جیسا موڈ، 'وتنا' سکور!
'ابو دیکھیں میں ابھی جوآئے سٹِک موو کر رہی ہوں۔ یہ دیکھیں، ٹھشوں، ٹھشوں، ٹھشوں۔۔۔ یہ تیسرا ننجا بھی گیا۔۔۔ اور یہ چوتھا۔۔۔ ٹھشوں، ٹھشوں، ٹھشوں، ارے یہ تو بچ گیا۔۔۔ کوئی بات نہیں، نیکسٹ ٹائم مار ڈالوں گی۔۔۔'
اور پھر میری بیٹی نے مجھے بھی باتوں میں لگا لگا کر اور لگا لگا کر وڈیو گیمز کی لت ڈال دی۔ سپرمین، بلیک ننجا، افریکن گوریلا، مرین ہنٹرز، اور جانے کیا کیا۔۔۔ مجھے نہیں یاد کہ میں نے کتنے ننجاز، کتنے گوریلے اور مرین ہنٹرز کی مدد سے کتنے فنڈوز مارے۔ کبھی میرا سکور دو سو ہوتا تو کبھی پانچ سو تو کبھی پندرہ۔ جیسا موڈ، وتنا سکور۔
وڈیو گیمز کی لت بہت بری ہے۔ مگر اچھی بات یہ ہے کہ جوآئے سٹِک وڈیو گیم کے ہیرو اور ولنز کو کنٹرول میں رکھتی ہے۔ جب تک جی چاہے دشمنوں کو مارتے رہیں۔ جب بور ہو جائیں تو گیم شٹ آف۔ پھر شروع ہوجائیں۔ ٹھشوں، ٹھشوں، ٹھشوں۔۔۔
ایک اور مزہ دار بات یہ ہے کہ کسی بھی گیم میں آپ جتنے بھی کردار مار ڈالیں، ان کی تعداد کم نہیں ہوتی۔ مگر آپ کا سکور بڑھتا چلا جاتا ہے، اور فتح کا اصلی جیسا سرور محسوس ہوتا رہتا ہے۔
مجھے تو لگتا ہے جیسے سوات اور فاٹا وڈیو گیمز ہیں۔۔۔ ٹھشوں، ٹھشوں، ٹھشوں۔۔۔ پندرہ طالبان مرگئے۔ ٹھشوں، ٹھشوں، چالیس۔۔۔ ٹھشوں، ٹھشوں، ساٹھ۔۔۔
مارتے جائیں، کھیلتے جائیں، مارتے جائیں، کھیلتے جائیں، مارتے جائیں، کھیلتے جائیں۔۔۔
خدا تاقیامت غالب کا نام رکھے جس نے ورچوال ری ایلٹی پر مبنی وڈیوگیمز کا تصور یہ کہہ کر متعارف کروایا تھا
'تھا خواب میں خیال کو دل سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی، نہ زیاں تھا، نہ سود تھا'
تبصرےتبصرہ کریں
سوات و مالاکنڈ و بونیر متاثرین کے لیے امریکی ’امداد‘ کو سامنے رکھا جائے تو اگر یہ وڈیو گیم والا ہی کھیل ہے تو بھی یہ ملک و عوام کی بہتری ہی کے لیے ہے۔ اس کھیل سے ’آئی ایس آئی‘ نے وطن کی حفاظت کا بیڑہ اٹھایا ہوا ہے جس سے اس کے خلاف ملکی و غیر ملکی پراپیگنڈہ کہ یہ طالبان سے ملی ہوئی ہے، زمین بوس ہو جاتا ہے۔ یہ کھیل کھیلنے والے صحیح معنوں میں پاکستان کو ’استعمار‘ سے بچائے ہوئے ہیں، ورنہ اس کھیل کو ’حقیقت‘ کا روپ دلوانے کے لیے ایم کیو ایم کے ‘طالبانائزیشن ڈھول‘ نے تو کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ البتہ ایک بات ابھی واضح نہیں کہ صرف پاکستانی فوج ہی یہ کھیل کھیل رہی ہے یا اتحادی بھی باقاعدہ یہی کھیل کھیل رہے ہیں جیسا کہ ان کے ڈرون حملوں سے نظر آتا ہے۔
محترم وسعت اللہ خان صاحب،
يہ بھی تو بتاديں کہ سوات اور قبائلی علاقوں ميں کھيلی جارہی اس ورچول گيم کی جوآئے سٹِک کس کے ہاتھ ميں ہے۔ اور ہاں نئے ننجا ’پنجابی طالبان‘ کے بارے ميں کيا خيال ہے۔
کسی کالم نگار نے بھی حکومت کو يہ تجويز نہيں دی کہ طالبان مارنے کی بجائے طالبانی سوچ کو مارو جو شايد اکثر پاکستانيوں کی ہے۔ اس لیے ان کو ہر جگہ جنت کے خواہشمند مل جاتے ہيں۔ اگر ميڈيا پر حکومت دھماکوں ميں زخمی بچے اور ايسے اشتہار دکھائے جن سے طالبان حمايت ميں کمی ہو تو دھماکے بھی ختم ہو جائيں گے۔
کيا تختی پہ چت مارا واہ! غريب غالب گھسيٹا بيچارا!
اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جوآئے سٹِک پاک فوج ٹھہری۔ تو پھر کھلاڑی کون ہے؟
وسعت صاحب لکھا خوب ہے مگر خوف اس بات کا ہے کہ اگلے سو سالوں ميں کہيں يہ گيم ويڈيو سے ہٹ کر حقيقت کا روپ نہ دھار جائے۔
ہم ماں بيٹا تو صرف ريسلنگ ہی کھيلتے ہيں۔ ميں اب تک کئی ٹائٹلز جيت چکی ہوں پر ہار کا خوف بھی بڑا عجيب ہوتا ہے۔ ہارا ہوا بھی ہار نہيں مانتا آخر تک اور بدلہ پہلے سےخوفناک ليا جاتا ہے۔
وسعت صاحب ميری آپ سے يہ گزارش ہے کہ پاکستان پر کبھی اچھا بھی لکھ ليا کريں۔
بعض ظالم یہ کہتے ہیں کہ اگر یہ ویڈیو گیم والا گیم بھی ہے تو پاکستان کی بہتری کے لیے ہے۔ واہ جی واہ! یہ یقیناً گیم ہی ہے لیکن اس کے لیے سوات جیسی خوبصورت وادی کا انتخاب کیوں کیا گیا۔ جناب سائکو صاحب! سوات کے بے قصور عوام کے ساتھ بدترین خونی مذاق ہوا ہے۔ بس، اپنی فوج سے کہہ دیں کہ اس سے پہلے کہ مزید ننگی ہو جائے بس کریں یہ ڈرامہ۔۔۔
وسعت صاحب ایک چیز جو ویڈیوگیم میں بڑی اہم ہوتی ہے وہ ہے لیول وِن کرنا، اپنی سکِلز بڑھاتے جانا اور آخر کار بدکار یا وِلن کو ختم کر کے گیم کا اختتام کرنا اور جیت جانا۔ اللہ خیر رکھے تو آخر کار جیت ہماری ہی ہوگی۔ دوسری بات یہ کہ جوائے سٹک تو ہمارے ہاتھ میں ہی ہے لیکن مقابلہ کمپیوٹر سے اور اُسی کے پلیٹ فارم پر ہے۔۔۔اور یہی اصل مشکل ہے کہ دشمن کو اُسکے گھر میں گُھس کے مارنا۔۔۔اللہ پاکستان کی خود حفاظت کرے۔۔۔آمین
جناب وسعت
يہ گيم نہیں۔ يہ ليڈروں اور ڈالروں کی لڑائی ہے۔ ايسے حکمران جنہیں اپنے اعمال کی وجہ سے جيل کاٹنی پڑے، ان کو اسلام کی کيا فکر ہوگی۔ يہ حکمران ايسا اسلام پسند کرتے ہیں جو عيسائی تسليم کریں۔ ايسا اسلام نہيں چاہتے جو اللہ اور اس کے رسول نے صحيح قرار ديا تھا۔ وہ اسلام عورت کو پردے کا حکم ديتا ہے ناکہ ناچ گانا۔
واہ وسعت اللہ خان صاحب اتنی خطرناک گيم کا تو ميں پہلی بار سن رہا ہوں۔ دنيا کی سب سے بڑی نقل مکانی، بيگناہ قبائل پر ڈرون حملے، افغانستان ميں فوجيوں کی تعداد 120000 تک بڑھانا، امريکہ کی مشرقی وسطیٰ کے تيل کی ذخائر سے اتنا پيار، اسلامی نظريہ کشی، زرداری کا صدر بننا، پاکستان کے ايٹمی اثاثے زير بحث آنا اور نہ جانے کيا کيا۔۔۔
’دامن پہ کوئی چھينٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو!‘
بھئی بہت خوب
جہاں سے سب کے تجزیے ختم ہوتے ہيں وہاں سے آپ کا تبصرہ شروع ہوتا ہے۔
لگے رہو وسعت اللہ بھائی
وسعت اللہ بھائی، آخر طنز کی بھی کوئی حد ہوتی ہے، جب دیکھو آپ پاکستان کے خلاف طنزیہ باتیں کرتے رہتے ہیں۔ اگر اللہ نے آپ کو قلم کی طاقت دے ہی دی ہے تو اس کو اچھی باتوں میں صرف کریں، ورنہ یہ عوام میں مزید مایوسی پھیلانے کے برابر ہے۔ کبھی امید سحر کی بھی بات کر لیا کریں، کبھی زخموں پر مرہم کی بھی بات کر لیا کریں۔۔ شکریہ
یہ تو معلوم نہیں سر جی کہ آپ نے یہ ویڈیو گیم کھیلی ہے یا نہیں مگر سوات آپریشن پر ایک کمپنی نے ویڈیو گیم بنا ڈالی ہے۔۔۔یاد رہے۔۔۔کمپنی کا نام پاکستان نہیں۔