نہيں ايوب دور کے مظاہرے کرنے کا
میں نے ايوب دور تو نہيں ديکھا لیکن ايک دوست مجھے بتا رہے تھے کہ جب سے پاکستان بنا ہے اور جتنے بھی حکمران اس ملک کو نصيب ہوئے ان ميں سے فيلڈ مارشل ايوب خان ايک ہيں جنہوں نے عوام کو ريليف ديا۔ اقتدار کے آخری دنوں ميں اس مافيا نے جنرل ايوب کو راستے سے ہٹانے ميں اہم کردار ادا کيا تھا۔۔۔(سنا ہے يہی وہ مافيا ہے جو من پسند حکمران تلاش کرتی ہے)
چينی کی قیمت کا اگر باقی دنیا سے مقابلہ کیا جائے تو ابھی بھی قدرے کم ہے۔ رہی بات غریب عوام کی تو وہ کونسا گورمنٹ کو ٹیکس دیتے ہیں جو گلہ کريں۔ شکر کريں مل تو رہی ہے۔ اصل ميں یہ لاٹھی ہلانے کے مختلف طريقے ہيں تاکہ بھیڑ (عوام) کا ذہن بدلا جائے۔ جب آوے کا آوا بگڑا ہو تو جتنا چوپ سکو چوپو کل کس نے ديکھا ہے۔
اس ميں کيا بڑی بات ہے۔ خير سے چينی اسی، نوے، سو بھی پوری کرلے گی فی کلو۔ ميرے خيال سے اکتاليس سال پہلے ہماری قوم جينے کے لیے کھاتی تھی نہ کہ ہماری طرح اب کھانے کے لیے جيتی تھی۔ ماشااللہ سے رات ميں پتہ چلتا ہے کہ چينی مہنگی تو صبح سے ہی زندہ کھاتی پيتی قوم قطار در قطار کھڑی ہو جاتی ہے خريدنے کے لیے۔ ہزار روپے کلو بھی ہو جائے تب بھی ہم خريديں گے ليکن چائے مر کے بھی بغير چينی کے نہيں پيئیں گے، نہيں پيئیں گے۔ حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہيں رينگتی اس کی وجہ ہيئر ٹرانسپلانٹ ہو سکتاہے۔ ان کے سامنے بندہ جل کر چرغہ بن جائے، کوئی فائدہ نہيں۔ جيسی عوام ويسے حکمران۔
جناب وسعت اللہ خان صاحب آپ دن رات مارشل لا اور ڈکٹیٹروں کی مخالفت کرتے نہیں تھکتے مگر اب یہ کالم لکھ کر آپ انہی ڈکٹیٹروں کی زبان بول رہے ہیں جو دن رات کہتے ہیں کہ سیاستدان ملک نہیں چلا سکتے۔ لہٰذا پاکستان میں جمہوریت جاری رہنے کا کوئی جواز نہیں۔