'گِو دی ڈیول ہِز ڈیو'
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ جی بڑی ہی'ان پرڈکٹیبل' ٹیم ہے، کبھی بھی کچھ بھی کر سکتی ہے، ابھی زیرو تو ابھی ہیرو، ٹیلنٹ بڑا ہے جی لیکن ٹیم ورک نہیں ہے۔
یہ سب باتیں حقیقت سے زیادہ دور نہیں لیکن بعض اوقات ان کی وجہ سے ٹیم کی کامیابیوں اور کارناموں میں قسمت نامی شے کو کچھ زیادہ ہی اہم رول دیا جاتا ہے اور ٹیم کے کھلاڑیوں کو مکمل کریڈٹ نہیں ملتا۔ یہ تقریباً ایسے ہی ہے کہ جب ہم کسی کو چھپا رستم کہتے ہیں تو اس میں کہیں یہ بات بھی پنہاں ہوتی ہے کہ بھئی ہم نہیں سمجھتے تھے کہ آپ اس قابل ہیں۔
اس بار بہت بڑی تعداد میں تو نہیں لیکن ٹی وی پر کرایہ کے جملہ بازوں اور فیس بک کے مفت ورچوؤل دانشورں نے کم از کم سیمی فائنل تک پھر سے وہی راگ الاپا کہ واہ کتنی 'ان پرڈکٹیبل' ٹیم ہے، ان کے بارے میں کچھ بھی کہا نہیں جا سکتا۔
تاہم اس بار کھیل اتنا سادہ نہیں تھا کہ لگا تو لگا ورنہ گھر واپس۔۔۔ ابتدا میں سری لنکا سے شکست اور سوپر ایٹ راؤنڈ میں انگلینڈ سے ہار کے باوجود پاکستان نے ورلڈ ٹونٹی ٹونٹی ٹروفی ایک حکمت عملی، ایک 'میتھڈ' کے تحت جیتی ہے۔
پاکستان نے نہ صرف سیمی فائنل میں ٹورنامنٹ کی مظبوط ترین ٹیم جنوبی افریقہ کو (جی ہاں، جنوبی افریقہ بڑے میچ کے پریشر سے نہیں ہارا وہ پاکستان سے ہارا)، بلکہ اس سے قبل نیوزی لینڈ اور آئرلینڈ کو نپی تلی 'ڈسیپلنڈ' بولنگ اور بادماغ 'فیلڈ سیٹ' کی بدولت شکست دی۔
عمرگل کی، جو اس ٹورنامنٹ کے بہترین بولر تھے، تیر انداز یارکرز، خاص طور پر میچ کے آخری اوورز میں، آفریدی کی 'چالاک' لیگ سپن اور بیٹسمین کے لیے زمین تنگ کرنا اور اس کے بعد سعید اجمل کا فلائٹ دے کر انڈر پریشر بیٹسمن کو زیادہ رسک لینے پر مجبور کرنا۔۔۔ یہ سب ایک پلان، ایک لائحہ عمل کے تحت ہوتا رہا۔
اسی طرح آفریدی کو ون ڈاؤن کھلانے کا 'گیمبل' جو دونوں مرتبہ فیصلہ کن ثابت ہوا۔۔۔ فائنل میں سری لنکا کے ابتدائی بیٹسمینوں کو پہلے اوورز میں ہی واپس پیویلین بھیجنا مثلاً ٹونٹی ٹونٹی کی بے لگام رن مشین دلشان کے لیے صحیح فیلڈ سیٹ کرنا اور کریز پر انکی جگہ تنگ کر کے انہیں غلط شاٹ کھیلنے پر مجبور کرنا، اس سب کا سہرا کپتان یونس خان کی سوچ کو جاتا ہے۔ ٹیم کی تھنک ٹینک کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا، قسمت نہیں۔ قسمت سے ایک آدھ میچ جیتا جاتا ہے، ٹورنامنٹ نہیں۔
گزشتہ دنوں جنوبی افریقہ میں جب آئی پی ایل ٹورنامنٹ جاری تھا تو سچن تندولکر سے کرکٹ کے قدامت پسندوں کی تنقید کے بارے میں پوچھا گیا۔ ناقدین واویلا ہیں کہ ٹونٹی ٹونٹی سے کرکٹ تباہ ہو رہی ہے، اس کی وجہ سےکرکٹ کا وقار کم ہو رہا ہے اور ہاں، ٹونٹی ٹونٹی کا ہر میدان بولرز کا قبرستان ہے۔۔۔ سچن نے اپنے روایتی سادہ انداز میں کہا کہ مجھے صرف اتنا پتا ہے کہ فارمیٹ کوئی بھی ہو، آپ کی طرف ایک گیند آ رہی ہے اور آپ کو اس سے ڈیل کرنا ہے۔ پاکستانی ٹیم کے کورٹ میں آنے والی بال کو کھلاڑیوں نے اپنی قابلیت سے بخوبی ڈیل کیا، تکا نہیں تھا۔'گِو دی ڈیول ہِز ڈیو۔'
تبصرےتبصرہ کریں
کيا غضب کي منصوبہ بندی تھی! اگر يہ اکيلے يونس خان کا کمال تھا تو ٹوينٹي - 20 سے ريٹائرمنٹ کے باوجود انہيں ٹيم سے منسلک رکھنا ہو گا۔ ورنہ ايسا زرخيز دماغ کوئی اور لے اڑے گا۔۔۔
پاکستانی کرکٹ ٹيم کی جيت يقيناً کھلاڑيوں کی قابل قدر محنت اور بہترين حکمت عملی کا نتيجہ ہے جس کے لئے کھلاڑيوں اور پوری قوم سميت کرکٹ کنٹرول بورڈ بھی مبارک باد کا مستحق ہے کہ جنہوں نے اپنا کام کسی حد تک ايمانداری سے سرانجام ديا تو اس کے نتائج بھی دنيا کے سامنے ہيں، جبکہ ماضی قريب میں مشرفی آمريت ميں جہاں ملک کا ستياناس کرنے کے لئے وہ خود موجود تھے، کرکٹ کا سوا ستياناس کرنے کے لیے ان کا ايک چہيتا اپنی تمام تر ناکاميوں کے باوجود کرکٹ پر مسلط رہا۔
جناب وحيد مرزا صاحب، بالکل صحيح بات کہی آپ نے۔ لگتا ہے پاکستان کی کرکٹ ٹيم آہستہ آہستہ ميچور ہو رہی ہے اور اپنی غلطيوں سے سبق سيکھنا کيسے ہے يہ بات سيکھ گئی ہے۔ اکثر يہ خيال کيا جاتا ہے کہ کرکٹ ٹيم ميں پاکستانی قوم کا عکس نظر آتا ہے۔ اب اللہ کرے کہ پاکستانی قوم بھی منصوبہ سازی اور اجتماعی سوچ و فکر کی اسی سطح پر پہنچ گئی ہو جس پر کہ کرکٹ ٹيم پہنچی ہے۔
بس يہ بتانے کے لیے زحمت کيوں کی بلاگ لکھنے کی کہ انپريڈکٹيبل ٹيم ہے پاکستانی۔۔۔ بلکہ ہماری قوم ہی ايسی ہے! بس اب خوشياں منايئں، لکھنا اور مزيد سوچنا ميچ پر چھوڑديں۔۔!
’ویل ڈن پاکستان‘۔ ہمیں امید ہے ہم دنیا میں ایک اچھا امیج پیدا کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ گُڈ لک پاکستان! جیو تو ایسے!
آپ کا تجزیہ بالکل درست ہے۔ واقعی کافی گیم سپِرِٹ تھی پاکستان کی ٹیم میں۔ شروع میں فیلڈنگ کافی خراب تھی لیکن بعد میں کافی حد تک سیٹ ہو گئی۔ اور جہاں تک بات ہے ’ان پریڈیکٹیبل‘ کی، یہ تو ہماری پوری قوم کا مسئلہ ہے۔ جب سر پر پڑتی ہے تب ہی کچھ کرتے ہیں۔۔۔
مجھے سب سے زيادہ خوشی يہ جان کر ہوئی ہے کہ بی بی سی کے پاس عبدالرشيد شکور کے علاوہ بھی کوئی کرکٹ سمجھنے والا موجود ہے۔ ليکن اپ کا تجزيہ بھی لاجواب ہے۔
یونس خان کی منصوبہ بندی ہرمیچ میں بہت اچہی رہی۔
خاکسار اپنے تبصروں میں بی بی سی اردو ڈاٹ کام ہی کے ’آپ کی آواز‘ فورم میں متعدد بار کہہ چکا ہے کہ یونس خاں کی حکمت عملی و دوراندیشی و بالغ نظری و وسعت نظری و اوور آل میچ پر نظر ہی کی بدولت پاکستان فائنل تک پہنچا۔ تجربہ، ذہنی بلوغت، سنجیدگی، بیک وقت اندروں و بیروں بینی یہ سب باتیں یونس خان میں موجود ہیں اور غالباً یہی وجہ ہے کہ ان کو ورلڈ ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ ٹیم کا کپتان بنایا گیا ہے۔ کمانڈ ہمیشہ سینئر اور تجربہ کار کھلاڑی کو ہی ملنی چاہیئے۔ یونس خان نے ٹونٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں بالخصوص سیمی فائنل اور فائنل میں جو رول ادا کیا اسی کی بدولت پاکستان ورلڈ چمپئین بن سکا ہے۔ ویسے بھی کہتے ہیں جہاں بزرگ ہوں وہاں ’رحمت‘ ہوتی ہے۔ لیکن یہ بات ہمارے لاابالی و متحرک و چاک وچوبند نوجوان نہیں سمجھتے اور محض جذبات میں شاہد آفریدی کی پھرتیاں، چھلانگیں، بھاگ دوڑ دیکھ کر اس کو ٹیم کا کپتان بنانے پر واویلا کرتے ہیں جو کہ ان کی عقل و دانش کی بجائے ’افراتفری‘ طبیعت کو ظاہر کرتے ہیں۔۔۔
مجھے تو صرف اس بات کی خوشی ہے کہ شاہد آفریدی اب بڑے ہو گئے ہیں۔۔۔
جناب بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔۔۔
یہی یونس ابوظبہی سیریز میں کہاں تھے؟
تو طے ہوا کہ منصوبہ پر عمل کرنا اور کرانا اُس کو بنانے سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔۔۔
مثلاً ٹونٹی ٹونٹی کی بے لگام رن مشین دلشان کے لیے صحیح فیلڈ سیٹ تو کر دی لیکن گیند کس نے پھینکا اور کیچ کس نے لیا۔۔۔
اصل میں پاکستان کی پہلی ناکامیوں پر پنجابی کی یہ کہاوت صادق آتی ہے
’'من چور۔۔۔تے حُجّتاں ڈھییر‘
اور موجودہ کامیابی پر اردو کا یہ مصرع
’ہمّت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا؟‘
جسے عالم نے انتخاب کيا وہی ہے انتخاب عالم!
جناب اعلی يہ کہنا کہ پاکستان نے تکے ميں کاميابی حاصل کی کھلاڑيوں اور کرکٹ کے ساتھ سراسر زيادتی ہوگی ليکن محترم کيا ہی بہتر ہو کہ گيم پلان اور کارکردگی ہر ٹورنامنٹ ميں يکساں رہے۔ ہار جيت تو کھيل کا حصہ ہے ليکن اچھا اور پلان کے مطابق کھيل کر ہار بھی جائيں تو نتيجہ باب وولمر کی طرح خوفناک تو نہيں نکلے گا۔ جہاں تک کپتان کی بات ہے تو حضرت ان کے چند بيانات نظر کر رہا ہوں خود ہی فيصلہ کر ليں ان کے کمٹمنٹ کا۔ انگلينڈ سے شکست کے بعد موصوف کا کہنا تھا ٹونٹی ٹونٹی پيسوں کا فن گيم ہے، اصل کرکٹ تو ون ڈے يا ٹيسٹ کرکٹ ہے۔ اگر پاکستان ہار بھی جائے تو يہ چونکا دينے والی بات نہيں ہوگی کيونکہ ٹونٹی ٹونٹی محض انٹرٹينمنٹ ہے۔ جناب اعلی سچن والا فلسفہ ان کے لیے بھی کارآمد ہے۔ اس کے علاوہ دوران ميچ ان کے غلط فيصلے اور عجيب حرکتيں۔ بہر حال اپنی بات ايک کرکٹر کی ہی بات پر ختم کروں گا کہ ’جيت ہر عيب کو چھپا ديتی ہے‘۔۔۔ اور ہم جيت گئے ہیں۔۔۔
پاکستانی قوم کی خوشياں مزيد بڑھ جائیں گی اگر ورلڈ کپ کی ميزبانی دوبارہ مل جائے۔۔۔
تمام شايقين کو دل کی گہرايوں مبارکباد قبول ہو۔۔۔
کرکٹ کھيل ہی چانس کا ہے۔ ابھی کيا تھا ابھی کيا ہے کے عالم ميں پيشن گوئی بے معنی ہوتی ہے ليکن پھر بھی بڑے بڑے ماہرين امکانيات شمارياتی حوالوں سے اس گيم پر سٹہ بازی کرتے نہيں تھکتے۔۔۔ بس يوں سمجھيے کہ کرکٹ تھوڑی کھلاڑيوں، تھوڑی خدا اور تھوڑی شيطان کی مرہون منت ہو کر بہت بڑی گيم بن جاتی ہے۔ اس بار کی پاکستانی جيت نے اہل وطن کو مسائل کی دلدل ميں پھنسے اميد کی راہ دکھائی ہے۔۔۔