’دریا کوزے میں بند‘
بالآخر آج بی بی سی اردو سروس بمعہ اہل وعیال اپنے نئے دفتر منتقل ہوگئی ہے۔ اہل وعیال سے مراد ڈاٹ کام، ریڈیو اور نئی ایف ایم ٹیم سے ہے۔
شفیع نقی جامی اور نشاط کے مطابق ہم بش ہاؤس کے سینٹر بلاک کے ساتویں فلور پر بارہ برس رہے۔ اب ہم جس عمارت میں ہیں وہ شمال شرقی کہلاتی ہے۔ اتنی سی جگہ پر جغرافیے کی اصطلاحوں کا اس قدر ضیاع بالکل سمجھ سے باہر ہے۔ یہاں ہمارے ہمسائے وہی ہیں جو پچھلے دفتر میں تھے یعنی ہندی اور بنگالی سروس اور انگریزی ویب سائٹ کا ساؤتھ ایشیا سیکشن۔ ابھی اس مختصر سی جگہ میں نیپالی اور سنہالہ سروسز کا انتظار ہے۔
اس دفتر کا نام ’پروڈکشن ہاؤس آف دی فیوچر‘ ہے لیکن یہاں آنے کے بعد ہرکوئی یوں پریشان ہے جیسے مستقبل تاریک ہوگیا ہو۔ اتنی کم جگہ پر جس مشاقی سے اتنے سارے لوگوں کا بندوبست کیا گیا ہے، اس سے ہر طرف سکتے کی کیفیت ہے۔ پھر یہاں شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ میں پانی پیتے ہیں اس لیے زیادہ تر بکریاں پریشانی کے باعث گھاٹ تک نہیں گئیں اور ابھی تک پیاسی ہیں۔ یعنی کہ سیکشن کے اعلیٰ افسران اور باقی سب پروڈیوسرز آمنے سامنے بیٹھتے ہیں۔
ہر کوئی ہر کسی کی بات سن سکتا ہے، ہر کوئی اپنے کمپیوٹر پر دیکھ سکتا ہے کہ کون کس سے فون پر کتنی لمبی بات کررہا ہے۔ دفتر کے اندر پانی نہیں ہے اور کھانا لانے کی اجازت نہیں ہے۔
فرسٹ اپریل کا آخری دن تھا جب ہم بش ہاؤس میں کھلی جگہوں پر اور کلب میں تمباکو نوشی کرسکتے تھے، اس کے بعد سے صرف دو عمارتوں کے درمیان ایک مختصر چبوترا اس کے لیے مختص کردیا گیا تھا۔ اب اس نئے دفتر میں منتقل ہونے کے بعد جو لوگ تمباکو نوشی ترک کرنے کا سوچ رہے تھے، وہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ دفتر سے دس منٹ کی بریک کا بہانہ کیوں ہاتھ سے جانے دیں۔ جو تمباکو نوشی ترک کرچکے تھے، وہ واپس شروع کرنے کی دھمکیاں دینے رہے ہیں۔
اس تمام عمل کے بارے میں سب سے اچھی بات ظہیرالدین بابر نے کی: ’بی بی سی نے تو دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے۔‘
دیکھئے ’پروڈکشن ہاؤس آف دی فیوچر‘ تصویروں میں
تبصرےتبصرہ کریں
سانول صاحب! اس خوشگوار تبديلی کی منظرکشی کرنے کا شکريہ! رہی بات دريا کو کوزے ميں بند کرنے کی تو يہ کام تو گورا صاحب کا ہی کمال ہوسکتا ہے، آخر انکی پلاننگ ہی کامياب ہوتی ہے۔
محترم مصدق سانول صاحب ،آداب و خوش آمديد۔ کافی عرصے بعد آپ کی تحرير پڑھنے کو ملی، دلی مسرت ہوئی۔ نيا دفتر مبارک ہو۔ اچھي بات ہے کہ بی بی سی نے کوزے ميں دريا بند کيا، اگر کوزہ گر ہی دريا کو کوزے ميں بند نہ کرے تو پھر کون کرے گا؟
بس یہی دعا ہے:
اس تند سياہی کے پگھلنے کی خبر دے
دے پہلی اذاں رات کے ڈھلنے کی خبر دے
اے ساعتِ اول کے ضيا ساز فرشتے
رنگوں کی سواری کے نکلنے کی خبر دے
طائر کو دے آزاد اڑانوں کی فضائيں
کہسار کو دريا کے اچھلنے کی خبر دے
سانول صاحب تبھی تو بی بی سی اردو ڈاٹ کام کچھ دنوں سے اتنا سونا سونا کيوں لگ رہا ہے، خبريں دير سے کيوں اپڈيٹ ہوتی ہيں اور آپ کی آواز والا کالم جمود کا شکار کيوں ہوگيا ہے۔ اب ہم يہ تو نہيں کہہ سکتے کہ نيا دفتر مبارک ہو کيونکہ نئے دفتر کے جو پريشان کن حالات آپ نے بيان کيے ہيں وہ آپ صحافيوں کی بے بسی و بے چارگی کا منہ بولتا ثبوت ہيں۔ آخر آپ لوگوں نے وہ کونسا گناہ کيا ہے کہ آپ کو کھانا تو درکنار پانی تک پينے کی اجازت نہيں ہے۔ بہرحال مبارک ہو نيا دفتر مگر خدا را اپنے کمپيوٹر سے دوسروں کے فونوں کی طوالت جانچنے مت لگ جائيے گا۔
خير انديش
مبارک دوں؟؟
مصدق سانول صاحب، کیا آپ شیشے کے گھر میں بھی خوش نہیں ہیں؟
ٹھیک ہی کہا ہے کسی نہ کہ دریا کو کوزے میں بند کرنے کی پلاننگ کسی گورے صاحب ہی کی ہوسکتی ہے وگرنہ مسلمانوں کو تو لڑنے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے۔
جناب، لگتا ہے ديواريں گرا کر دستياب جگہ کے زيادہ سے زيادہ استعمال کا يہ چلن اب عام ہوتا جا رہا ہے۔ يہی واردات دس سال قبل ہمارے ساتھ بھي ہو چکی ہے ليکن شير اور بکری کو الگ گھاٹ عنايت کرنے کي مہرباني روا رکھي گئی ہے۔ اميد ہے اب اربابِ اختيار نشريات صاف سنائي نہ دينے کے مسئلے پر بھي کچھ توجہ ديں گے۔ اس ضمن ميں آپ نے بارہ گھنٹے کي لگاتار اردو سروس کے علاوہ وائس آف امريکہ کی نئی انتہائي طاقتور فريکوئنسيوں کو نوٹ کيا ہو گا۔
سانول صاحب، آپ کو اور بی بی سی اردو کی پوری ٹيم کو ہجرت مبارک ہو۔
کون کہتا کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
ميں تو دريا ہوں سمندر ميں اتر جاؤں گا
بی سی سی اردو کوزے ميں بند ہو ہی نہیں سکتی، يہ تو دريا ہے بلکہ سمندر ہے۔ اميد ہے آپ مزيد شفقت فرماتے رہيں گے۔ دعاگو
جناب، آج آپ کو بھی پتہ چل گیا ہوگا کہ ناانصافی کیا ہوتی ہے؟ یہ بھی ذرا معلوم کرلیں کہ یہ رنگ ونسل کا معاملہ تو نہیں۔ ویسے مجھے پوری امید ہے کہ وہاں یہ معاملہ ذرا کم ہی ہوتا ہوگا۔ اگر آپ امریکہ میں ہوتے تو آپ کو الگ الگ چار بائی چار بائی پانچ کا کمرہ مل سکتا تھا اور دن میں دو بار دس منٹ کی بریک بھی۔ امید یہ ہے کہ بی بی سی اب بھی ویسے ہی کام کرتی رہے گی۔
محترمی و مکرمی مصدق سانول صاحب السلام عليکم ! چليں ايک تو ہيں جنہوں نے بش ہاؤس کی اندر کی کہانی سنائی ورنہ شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ دوسروں کے تو بيڈ روم ميں بھی داخل ہو جاتے ہيں مگر اپنے بارے ميں کچھ نہيں بتاتے۔ مجھے آپ کی دکھ بھری کہانی پڑھ کر دکھ ہوا۔ آپ کو اس طرح قيد کرنا کسی طرح بھی درست نہيں، آپ ايسا کريں پاکستان آجائيں، جتنے مرضی ہے سگريٹ پئيں، قانون شکنی کريں بلکہ بطور ايک صحافی ہونے کے آپ دانستہ قانون شکني کريں اور پھر بيچارے ٹريفک والے کو احساس بھی دلائيں کہ تم ميرا کيا بگاڑ سکتے ہو۔ مگر يہاں آپ کو پونڈ ميں تنخواہ نہيں ملے گی، يہاں آپ کو خود رقم نکالنا ہوگی اور رقم نکالنے کا مطلب آپ سمجھتے ہونگے۔ يہاں پر اسلام آباد ميں کام کرنے والے صحافيوں کے عالی شان گھر ، بينک بيلنس ہيں کيا ايک رپورٹر جائز ذرائع سے کما سکتا ہے؟ انصاف آپ کريں، آپ بش ہاؤس برا بھلا کہہ رہے ہيں، شکر کريں جائز کمائی ہو جاتی ہے۔
بھائی مصدق
آپ نے دراصل ہمارا وہ دفتر نہيں ديکھا جو سنٹرل بلاک کی پانچويں منزل پر تھا۔ لکڑی کے چار کابک تھے اور وہ بھی اتنے چھوٹے کہ آتے جاتے پروڈيوسرز اور مہمانوں کے خيالات بھی آپس ميں ٹکرا جاتے تھے۔ نئے ہائی ٹيک فلور کو اگرچہ ميں نہيں ديکھ سکتا ليکن مجھے لگتا ہے کہ بی بی سی اردو کا آپريشن حاليہ برسوں ميں جس تيزی سے پھيلا ہے اسکے بعد انتظاميہ نے غالبا کوزے کو دريا ميں نہيں بلکہ جن کو بوتل ميں بند کرنے کی کوشش کی ہے۔ ويسے جس جس کو شيشے کے نئے گھر ميں جگہ کی تنگی کی شکائت ہے اسے چاہئے کہ لندن ميں بيٹھ کر رونے گانے کے بجائے اسلام آباد بيورو ميں شفٹ ہونے کی سوچے۔ يہاں کے وسيع و عريض دفتر ميں کئی ميزيں اور دل آپ کے منتظر ہيں۔اگر ہم دو سو برس انہيں جھيل سکتے ہيں جنہوں نے آپ کو نئے شوکيس ميں بند کرديا ہے تو آپ تو پھر اپنے ہيں۔
وسعت بھائی ايک بات نہيں پوچھی کہ چائے کے اس فنڈ کا کيا ہوگا جو ڈيسک پر چائے بنانے کے لئے اکھٹا کيا جاتا تھا ؟ دوسرا انہوں نے بوتل ميں بند کرنے کا پورا انتظام کرديا اور آپ انہيں اپنا دل پيش کررہے ہیں۔ اس ذريں مشورے کو دينے ميں شايد آپ نے کافی دير لگادی ہے۔ ويسے گوروں کے ديس ميں دلوں کی کمی ہے کيا؟ خير انديش
مُصدق صاحب، بی بی سی کا نيا گھر، عُنوان ديکھ کر تو نا جانے کيا سمجھا تھا ليکن جب پُورا مضمون پڑھا تو سب چودہ پندرہ طبق ايک ساتھ روشن ہو گئے۔ دُنيا بھر کی لمبی چوڑی خبروں کی خبريں دينے والے اور رکھنے والے ادارے کا يوں محدود ہوجانا يا بقول آپ کے دريا کو کُوزے ميں بند کر ديا جانا ايک عجيب سی داستان سُنا گيا۔ تصويروں نے جو نويں نکور رنگ دکھائے اُنہوں نے اور نئی دُنيا سے رُوشناس کروا ديا جس کا علم بہر حال مُجھے بالکُل نہيں تھا۔ يہ علم البتہ تھا کہ زندگی اتنی محدود ہے ليکن، بہرحال زندگی کے اس نئے رُخ سے پردہ اُٹھانے کے لئے شکريہ کہ جو بھی ہو ايک نئی دريافت تو ہُوئی۔ دُعاگو