یہ تو کر ہی لیں۔۔۔
فوج چاہے مثبت مقاصد کے لیے لڑوائی جا رہی ہو یا منفی مقاصد کے لیے، اسکا مورال بلند رکھنے کے لیے بہرحال پیٹھ پر تھپکی کی ضرورت رہتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو برطانیہ کے ٹونی بلئیر یاگورڈن براؤن آسٹریلیا کے جان ہاورڈ، امریکہ کے جارج بش، ڈک چینی، رمز فیلڈ، رابرٹ گیٹس، جوزف بائیڈن اور صدر بننے سے پہلے باراک اوباما اور انکے حریف جان مکین ہزاروں کیلومیٹر کا سفر طے کرکے اپنے اپنے فوجیوں کے ساتھ عراق اور افغانستان میں وقت نہ گذارتے۔ ان سے خوش گپیاں نہ لڑاتے اور انہیں یہ یقین نہ دلاتے کہ مادرِ وطن برطانیہ یا امریکہ یا آسٹریلیا پوری سیاسی و فوجی قوت کے ساتھ ان کا پشت پناہ ہے۔
سوات، باجوڑ اور وزیرستان اسلام آباد سے کم از کم دو سو اور زیادہ سے زیادہ ساڑھے تین سو کیلومیٹر کے فاصلے پر ہیں جہاں کئی برس سے ہزاروں پاکستانی فوجی اور نیم فوجی شدت پسندی سے لڑ رہے ہیں۔
میں منتظر ہوں اس گھڑی کا جب صدر آصف زرداری یا وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی یا وزیرِ دفاع احمد مختار یا وزیرِ مملکت برائے دفاع ارباب محمد ظاہر یا سکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ( ریٹائرڈ ) اطہر علی میں سے کوئی بھی کبھی بھی اس علاقے میں جاکر اپنی ہی حکومت و ریاست کے مقاصد کی خاطر برسرِ پیکار فوجیوں میں سے چند کے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر یہ کہے۔۔ 'شاباش جوان ۔۔۔'
اگر حفاظتی نقطہ نظر سے یہ ممکن نہیں ہے تو کم ازکم یہی کیا جائے کہ ایوانِ صدر یا وزیرِ اعظم ہاؤس میں پہاڑوں اور ندی نالوں کی ایک بڑی سی پینٹنگ نصب کرکے اسکے سامنے قبائیلی علاقوں میں برسرِ پیکار فوجیوں میں سے چند کو کھڑا کرکے اپنی تصویر ہی کھنچوا لی جائے۔
تبصرےتبصرہ کریں
اگر ان سياست دانوں ميں اتني عقل ہوتي تو آج ان کا يہ حال نہ ہوتا۔
سب سے پہلے، آپکا اور بی بی سی کے لکھاريوں کا دل کی گہرائيوں سے شکريہ، جنکی بدولت حقيقت حال کا علم ہوتا رہتا ہے۔ باقی آپ ہم سے زيادہ جانتے ہيں کہ ہمارے ان راہنماؤں ميں اتنی ہمت کہاں۔
بات تر سچ ھی مگر بات ہی رسرائی کی
ہمارے حکمرانوں کو صرف اپنے مستقبل کی فکر ہے ملک قوم يا فوج کی نہيں۔
واہ واہ، کيا بات کہی آخری حصے ميں۔۔۔ واہ، وسعت اللہ خان۔
شاباش جوان، شاباس!
وہ لوگ اپنے ملک کے لیے جان ديتے اور ہمارے والے لوٹنے کے چکر ميں رہتے ہيں۔ ويسے فوٹو کھينچنے کا خيال برا نہیں ہے۔
محترم وسعت صاحب! سلام مسنون ـ
گوروں (انگريزوں) کے بارے ميں عرصہ دراز سے ايک کہاوت چلی آرہی ہے کہ: ’انگريز بذاتِ خود نہيں لڑتا ، بلکہ لڑواتا ہے۔ خود نہيں مرتا، بلکہ مرواتا ہے!‘ آپ کے بلاگ کا پہلا حصہ مذکورہ کہاوت کی صحت کو خوب تقويت دے رہا ہے! رہی بات صدر زرداری صاحب (و ديگر متذکرہ اربابِ اختيار) کی، تو آج کل سينيٹ، قومی اسمبلي، گورنر شورنر، وزير شزِير، مشير وشِير، عدليہ، فاٹا آٹا، سوات شوات، وزيرستان شزيرستان، پاک افغان سرحد شرحد وغيرہ شغيرہ غرضيکہ سب کے سب سمٹ کر ايوانِ صدر تک محدود و محصور ہو چکے ہيں۔
کيوں سوئے ہوئے غيرت مند شيروں کو جگا رہے ہيں، يہ مرد اپنی مردانگی صرف عورتوں پر ہی آ زماتے ہيں۔ وہ ياد ہوگا سب کو جو سينيٹر زہری نے بلوچستان ميں عورتوں کو ز ندہ دفن کيے جانے کے موقع پر کہا تھا کے ’يہ ہماری روايت ہے‘ اور انعام ميں اس کو وزير بنايا گيا۔۔۔ بس ايسے ہی شير وزير ہيں سب کے سب۔
وسعت اللہ صاحب ، بانيانِ پاکستان کا تصور کروں اور پھر اقتدار کے اندر يا باہر ان تمام حضرات پر نظر کروں توگريباں چاک کرکے سوئے صحرا نکل جانےکو جی چاہتا ہے ۔
وسعت صاحب! کيوں آپ خوامخواہ کبھی پاکستانی عوام کی طرف اشارہ کرتے ہيں کہ بلوچستان ميں آپريشن ہورہا ہے تو پنجاب سے کوئی بشر مظاہرہ کرنے نہيں نکلا اور کراچی کو انسانی خون سے نہلايا گيا تو سرحد بلوچستان سے کسی نے آواز نہيں اُٹھائی يا سوات ميں قتل عام ہو رہا ہے تو کسی سندھی پنجابی کی غيرت جاگ اُٹھي؟ اور اب آپ پاکستانی حکومت کے پيچھے پڑے ہيں کہ بہ نفسِ نفيس صدر۔وزيراعظم۔ وزير دفاع يا سکرٹری دفاع ہماری فوج کی پيٹھ پر شاباش کي تھپکی دينے مورچوں تک تشريف لے جائيں۔ يہ بيٹھے بٹھائے آپ کيا سوچنے اور پھر لکھنے لگتے ہيں کہ جس سے پاکستانی قوم يا حکمرانوں ميں جذبہء حب الوطنی پيدا ہو۔۔۔ کيا علامہ اقبال صاحب خواب ميں آکر خصوصی ہدايات جاری کر ديتے کہ جا، وسعت، ميرا پيغام پاکستانی عوام تک پہنچادو کہ جاگنے کا وقت آگيا ہے۔ اپنے پيروں پہ کھڑے ہونے اور يورپ امريکہ پر انحصار نہ کرنا سيکھو۔۔۔ وسعت بھائی، آپ علامہ صاحب سے کہہ ديجئیے کہ ہميں آپ کی نصيحتوں پر عمل پيرا ہونے ميں ابھی دير ہے۔
جو نظارہ آٓخر میں کھینچنے کا آٓپ نے مشورہ دیا ہے اس میں تو اپنے سیاست دان ماسٹر ہیں۔
جن کے قبضے ميں پورا ملک ہو ابھی اور کون سی شاباشی چاہئيے۔ جہاں لاہور کا ڈيفينس واہگہ تک پہنچ گيا ہو اور ساہيوال کے غريب ہاريوں کی زمينيں جوانوں اور افسروں ميں بٹ گئی ہوں وہاں اور کيسی شاباشی چاہئيے۔
يہ لوگ ايسا نہيں کرسکتے، کيونکہ امريکہ برطانيہ اور آسٹريليا دوسرے قوموں کے لوگوں کو مارتے ہيں، يہ اپنوں کو مار کرکس منہ سےشاباشی دينگے؟
آپ کی آخری تجویز ضرور قابل قبول ہو گی حکمرانوں کے لیے۔۔۔۔۔۔
اتنا رسک کون لے؟
وسعت بھائي! شاباش ہے آپ اتنے باخبر صحافی ہوتے ہوئے بھی توقع کررہے ہيں کہ کچھ افراد جان جوکھوں ميں ڈال کر شورش زدہ علاقوں ميں جائيں۔ انکو تو انٹيلی جنس ايجنسيوں کی مدد سے اندر کی خبروں کا بھی علم ہوتا ہے تو يہ اپنی زندگياں کيونکر خطرے ميں ڈاليں گے۔ ويسے ان ميں سے کسی کو توفيق نہ ہوئی کہ اس خطے ميں کڑے حفاظتی اقدامات کے باوجود وہاں جاسکيں۔ آفرين ہے جنرل کيانی پر جنہوں نے نہ صرف اپنی ذات بلکہ پاک فوج کی لاج رکھتے ہوئے سوات کا دورہ کيا ہے۔