فقیر کی ریٹائرمنٹ
سرگودھا میں گھر آئے فقیر سے میرے کزن نے کھانے کا پوچھا تو اس نے منع کر دیا اور کہا کہ وہ ایک مسئلے پر بات کرنا چاہتا ہے۔
بوڑھے آدمی نے سیڑھیوں پر براجمان ہوتے ہوئے کہا کہ بھائی سرکار چالیس پچاس سال کی نوکری کے بعد ملازم کو ریٹائر کر دیتی ہے اور پھر اسے پینشن میں دو ڈھائی لاکھ روپے بھی ملتے ہیں۔ میزبان نے اثبات میں سر ہلایا۔
بوڑھے فقیر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اسے بھی مانگتے ہوئے چالیس پچاس سال ہو گئے ہیں، پہلے ملنگنی ساتھ تھی جس کے دم سے 'جھُگی میں چانن تھا' اب وہ بھی مر گئی ہے۔ اس نے کہا کہ اب وہ تھک گیا اور ریٹائر ہونا چاہتا ہے۔ اس کی مانگ دو ڈھائی لاکھ نہیں تھی، بلکہ اس نے کہا کہ بس اگر پچاس ہزار تک مِل جائیں تو وہ ایک ریڑھی لگا کر زندگی کے باقی دن پھل فروٹ بیچ کر کاٹ دے۔ اس کے بعد اس نے کہا کہ کھیر بنی ہے تو لا دیں۔
لاہور میں ایک مانگنے والی لبرٹی مارکیٹ میں ایک لڑکی کو دہائی دے رہی تھی کہ اس نے صبح سے کچھ نہیں کھایا اور اس کو بچوں کے لیے بھی کچھ چاہیے۔ اس لڑکی نے پہلے تو جان چھڑانے کی کوشش کی پھر کچھ پیسے دے دیے۔
اس نے کہا بی بی اور پیسے دے دو ناشتہ بھی نہیں کیا۔ لڑکی نے اور پیسے بھی دے د یے اور
اسے کھانے کے لیے بھی دیا۔ مانگنے والی نے جلدی سے پیسے پکڑے اور دہی بھلوں کا پیالہ واپس کرتے ہوئے کہا اس کی ضرورت نہیں اس نے ابھی چائے پی ہے۔
اور چلتے چلتے یہ کہ پاکستان میں پہلے بچوں کو ڈانٹ پڑتی تھی کہ بڑوں کو 'ہاں' نہیں کہتے بلکہ 'جی' کہتے ہیں، اب ہمارے پڑوس میں ایک خاتون اپنے بچے کو ٹوک رہی تھیں کہ بیٹا 'ہاں' نہیں کہتے 'یس' کہتے ہیں۔ آپ کے خیال میں 'جی' کہنا چاہیے کہ' یس'۔ اور اس سے فرق کیا پڑتا ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
یس کے علاوہ کوئی امکان نہیں۔ فقیروں کے پاس بھی اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ خدا کی مرضی قبول کریں۔