ملاؤں کو نہ چھیڑیں
ایرانی انتخابات میں صدر محمود احمدی نژاد کو واضح اکثریت ملنے کے باوجود اگر اعتدال پسند قیادت انہیں قبول نہیں کرتی تو وہ قدامت پسندوں سے بھی بدتر ہونے کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
کیونکہ 'مغربی جمہوریت' کا شاید تقاضا بھی یہی ہے کہ انتخابی عمل میں شامل ہوکر اگر کوئی فاتح بن کر ابھرتا ہے تو اکثریت کی رائے کا احترام کیا جائے گو کہ مغربی جمہوریت کو حماس، حزب اللہ یا احمدی نژاد پسند نہیں۔
بظاہر انتخابات کا عمل صاف وشفاف رہا اور لوگوں نے آزادی سے ووٹ دیا جس کا ثبوت میر حسین موسوی کو شہروں میں ملنے والے بھاری ووٹوں سے ملتا ہے لیکن کسی مغربی ملک نے کُھل کر اس پر رسمی بیان بھی نہیں دیا بلکہ 'دنیا نے ایران پر کڑی نگاہ رکھی ہے' کہہ کر ایرانی ملاؤں سے پھر چھیڑ چھاڑ شروع کی۔
یہ بات ہرکوئی جانتا ہے کہ ایران کے ماضی میں مغرب کے کردار سے نہ صرف بیشتر لوگ نالاں ہیں بلکہ اس وقت بھی ذرا سی ہچکی کو خود ہی کسی نئے انقلاب کے پیش خیمہ بتانے پر لوگوں میں شکوک پیدا کر رہے ہیں۔
لیکن اگر کسی کو موسوی کے اقتدار میں آنے سے یہ امید ہے کہ وہ مغرب نواز ہوں گے یا اپنی سوچ میں مغربی انقلاب لائیں گے تو انہیں ایک بار پھر اعتدال پسند لیڈرشپ کا جائزہ لینا چاہیے۔
اصل میں ایران میں اعتدال اور قدامت پسندوں میں اقتدار کی حد تک ہی پتلی سی سرحد ہے جس میں مغرب کو اور مغربی سوچ کو سمانے کی گنجائش نہیں ہے۔
بعض مبصر سمجھتے ہیں کہ مغرب ایران میں انتشار پھیلا کر اس کو غیر مستحکم کرنے پر تُلا ہوا ہے لیکن مغرب کو یہ بھی یاد ہوگا کہ جب انیس سو اناسی میں اسلامی انقلاب آیا اور ایرانی اثر اس کی وجہ سے جتنا پھیل گیا اور پھیلتا جارہا ہے شاید ہی اس کو ابھی تک کوئی روک سکا ہے۔
دانش مندی کا تقاضا ہے کہ ملاؤں کو نہ چھیڑیں تو بہتر ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
محترمہ نعيمہ احمد مہجور،
آپکی بات سو فيصد درست ہے ـ مغرب کی انہی دوغلی پالسيوں کی وجہ سے پاکستان اور ايران جيسے ملک سياسی انتشار کا شکار رہتے ہيں ـ ايک طرف تو يہ ضيا الحق اور مشرف جيسے ڈيکٹيٹرز کو ہيرو کی طرح پيشں کرتے ہيں اور انکی مدد کرتے ہيں تو دوسری طرف ہميں غير جمہوری ہونے کا طعنہ ديتے ہيں ـ
بالکل ٹھيک ايران پر اب مغربی پروپگنڈہ بالکل بے اثر ھے چاھے وہ جتنا بھی زھر گھول ليں
گذارش ہے کيا مشرق وسطٰی سے بھی بڑا کوئی اور مسئلہ ہے اس دنيا ميں ؟ کتنے برس ہو گۓ اس مسئلے کو اور کيا کر ليا سربراہان مغرب نے اس کا جو اہل ايران کو انصاف دلانے چلے ہيں ؟ يہ نفاق کے بيج بو کر ايران کو عراق ، افغانستان اور پاکستان کي راہ پہ ڈالنا چاہتے ہيں تاکہ ايک اور طاقتور اسلامي ملک غير مؤثر ہو جاۓ - اگر يہ واقعي مخلص ہيں تو مشرق وسطٰی کا مسئلہ حل کيوں نہيں کرواتے جو سارے فساد کی جڑ چلا آ رہا ہے - تيس سال بيروني سازشوں کا سامنا کرتے آ رہے ايراني ان ہتھکنڈوں سے بخوبي واقف ہيں - حالت جنگ ميں بھي انتخابي عمل جاري و ساري رکھ کر انہوں نے اپنے اداروں کے پنپنےميں تعطل نہيں آنے ديا جس کا صلہ ايک مضبوط نظام کي شکل ميں کھڑا ہے جو ہر اندوني اور بيروني سازش کا دفاع کرے گا - دنيا ديکھ لےگی کہ ايراني قوم اس آزمائش سے بھي سرخرو ہو کے نکلے گي - - - انشااللہ !
آپ نے بلاگ ملاوُں کے حق ميں لکھا يا مخالفت ميں؟
ساري باتوں کي ايک بات ”ملاؤں کوميں نہ چھيڑوں ايسا ہونہيں سکتا اور ملامجھے چھيڑيں ايسا ميں ہونے نہيں دونگي”
آپ ڈرا رہی ہيں يا سمجھا رہی ہيں
نعيمہ بہن بات صرف ايران تک نہيں الجزائر ميں اسلامک فرنٹ بھاری اکژيت سے جيتا مگر حکومت تو کيا ملتی الٹا کچل ديا گيا فلسطين ميں حماس نےبھاری اکژيت حاصل کی مگر اس پر الٹی ناقہ بندی اور جنگ مسلط کر دی گئی اب ايران کے انتخابات کو ايک موقع سمجھ کر انقلابی حکومت کا تختہ الٹنے کا پروگرام بنايا گيا جو اگرچہ اپنے کھوکلے پن سے کامياب ہوتا دکھائی نہيں ديتا -کيونکہ اصل رکاوٹ عوامی طاقت ہے „محافظان انقلاب„ نے پورے ملک ميں اتنے زيادہ ووٹ ڈالے کہ تہران اصفہان ميں „اصلاح کاران„ کی جيت کے باوجود ملکی سطح پر اجتماعی نتائج کا پلڑا „محافظان انقلاب„ کے حق ميں چلا گيا اس سُبقی پر „اصلاح کاران„ ايک تيسرے طبقے کے ہاتھوں اسيرہو گئے- وہ ہے شاہ کے حاميوں کا طبقہ جو نہ صرف بڑے پيمانے پر بيروني فںڈ ليتے ہيں بلکہ بذريعہ توڑ پھوڑ جلاؤ گھيراؤ پروپيگنڈہ سے 1979 ميں ملنے والی شکست کا بدلا چکانا چاہتے ہيں يہ طبقہ امير اور کھاتے پيتے
لوگوں کا ہے لہذا لمبے عرصہ تک اپنے حربے استعمال کر سکتا ہے جبکہ محافظ کاران ذيادہ تر غريب اور ديہاتوں سے تعلق رکھتے ہيں جو ووٹ تو دے سکتے ہيں مگر مظاہروں کو افورڈ نہيں کر پاتے- سو اب آگے جنگ „شاہ پرستوں„ اور „محافظان انقلاب„ ميں ہو گي شاہ پرست طبقہ بيرونی ہدايات پرہر صورت „اصلاح کاران„ کا نام استعمال کر کے انکے کندھوں پر بندوق رکھنے کی کوشش کرے گا جبکہ „محافظان انقلاب„ جو اپنے آپ کو „خط امام خميني„ کا پيرو سمجھتے ہيں وہ شاہ پرستوں کے چنگل سے اصلاح کاروں کو نکال کر انقلابی دھارے ميں واپس لانے کی کوشش کرينگے - لہذا يہ پنگ پانگ „شاہ پرستوں„ اور „محافظان انقلاب„ کے درميان بال بنے „اصلاح کاران„ کے کسی ايک کنارے لگنے کے بعد ہی ختم ہو گي-
مغرب اور چھیڑ چھاڑ نہ کرے یہ کیسے ممکن ہے۔اور وہ بھی جب ٪ 90 ملا اندر کھاتے مغرب کے تنخواہ دار خفیہ ایجنٹ ہوتے ہیں۔عام قسم کے ملا تو صرف حلوے مانڈے سے ہی پھسل جاتے ہیں۔ خاص قسم کے ملا ڈیزل کی پرچی سے کم پر راضی نہیں ہوتے۔ورنہ استعفے دینے کی دھمکیوں سے ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مغرب کی اس چھڑ چھاڑ نے زندگی میں جاری اس میچ کو کافی دلچسپ بنا دیا ہے۔ مولویوں کے میچ کے مزے لیں۔مولویوں کو ایسے رکھنا چاہيے جیسے کسی شاعر نے کہا تھا " رکھ مولوی مسجد کے اندر، بیرون مسجد کچھ نہیں" اپنے ہاں مغرب میں انہوں نے ایسے ہی رکھا ہے اس طرح بہت صحیح رہتے ہیں۔
نعيمہ جي! آپ نے بات تو دل کو لگنے والی اور بڑے ہی پتے کی کہی ہے کہ سوتے ہوئے شير کو جگانے کا کيا فائدہ؟ دوسری جانب يہ بھی تو ديکھيں وہ جنہوں نے تبديلی کے لئے ووٹ ديا ہو تو انکو دکھ و ذہنی دھچکہ تو پھنچے گا نا۔ نتيجہ يہ کہ لوگ اپنے حق رائے دہی ميں مداخلت،چوری و بے ايمانی کے خلاف سڑ کوں پر نکل آئے ہيں۔اب ايسے ہی تو مار نہيں کھا رہے نہ کچھ تو گڑ بڑ ہے نا۔ ويسے اس سارے قصے اور منظر نامے ميں ذہن ميں وطن عزيز کی تصوير ابھرتی ہے۔ موسوی کو شہروں ميں ذيادہ ووٹ ملے اور رات گئے تک انکو واضح سبقت حاصل تھی ليکن اچانک کچھے و خرگوش کی کہانی کی مانند سارا منظر ہی تبديل ہو گيا۔ محو حيرت ہوں کہ کيا کسی ہمارے ماہر و قابل غير مرئی باشندے کی خدمات اس مقصد کے لئيے حاصل تو نہيں کی گئيں