'اتفاق' سے 'آساپ' تک
چند برس قبل نیویارک میں پاکستان سے آنے والے صحافیوں کے حقوق کی تنظیم کے ایک رہنما سے میں نے پوچھا تھا 'آپ لوگ لاپتہ بلوچ ٹی وی جرنلسٹ منیر مینگل کی رہائي کے لیے آواز کیوں نہیں اٹھاتے؟' تو صحافی رہنما نے کہا تھا 'پہلے تو یہ پتہ کرنا ہے کہ منیر مینگل صحافی ہے کہ نہیں؟
منیر مینگل خلیج سے پاکستان آکر بلوچ ٹی وی چینل شروع کرنا چاہتے تھے۔۔۔ اپریل دو ہزار چھ میں جب وہ دبئي سے کراچي ائيرپورٹ اترے ہی تھے کہ انہیں مبینہ طور پر خفیہ ایجینسوں گرفتار کر لیا تھا اور پھر حکمران پرویز مشرف کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔
پاکستان ميں جو پریس کی نام نہاد آزادی کے بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں اسکی کئي مثالیں تو پرویز مشرف کی سابقہ فوجی حکمرانی میں دیکھ چکے ہیں جب وکلاء کی تحریک کی کوریج کے دوران صحافیوں کے خلاف بھی آمریت اپنا ننگا ناچ ناچی تھی۔ قبائیلی علاقوں میں کام کرنے والے صحافیوں کے ساتھ تو بغداد پہلے سے ہی ہو رہا تھا اب بلوچ صحافی ملک سراج اکبر کے بلوچستان کی شورش پر لکھا آرٹیکل 'ٹائمز آف انڈیا' میں چھپنے پر صحافی کے خلاف بھونچال برپا کیا ہوا ہے۔ کیا فوجی ایجنسیوں کے فرشتے کیا ان کی کاسہ لیس 'قومی پریس' ہر طرف 'غدار غدار' اور ملک دشن کی ہاہاکار مچی ہوئي ہے۔
اور اب کوئٹہ سے نکلنے والے روزنامہ آساپ (بلوچي میں 'آس' آگ اور 'آپ' پانی کو کہتےہیں) نے روز روز کی نگرانی، جاسوسی اور ہراساں کیے جانے کے بعد احتجاجاً اخبار ہی بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پہلے اخبار کے چیف ایڈیٹر جان محمد دشتی پر مبینہ طور ایجینسوں نے قاتلانہ حملہ کروایا تھا۔ کوئٹہ سے نکلنے والے اس اردو روزنامے نے گم شدہ بلوچوں کی فہرست شائع کی تھی اور زرینہ مری کے ساتھ ریاستی تحویل میں ہونے والی مبینہ زیادتیوں کا پردہ چاک کیا تھا۔ ملک سراج اکبر اور 'آساپ' صحافیوں کے حقوق کی تنظیموں کے راڈار پر نہیں کیونکہ ان کے پاس ان کی طرف سے حب الوطنی کا سرٹیفیکیٹ نہیں ہے۔ اس سے پہلے سابقہ مشرقی پاکستان میں ڈھاکہ کےاخبار 'اتفاق' کے ساتھ ایسا ہوتا تھا۔
پاکستان میں پریس کی آزادی بلوچوں یا بلوچوں کی بات کرنے کے لیے نہیں ہے کہ اس سے قومی نظریاتی ریاست کی بنیادیں ہل جاتی ہیں۔۔۔ پاکستان جیسا نظریاتی اور نیوکلیائي طاقتور ملک بلوچی زبان کا نجی چینل برداشت نہیں کرسکا!
تبصرےتبصرہ کریں
حسن بھائی حب الوطنی کے سرٹیفکٹ پتہ نہیں کہاں شائع ہوتے ہیں اور پتہ نہیں کون ان پر دستخط کرتا ہے۔ آج کے دور میں پاکستان میں حق لکھنا، بولنا، سنانا، حق کا ساتھ دینا جرم ہے اور اس جرم کی ہی سزا بلوچ بھائیوں کو دی جا رہی ہے جن کو حقوق تو نہیں دیے گیے لیکن غداری کے سرٹیفکٹ دیے جا رہے ہیں جو دینے والے دراصل اپنے ملک سے مخلص نہیں۔
حسن صاحب امريکہ ميں بيٹھ کر آزادی صحافت کی بات کرنا اور بات ہے اور پاکستان میں بیٹھ کر صحافت کرنا اور بات۔ ہمارا پریس اور میڈیا نہ تو آزاد ہے اور نہ ہی غیرجانبدار۔ کلمہ حق بھی اپنے اخبار/چینل کے مفادات کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ اگر آپ پاکستانی چینل دیکھتے ہوں تو آپ کو بھی اندازہ ہوگا کہ حق، انصاف، عوام اور ملک کی بات اس وقت تک منہ سے نہیں نکلتی جب تک مالک کی مرضی نہ ہو اور پاکستان میں مالک کتنے ہیں کچھ پتہ نہیں۔ ایسے میں بیچارے مینگل اور آساپ کی بات کون کرے؟
پاکستان ميں جب کسی نے کوئی غير محب وطن یا غير قانونی کام کرنا ہو تو وہ تحفظ کے لیے کسی تنظيم ميں شامل ہو جاتا ہے يا صحافی بن جاتا ہے۔ ايسے ميں اسے قابو کرنے کے لیے کوئی واضع قانون موجود نہيں کيونکہ قانون بنانے کا موقع ہی نہيں ديا جاتا، تو ایسے ميں ايجنسياں وہ کام کرتی ہيں کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ ميرے خیال ميں جو صحافی یا اخبار قانون کے اندر رہتے ہيں ان کو کچھ نہيں کہا جاتا آخر قانون کا احترام تو ضروری ہے۔
آپ کو بس لکھنا ہے، يہ بھی اس کی ايک کڑی ہے۔۔۔ حيرت ہے آپ تنقيد پر آتے ہو تو بھٹو کو ضياع سے بڑا ولين پيش کرتے ہو اور تعريف تو بگٹی مينگل ہيرو بن کر پيش ہوتے ہیں۔۔۔ بلوچستان میں آج بھی قبائلیوں کی لڑائی میں لوگ مرتے ہیں نہ کہ فوج سے، کبھی اس پر بھی قلم اٹھائیں۔۔۔
آپ کا بہت شکريہ کہ آپ لوگوں نے بلوچستان کی صورت حال اور درپيش مسائل پر روشني ڈالي۔ جو اکثر آزاد ميڈيا کے دعويدار پاکستانی ميڈيا میں نظر نہیيں آتي اور شايد اس وقت تک نہآئے جب تک وہ خود اس کا شکار نہ ہوں۔۔۔ اور اب يہ کہ پاکستانی جارحيت يہاں تک محدود نہیں بلکہ اس فوجی قوت سے روزنامہ ’آزادي‘ اور ’بلوچستان ایکسپریس‘ جو کوئٹہ سے نکلتے ہیں بھی اسی طرح کی مشکلات کا شکار ہیں۔ اميد ہے آپ لوگ ان حالات و واقعات کا مزيد تجزيہ کريں گے۔ شکريہ
میرا خیال ہے کہ پاکستانی ریاست کو اب نوشتہ دیوار پڑھ ہی لینا چاہیے، مظلوموں، مجبوروں، اور مصلوبوں کے حقوق بندوقوں کی نوک پر دبانے سے آواز حق بھلا کب خاموش ہوئی ہے؟ پاکستانی حکمران جبر کی طاقت کے ذریعے کشمیر سے لے کر بلوچستان تک آگ اور بارود کی وہ فصل کاشت کر رہے ہیں جو بلاخر انہیں خود ہی کاٹنی پڑے گی۔ حقائق وہ نہیں جو پاکستانی سرکار کے قلعوں کی فصیلوں سے دکھلاہی دیتے ہیں۔ ایک نیا تضاد ظہور پزیر ہوچکا ہے۔۔۔ جو شاید ہر کسی کو اچھا نہ لگے۔ مگر حقیقت بھلا کب محتاج داد ٹھہری؟
پاکستانی رياست کچہ بھی کر سکتی ہے۔۔۔آساپ چيز کيا ہے، کہیں بی بی سی کو بند نھ کر دیں۔۔۔
حسن صاحب ہم لوگ آزادی کا اتنا غلط استعمال کرتے ہيں کہ يہ بھی نہيں سوچتے کہ کونسی بات کس کے لیے کتنی دل آزاری کا باعث ہے۔ ايسے ميں ايک چھوٹا سا چينل برداشت نا کرنا ايک ايسا عجيب سا ڈر ہے کہ جِسے شايد ہمارے حکمران اتنی طاقت رکھتے ہوئے بھی يہ سمجھتے ہيں کہ نا جانے کب کيا ہو جائے۔ ايسے ميں ايسی بيوقوفياں تو سر زد ہوتی ہی ہيں۔ يہ بات بالکل ويسی ہی ہے جيسی عراق ميں بش کے آخری خطاب کے دوران ہوئی تھی کہ کبھی کبھار پلٹ کر چيونٹی بھی ہاتھی کو کاٹ ليا کرتی ہے تو ہاتھی بھی اپنی طاقت کا کيا کرے؟
حسن صاحب آپ نے يہ تو بتايا نہيں کہ ساری دنيا ميں صحافی بھائی کو بھارتی اخبار ہی کيوں ملا تھا اپنی آواز دنيا تک پہنچانے کے ليے؟
مجتبیٰ صاحب،
یہی تو رونا ہے بلوچ قوم کا کہ یہاں کے اخبارات، ٹی وی نیوز اور ٹاک شوز میں کشمیر میں ہونے والے چھوٹے سے چھوٹے واقعہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور انڈیا کے سیاست دان جسونت سنگھ کے ساتھ ہونے والے متعصب برتاؤ پر تو کئی گھنٹوں تک بات ہوتی رہتی ہے لیکن بلوچ قوم کے ساتھ ہونے والے ظلم کے بارے میں تو یہ سب آنکھ بند کردیتے ہیں۔ یہ شکوہ صرف صحافیوں سے نہیں ہے بلکہ یہاں پر انسانی حقوق کے بڑے بڑے دعوے کرنے والے لوگ بھی بلوچوں کے معاملے میں بڑی آسانی سے چُپ ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اِس مسئلے پر بات کرنے پر سختی سے پابندی ہے۔
بلوچ قوم اِس برتاؤ کو اچھی طرح جانتی ہے اور اِسی لئے بلوچ قوم کے پاس اپنی شناخت کو بچانے کے لئے سوائے لڑ کر مرنے کے اور کوئی چارہ نہیں۔
جناب حسن مجتبیٰ صاحب شاید آپ کو معلوم نہیں ہے کہ دنیا کے تمام ممالک میں ملک کے خلاف لکھنے یا ریاستی پالیسیوں کے خلاف لکھنے والوں کو اسی طرح نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بھارت میں جو کچھ جسونت سنگھ کے ساتھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ آپ خود امریکہ جیسے ’لبرل‘ ملک میں رہتے ہیں، ذرا ہمت کر کے القاعدہ اور جہاد کے حق میں کچھ لکھ کر تو دکھائیں، اس کے بعد دیکھیے گا کہ امریکہ جیسا آزادی صحافت کا چیمپئن آپ کے ساتھ کیا کرتا ہے۔۔ آپ شاید بھول گئے ہیں کہ برطانوی فوجی کمانڈروں نے فاک لینڈ کی جنگ کے دوران ملکی پالیسیوں کے خلاف رپورٹنگ پر بی بی سی کے خلاف ’غداری‘ کا مقدمہ درج کرنے کی تجویز دی تھی۔
آپ تو شاید یہ بھی بھول گئے ہیں کہ ابھی کچھ دن پہلے ہی بی بی سی کی اپنی رپورٹ کےمطابق وائس آف امریکہ نے امریکہ کے کہنے پر امریکہ میں گرفتار پاکستانی صحافی کی خبر نہیں چلائی تھی۔
حسن صاحِب ہم لوگ آزادی کا اِتنا غلط اِستعمال کرتے ہیں کہ يہ بھی نہیں سوچتے کہ کونسی بات کِس کے لیے کِتنی دِلآزاری کا باعِث ہے۔ ايسے ميں ايک نِجی چھوٹا سا چينل برداشت نہ کرنا ايک ايسا عجيب سا ڈر ہے کہ جِسے شايد ہمارے حُکمران اِتنی طاقت رکھتے ہُوئے بھی يہ سمجھتے ہيں کہ نہ جانے کب کيا ہو جائے۔۔۔ ايسے میں ايسی بےوقُوفياں تو سر زد ہوتی ہی ہیں۔ يہ بات بِالکُل ويسی ہی ہے جيسی عِراق ميں بُش کے آخری خطاب کے دوران ہُوئی تھی کہ کبھی کبھار پلٹ کر چيُونٹی بھی ہاتھی کو کاٹ ليا کرتی ہے، تو ہاتھی بھی اپنی طاقت کا کيا کرے؟
آساپ کے ایڈیٹر جان دشتی ہیں، نہ کہ نصیر دشتی جو ان کے بھائی ہیں۔ جان دشتی پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔۔
بلوچوں کا مسئلہ ان کے سردار ہیں، ان سے جان چھڑا لیں تو آگے بڑھ سکتے ہیں۔۔۔
بلوچستان کےساتھ زيادتی فوج سے پہلے تو خود بلوچ سرداروں نےکی ہے اور کر بھی رہے ہيں۔ سکول سرداروں نے بيٹھک بنائے ہوئے ہيں، ہسپتال نہيں، تھوڑی بہت بجلی،گيس ہے ترقی کےنام پر جسے بلوچ خود روزانہ کی بنياد پر دھماکوں سے اڑا ديتے ہيں۔ ريلوے ٹريک اڑانا تو پسنديدہ مشغلہ بن چکا ہے۔ ايسے ميں کيا ترقی ہو جب بلوچستان اسمبلی ميں بھی يہی سردار، جاگيردار بمع فيملی نسلوں سے براجمان ہیں۔ فوج پر ہر وقت تنقيد اچھی نہيں۔
بی بی سی کا کام صرف ایسے مضامين شائع کرنا رہ گيا ہے جن سے پاکستانيوں کی حوصلہ شکنی ہو۔ پاکستان قائم رہنے کے ليے بنا ہے اور انشااللہ ہميشہ قائم رہے گا۔
آخر سچ کون بول رہا ہے اور جھوٹ کون بول رہا ہے، کيا اس سارے قصہ ميں سب سے بڑا مظلوم سچ ہے۔
کبھی ان لوگوں کے بارے میں بھی کچھ لکھیں جو کھلم کھلا انڈیا سے مدد مانگ رہے ہیں۔