جب بھی موقعہ ملا گنوا دیا
چند روز پہلے ایک میٹنگ میں شرکت کرنے کا موقع ملا۔ یہ میٹنگ لندن کے چند آزاد خیال لوگوں نے بلائی تھی جس میں پاکستان کی سیاسی اور معاشی صورتِ حال پر بات چیت کی گئی۔
مہمانِ خصوصی تھے معراج محمد خان جو پاکستان کی سیاست میں ایک شعلہ بیان مقرر سمجھے جاتے ہیں اور تمام عمر وہ کرتے رہے جو ان کے دل نے کہا۔ کچھ عرصہ پہلے تک وہ عمران خان کی تحریک انصاف میں بھی تھے اور اس سے پہلے پاکستان قومی محاذ میں ایک عمر گزار دی۔
اس کھلی میٹنگ میں پاکستانیوں نے معراج محمد خان سے وہ سب سوال کیے جو شاید خان صاحب روز اپنے آپ سے کرتے ہوں گے۔ اور شاید برس ہا برس سے کر رہے ہوں۔ ان کی باتوں سے لگ رہا تھا کہ انہیں ابھی جواب نہیں مل پائے لیکن وہ جستجو میں ضرور لگے ہوئے ہیں، ہمت نہیں ہاری۔
خان صاحب یادوں کی ایک پٹاری ہیں۔ پاکستان کے ہر بڑے چھوٹے، سیاسی غیر سیاسی، سویلین یا فوجی کے متعلق کچھ نہ کچھ ضرور جانتے ہیں۔ یا تو انہوں نے اس کے ساتھ جیل میں وقت گزارا ہو گا یا پھر کئی مجلسیں کی ہوں گی، یا تو اس کے مخالف رہے ہوں گے یا اتحادی۔ خیر ان کی زندگی ایک زندہ سیاست ہے۔
ان سے جو سوال بار بار پوچھا گیا وہ تھا پاکستان کے چیف جسٹس کے متعلق۔ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا۔ وہ بھی تو اسی سسٹم کا حصہ ہیں جس نے جمہوری حکومت کا خاتمہ کرنے والوں کا ساتھ دیا۔ کیا جج صاحب پر لگائے گئے الزامات درست ہیں اور اب کیا کرنا چاہیئے۔ ان کا ساتھ دینا چاہیئے کہ دیکھنا چاہیئے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
خاں صاحب نے ان سارے سوالوں کا جواب پاکستان کے قیام سے جوڑا۔ کس طرح آمرانہ، جاگیردارانہ، ’مولویانہ‘ اور وڈیرانہ طاقتوں نے شروع ہی سے پاکستان کو جکڑ لیا اور جس سے آزادی آج تک ممکن نہیں ہوئی۔ بقول خان صاحب کے بھٹو صاحب کے دور میں ایک وقت آیا بھی تھا جب ان زنجیروں کو توڑا جا سکتا تھا لیکن پاکستان کے واحد ’مقبول وزیرِ اعظم‘ بھی سیاسی مصلحتوں کی آڑ لے کر زنجیروں کو توڑنے سے قاصر رہے۔
’میں نے بھٹو صاحب سے کہا تھا کہ یہ وقت ہے زرعی اصلاحات کر ڈالیں، اس وقت یہ قوتیں کمزور ہیں ہم انہیں یہیں ختم کر سکتے ہیں، یہ کبھی بھی اٹھ نہیں سکیں گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ہمیں اس وقت ڈیوولوشن آف پاور یا اختیارات کو تقسیم کرنا چاہیے تھا۔ بھٹو صاحب نے ہر بار یہ کہا کہ تم ابھی ناسمجھ ہو، سیاسی مصلحتیں نہیں سمجھ رہے، جب وقت آئے گا تو دیکھا جائے گا۔‘
خاں صاحب کو افسوس ہے کہ ’ہم لوگ کچھ نہ کر سکے۔‘ لیکن وہ کہتے ہیں کہ ’میں بھلے شاہ، لطیف بھٹائی اور فیض کا ماننے والا ہوں، مایوس نہیں ہوں۔ دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے، لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے۔‘
خان صاحب اب بھی ایک ایسی پارٹی بنانا چاہتے ہیں جو لوگوں تک جائے ان کی بات ان ہی کی زبان میں کہے۔ مثال کے طور پر وہ کہتے ہیں کہ جب ہم کسی ایک بلوچ کو کسی جرم کی سزا میں قید کر دیتے ہیں، اس کے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں اس کے گھر والوں کو اس سے ملنے نہیں دیتے تو اسے تو یہ ہی لگے گا نہ کہ وہ جو نظام چھوڑ کے آیا ہے، جہاں جرگہ فوراً انصاف کر دیتا تھا، جہاں اس کے گھر والے اس کے ساتھ تھے، وہی نظام بہتر تھا۔
’ہم نے نظام کو بہتر نہیں بنایا بلکہ جاگیردارانہ نظام کو مضبوط کیا ہے۔‘
اب اس جاگیردارانہ نظام کے ساتھ مذہب یا دین کا نظام بھی شامل ہو گیا ہے اور ان سب نے ملک کر ایک گھٹ جوڑ یا بیٹھک سی بنا لی ہے۔ ’نظام دین کی بیٹھک‘۔
انہوں نے بلوچی مثال کے ساتھ بلوچوں پر تیسری فوج کشی کو بھی جوڑا اور کہا کہ یہ لوگ کبھی بھی ملک دشمن نہیں رہے۔ یہ صرف آزاد رہنا چاہتے تھے اور صوبائی خودمختاری مانگتے تھے۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں۔
جب لوگوں نے دوبارہ جسٹس کیس کے متعلق استفسار کیا تو انہوں نے کہا کہ جج کو صرف اس لیے سلام کرنا چاہیئے کہ اس نے ایک فوجی جنرل کی بات ماننے سے انکار کیا ہے۔ اور وکیلوں کو اس لیے سلام ضروری ہے کہ انہوں نے جج کا اس طرح ساتھ دیا جس طرح کے دینے کا حق ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ جج کرپٹ ہے یا نہیں، مسئلہ یہ بھی نہیں کہ اس نے کیا کیا فائدے اٹھائے ہوں گے، اور شاید یہ بھی نہیں کہ انہوں نے کس کیس میں کیا فیصلہ دیا ہو، مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک ایسا فیصلہ کیا ہے جو شاید ہر کوئی نہیں کرتا۔ وہ فیصلہ ایک فوجی کی بات ماننے سے انکار ہے۔ اس کے سامنے کھڑے ہو جانا ہے اور پھر انہوں کے ساتھیوں کا ان کا ساتھ دینا ہے۔
آخر میں خان صاحب نے انڈیا کے ماہرِ تعلیم ذاکر حسین صاحب کے ایک خط کا حوالہ دیا جو انہوں نے پاکستان کے وزیر تعلیم محمود حسین صاحب کو لکھا تھا۔ اس خط کا متن کچھ یوں تھا کہ محمود جس ملک کے تم وزیرِ تعلیم ہو گے اس ملک کے بچوں کا تو خدا ہی حافظ۔
آجکل پاکستان کے وزیرِ تعلیم لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) جاوید اشرف قاضی صاحب ہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
عارف شميم صاحب
ايک عرصے بعد ايک طويل مفصل جامع اور بھرپور بلاگ پڑھنے کو ملا۔ معراج محمد خان کے حوالے سے آپ نے پاکستان کی تاريخ کے کچھ ايسے پنے الٹے ہيں جو ہم جيسے طفل مکتبوں کے لیئے شايد پاکستان کو بہتر طور پر سمجھنے کا وسيلہ ثابت ہوں۔ ’نظام دين‘ کی اصطلاح بھی خوب ہے۔ بھٹو کی مقبوليت اور ان کی سياسی مصلحتوں کو بھی جاننے کا موقع ملا۔ خان صاحب کا ملال اپنی جگہ مگر اس حقيقت سے بھی انکار نہيں کيا جاسکتا کہ بھٹو کا دور بہت ہی پر آشوب دور تھا اور اس زمانے شايد انھيں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑا ہوگا۔ بھٹو سے افتخار محمد چودھری تک کے حالات نہايت خوش اسلوبی سے سميٹے ہيں آپ نے۔ ميں آپ کے درد کو بخوبی سمجھتا ہوں۔ آپ کا ملک جس بحران سے گذر رہا ہے وہ اس بات کا متقاضی ہے ہر کوئی محب وطن اپنی مقدور بھر کوشش کرے کہ کيا اس سے بن پڑتا ہے اور کيسے ملک کو خود غرض آمروں سے بچايا جائے۔ شميم بھائی ڈاکٹر ذاکر حسين کے خلوص اور ان کی دانشمندی اور قابليت سے انکار نہيں کيا جاسکتا۔ ہندوستانی مسلمان انہيں قدر کی نگاہ سے ديکھتے ہيں۔ وہ عالم دين بھی تھے، ماہر تعليم بھی اور ايک مخلص صدر بھی۔ دلی ميں جامعہ مليہ اسلاميہ کی عظيم يونيورسٹی انکے اخلاص کا جيتا جاگتا ثبوت ہے۔ جاويد اشرف صاحب کو تو ميں نہيں جانتا مگر آپ کا اشارہ خوب سمجھتا ہوں۔ شميم بھائی فيض کی اگر قدر ہوتی ہے تو اس لیئے کہ انہوں نے بڑے ہی کرب کے ساتھ کہا تھا
يہ داغ داغ اجالا يہ شب گزيدہ سحر
تھا انتظار جسکا يہ وہ سحر تو نہيں !
ايسے ميں آپ نے بھی اميد کا دامن نہيں چھوڑا ہے کہ
دل نا اميد تو نہيں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
نئی اميدوں کے ساتھ اچھے دنوں کا منتظر
سجادالحسنين، حيدرآباد، دکن
معراج محمد خان ٹھیک کہتے ہیں کہ بھٹو کے پاس وہ نظام توڑنے کا آخری موقعہ تھا لیکن وہ خود بھی وڈیرے ہی تھے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ کوئی پاکستان پر احسان کرے اور اس نظام کو توڑ دے اور فوج کو بیرکوں میں واپس بھیج دے۔
میں دو برس سے جرمنی میں ہوں۔ ایک چیز جس کا احساس ہوا وہ یہ ہے کہ جرمنی جو پاکستان سے رقبے اور آبادی میں چھوٹا ھے اس میں اتنی صوبائی خودمختاری ھے جس کے بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہم نے ساری عمر وفاق کو مظبوط کرنے میں گزار دی۔ صوبے مظبوط ہوں تو وفاق خود بخود مضبوط ہو جاتا ھے۔
مجھے بہت دکھ ہورہا ہے يہ لکھتے ہوئے کہ کس کام کے ہيں يہ افکار جو صرف محفلوں کي زينت رہے اور لگتا ہے ان کے ساتھ ہي تاريخ ميں دفن ہو جائيں گے۔ انہيں چاہيۓ تھا دِيے سے دِيا روشن کرتے۔ ان افکار کو پھیلاتے اور کچھ ايسا انتظام کر جاتے کہ يہ فکر اگلي نسلوں کو منتقل ہوتي جو اس مشعل کو لیے ان کا يہ سفر جاری رکھتے حتٰی کہ شائد ايک دن منزلِ مراد پا ہي ليتے ۔ بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ باتيں بہت ہيں ، لائحہ عمل دينے والا کوئی نہيں۔
آج بُھٹو کی برسی ہے ايسے ميں عارف شميم بھائی آپ کا يہ بلاگ اور معراج مُحمد خان صاحب جيسے بزُرگ سياستدان کی باتيں جن ميں نظام دين کی بيٹھک کا تڑکا لگا کر بات کو دو آتشہ کر ديا ہے آپ نے۔ سجادُالحسنين صاحب کی باتيں گو دل کو لگتی ہيں ليکن کيا ہے کہ ہم لوگ ہر حال ميں اپنوں کو دل سے لگا کر رکھنے کے عادی ہيں سو خود ہم جو بھی کہہ ليں دوسرے کو نہيں کہنے ديتے۔ وطيرہ ہے ہمارا۔ ايسے ميں کسی کو بھی الزام اگر ديں تو کيا ديں اور اب معراج مُحمد خان اگر اس وقت کوئی نئی پارٹی تشکيل دينا چاہ رہے ہيں تو ميرے خيال ميں اس کی کوئی ضرورت تو محسوس نہيں ہوتی کہ پہلوں نے کونسے کمال کر دیے ہيں جو اب ايک اور ،جبکہ وہ خود بھی جانتے ہيں کہ ہونا ہوانا کُچھ نہيں۔ رہی بات جاو يد اشرف قاضی صاحب کے وزير تعليم ہونے کی تو شميم بھائی آپ نے جو انڈيا کے وزير تعليم کا حوالہ ديا ہے جو اُنہوں نے محمود حسين صاحب کو کہا تھا کہ جس مُلک کے تم وزير تعليم ہو گے اُس مُلک کے بچوں کا اللہ ہی حافظ ہو گا سو جاويد اشرف قاضی صاحب کی مشہُور زمانہ بات تو جانتے ہی ہوں گے نا چاليس سپاروں والی تو اب کيا کہيں اس سے زيادہ کہ
بک رہا ہُوں جنوں ميں کيا کيا کُچھ
کُچھ نا سمجھے خدا کرے کوئی
دعاگو
شاہدہ اکرم
محترم عارف شميم صاحب
اسلام عليکم
پاکستان کے غريب عوام کو تشخص اور کم از کم ووٹ کی حد تک برابری دينے والے 72 کا عبوری آئين اور 73 کا جملہ سياسی جماعتوں کا متفقہ آئين دينے والے شہيد ذوالفقار علی بھٹو نے پھانسي قبول کر کے اپنی کوتاہيوں کا کفارہ ادا کيايا نہ کيا۔ سوال يہ پيدا ہوتا ہے باقی سارے ملک ميں موجود سياسی جماعتيں، معراج محمد خان صاحب اور دوسری قد آور شخصيات مل کر ہميں نہ تو استبداد فوج سے نجات دلا سکے ہيں نہ جاگيردارانہ اور سرمايہ دارانہ مائينڈ نظام اور مائينڈ سيٹ سے۔ بلکہ بعض اوقات ان کی قائم کردہ سياسی جماعتوں ميں شامل ہو کر انکو مظبوط کرتے رہے ہيں۔ يہ انکی سادگی ہے موقعہ پرستی تھي يا فوجی آمروں کی شاطرانہ کاميابي؟ بھٹو نے عام انسان کو سياسی شعور ديا سياست کو بيٹھکوں اورڈرائينگ روموں سے نکال کر ريستورانوں، فٹ پاتھوں، دکانوں، کھوکھوں مجھ اور آپ تک پھيلا ديا- مجھے شک ہے ابھی تک کوئی اور فرزند پاکستان نہيں آيا جو بھٹو جيسا ويژن رکھتا ہو۔ صرف موقعہ پرست نہ ہونا ہی بھٹو کی شہادت کا سبب بنا۔
اسوقت تعليم سميت بيشتر اداروں پر کوئی نہ کوئی جاويد اشرف قاضی ضرور ملے گا اور اصل حکمران بھی کوئی جنرل ہی ہوگا۔
ميری آنکھيں تو اندھرے کے سبب ديکھنے سے قاصر ہيں کيونکہ بقول فيض
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گريز تھا
ورنہ ہمارہ درد بہت لا دوا تھا
ايکھو جے پت ماواں جمن کدھرے کدھرے کوئي(بھٹو ورگے)پنجابی
شميم بھائی شايد ميں رات سو کر گزار دوں شابقہ 4اپريلوں کيطرح
خدا آپ سلامت رکھے
دعا گو
مياں آصف محمود
ميری لينڈ
يو-ايس-اے
اب کی صورت حال زيادہ خطرناک ہے جہاں عوام بہت نا اميد ہے۔ جسے جگانے ہی کے ليے اچھی خاصی ليڈری کی ضرورت ہے۔ ويسے قائد عوام کو بھی عوام نہ بچا سکے۔ اگر ديکھا جائے تو حملہ تعليم پر ہی کيا گيا ہے ضياء الحق کے وزير تعليم تو مکمل نا خواندہ تھے۔
عارف شمیم بھائی مختصراً بہت اچھا بلاگ لکھا ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ اللہ تعالی کسی مرد مجاہد کو بھیج دے جو پاکستان کے درد کو سمجھتا ہو۔آمین
محترمی و مکرمی عارف صاحب اسلام عليکم ! آپ نے بہت ہی خوبصورت بلاگ لکھا بہت پسند آيا جس ملک ميں وزيرقانون کا يہ حال ہے کہ وہ عالمگير ميڈيا پر گندی زبان استمعال کر رہا ہے ۔ اور جس ملک کے پارليمنٹ کو خود صدر صاحب غير مہذب کر چکے ہوں۔ اور اس پارليمنٹ کے ووٹ سے صدر بنائے گئے ہوں ، اور اب مزيد صدر بننا چاہتے ہوں آپ خود اندازہ کر ليں ميں سمجاتا ہوں کہ بس ايک کلمہ ہی ہے جس کی وجہ سے يہ نظام چل رہا ہے ورنہ ہمارے تو کوئی حالات نہيں ہيں۔ ہم تو سب اس کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہيں۔
ذوالفقار علی بھٹو کو جو عوامی مقبولیت حاصل تھی اور انکے ہاتھ میں جو اختیار تھے کچھ یہی صورتحال ہندوستان میں جواہر لال نہروکو حاصل تھی۔ نہرو عوام سے خود کو پجوا سکتے تھے لیکن انہوں نے اپنے اختیارات اور مقبولیت کو پارلمینٹ، عدلیہ، صحافت، الیکشن کمییشن وغیرہ سلطنت کے اداروں کو مضبوط کرنے میں صرف کیا جس کے نتیجہ میں ہندوستان روز بروز ترقی کے مراحل طے کر رہا ہے۔ لیکن بھٹو نے ایسا نہیں کیا،انتقام کی آگ نے پاکستان کی تاریخ کے سب سے باکمال اور مقبول قائد کو تختہ دار تک پہنچا دیا۔
عبد المتین منیری بھٹکل
محترم عارف صاحب ، آداب
بہت مفصل اور سچی تحرير ہے ۔
آوازِحق تو آوازِ حق ہے وہ کوئی کمسن بلند کرے يا کوئی سن رسيدہ بزرگ۔ کيونکہ شُعورِ حق پابندِ سن و سال نہيں اور پھر حق انسان کو قوی بناتا ہے اور جوشِ طلب قدم تيز کرتا ہے بھلے منزل دور ہو ۔ مگر حق قربانی سے عبارت ہے ، ايثار سے پيوستہ ہے ، جب تک جذبۂ قربانی و ايثار نہ ہوگا حق سے قريب نہيں ہوا جاسکتا اور جب حق اپنے کمال کو پہنچتا ہے تو يہ کہتا نظر آتا ہے کہ ۔۔ اگر ہم حق پر ہيں تو پھر چاہے موت ہم پر آپڑے يا موت پر جب جا پڑيں ۔
سفر کا آغاز کرہی ليا ہے
تو يہ نہ سوچو
کہ راہيں کڑی ہيں
ہر ايک موڑ پر صليبيں گڑی ہيں
کہيں راستوں ميں درندوں کی ہے حکمرانی
کہيں سر سے اونچا ہے پانی
نہ سوچو کہ وہ منزليں دور ہيں
راہِ عمل ميں جنوں چاہيۓ
عزائم کی ديوانگی کا فسوں چاہيۓ
ابلتا ہوا گرم خوں چاہيۓ
اسی طرح پرورشِ لوح و قلم کرتے رہيں ، خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو
دعا گو
سيد رضا
جب بھٹو مرحوم نے جنرل موسیٰ کی 22 توپوں کے جواب ميں پہلی کانفرنس کی اسکی رپورٹ ميرے خط کے جواب ميں 70کلفٹن سے مجھے موصول ہوئی تھی سو معراج محمد خان اور طارق عزير کی پارٹی ميں آمد و رفت ميری ڈائری ميں موجود ہے۔ بات ليڈر کو فالو کرنے سے بنتی ہے جب فالور ہی ليڈر سے آگے سوچےگا تو بغاوت ہوگی فاروڈبلاگ بنيں گے تحريک معطل ہوگی۔ بھٹو کی تحريک کے ساتھ سعيد کرمانی سے ليکر مسعود صادق اور چوہدری فضل حق سپيکر جو کرتے آئے ہیں وہی کچھ سرکاری مسلم ليگ والے کرنے لگے، يہاں تک کہ نصرت کے ايڈيڑ حنيف رامے، مصطفے کھر تک ليڈر سے بڑھ کر وحی کے دعويدار بنے۔ جو ساتھ امام کی نيت پر قائم رہے وہ خان آف شير پاؤ نصير اللہ بابر جيسے نڈر راسخ جمہور نواز تھے۔ ہاں مگراس کردار ميں فرد کے ذاتی ماحول کو بھی رد نہيں کر سکتے۔