ارمانوں پر برف پڑی
سن نوے کے اوائل کا زمانہ تھا کہ کشمیر میں کافی برف پڑی۔
کئی روز تک بجلی غائب رہی پانی کے نل جم گۓ سڑکیں بند اور ہماری روُداد سننے والا کوئی بھی نہیں تھا کیونکہ دو صدیوں سے رائج مہاراجاوں کی روایت ہے (جوآج بھی قائم ہے) کہ موسم سرما میں سرکاری دفاتر جموں منتقل ہوتے ہیں حالانکہ ان دنوں زیادہ تر مسائل کشمیر میں پیدا ہوتے ہیں۔گرمیوں میں یہ دفاتر جموں سے کشمیرمُتقل ہوتے ہیں جب جموں والے شدید گرمیوں سے جُھلس کر بے تحاشا مسائل سے دوچار ہوتے ہیں۔
برف گرنے کے بعد میں نے اُس وقت کئی اہم محکموں سے دریافت کرنے کی کوشش کی کہ کیالوگوں کو درپیش مسائل کے لۓ کسی افسر کو تعینات کیا گیا ہے تو کئ گھنٹوں کے بعد معلوم ہوا کہ حکومت حرکت میں آکر ایک ٹیم کو جموں سے فوجی ہیلی کاپٹر میں وادی بھیج رہی ہے یعنی سرکار کو کچھ اپنی ذمہ داری کا احساس ہواتھا۔
مگر اس سے پہلے ہی لوگ خود نکلے تھے۔سڑکوں پر سے برف ہٹائی جمے ہوئے نلکوں کے سامنے آگ جلائی غرض جو کچھ وہ کرسکتے تھے وہ کیا۔
پہلی بار میں نے لندن میں اتنی برف پڑتے دیکھا اور انتظار کر رہی تھی کہ برف ہٹانے اور لوگوں کو راحت پہنچانے کے لۓ جدید ترین آلات کا مشاہدہ کرنے کا موقعہ ملے گا تاکہ کشمیر جاکر اپنے لوگوں سے کہہ دوں کہ کیا مشینری ہے اور جس قوم کے پاس لیزر ٹیکنالوجی ہو اس کے لۓ برف ہٹانا کوئی مسلہ نہیں۔
اس کے برعکس جب میں نے چند انچ برف پڑنے کے بعدپورے ملک کو مفلوج ہوتے دیکھا اوردفتر سے فون پر مجھے کہا جارہا ہے کہ میں دفتر آنےکی زحمت نہ کروں کیونکہ ہنگامی حالات جیسی صورت حال ہے حتی کہ ایک بس بھی چل نہیں پارہی ہے تو جدید ترین اسلحہ سے لیس ملک کی بے بسی پر حیرت ہورہی تھی اور ارمانوں پر برف بھی پڑی کہ کشمیر میں جاکر انہیں اپنا یہ تجربہ کیسے بیان کروں جو ہر بار کوئی نئ بات یا نئ ایجاد سننے کے لۓ انتظار کرتے رہتے ہیں۔