بری نظر سے بچاؤ
کچھ سال پہلے میں لندن کے علاقے ہیکنی میں ایک فلیٹ میں رہتا تھا، جس کے باسیوں میں ایک یہودی لڑکی ڈیبرا بھی شامل تھی۔ اس فلیٹ کو چھوڑتے ہوئے ڈیبرا نے مجھے ایک چھوٹا سا تحفہ دیا تھا جسے بعد میں میں اپنے سامان میں رکھ کر بھول گیا۔
حال ہی میں میں نے ایک بار پھر فلیٹ بدلا اور اس عمل کے دوران مجھے پرانے لفافوں میں ڈیبرا کا دیا ہوا وہ تحفہ بھی ملا۔ وہ دراصل ایک تعویذ ہے جو بہت سے یہودی بری نظر سے بچنے کے لیے اپنے پاس رکھتے ہیں اور دوستوں کو بھی دیتے ہیں۔
تعویذ ہاتھ کا نشان ہے اور اس کے ساتھ ایک کاغذ پر مختلف زبانوں میں اس کی تعریف درج ہے۔ لکھا ہے 'ہمسہ(The Hamsa): عربی زبان میں اس کا مطلب ہے پانچ۔ ہاتھ کے نشان والے اس تعویذ کو بری نظر سے بچنے کے لیے دیوار پر لٹکایا جا سکتا، گلے میں پہنا جا سکتا یا چابیوں کے گچھے میں بھی ڈالا جا سکتا ہے۔ اس کا تعلق سعودی عرب سے ہے۔ یہ پیغمبر محمد کی بیٹی فاطمہ کے ہاتھ کا نشان ہے۔ مسلمان ان کا انتہائی احترام کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ انہیں بدقسمتی سے بچا سکتی ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے یہودیوں نے بھی اس تعویذ کو اپنا لیا تھا اور پھر آہستہ آہستہ مختلف نسلوں کے یہودیوں نے بھی اسے قبول کر لیا۔ '
اس طرح کے واقعات کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ دشمنی کی دیورایں مصنوعی ہیں جو مخصوص مفادات نے کھڑی کی ہیں۔ کیا اس طرح کی مثالوں سے امید نہیں پیدا ہوتی کہ مختلف رنگ و نسل و عقائد کی چادر کے نیچے تمام انسان ایک ہی کشتی میں سوار ہیں اور ان کا ہمیشہ ایک دوسرے کا دشمن رہنا ضروری نہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
دشمنی کی ديواريں يقينا” مصنوعی ہيں۔ آپ لاہوريوں کو ديکھ ليں کہ بسنت بھی منائيں گے اور شادی اور مرگ کی رسميں ہنودؤں سے بہت ملتی ہيں۔جہاں تک ہاتھ کے نشان والی بات ہے اگر آپ تاريخ کا وسيع مطالعہ فرمائيں اور بحثيت غير جانبدار تو يہ اسلام سے پہلے ہی يہوديوں ميں موجود تھا۔ چونکہ وہ اہل کتاب ہيں اس ليۓ يہ سوچ خدا کي طرف سے ہی آئی ہوگی جو کہ حضرت فاطمہ کو بھی پہنچ گئي ۔آدم حوا اور بہت سے پيغمبروں کے ايک جيسے قصوں کا توريت، بائيبل اور بعد ميں قرآن ميں ہونے کا مطلب بھی يہ ہی ہے کہ ہم ايک ہی کشتی نہيں بلکہ بحری جہاز ميں سوار ہيں بس ہوس زر اور شہرت نے انسان کو يہودی مسلم ہندو عيسائی يا طالبان بنا ديا ہے۔آپ لندن کے فليٹ ميں بلا تفريق کسی اور مذہب کے فرد کے ساتھ امن سے رہ سکتے ہيں مگر پاکستان ميں نہيں اس کی بنيادی وجہ نيم ملاں کے فرسودہ خيالات اور اپنی اکثريت پہ گھمنڈ کے سوا کچھ نہيں۔
نجانے بی بی سی اپنی اس تحریر سے کیا ثابت کرنا چاہتا ھے۔
جب قرآن کہتا ہے وہ دشمن میں ہیں تو بی بی سی والوں کے پیٹ میں کیوں درد ہو رہا ہے
اسد علی صاحب پلیز اپنی لغت درست کر لیں۔ عربی پانچ ’ہمسہ‘ نہیں بلکہ خمسہ ہوتا ہے۔
اسد علی صاحب جو کچھ غزۃ میں ہو رہا ہے کیا اس کے بعد بھی اس تعویز کی کوئی اہمیت رہ جاتی ہے ؟ یا آپ کو کسی کے کہنے پر یہودی دشمنی مصنوعی لگنے لگی ہے آپ کو ہزاروں لوگوں کی لاشیں اور سالہا سال کی یہودی ناکہ بندی کیوں نظر نہیں آتی
میں نے تو کبھی ایسا نہیں سنا نہ عرب ممالک میں نہ یورپ میں
بہت سے لوگوں کے نزدیک اسرائیل میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان اختلافات
کا تعلق مذہب سے ہے۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے مذہبی نہیں۔ مسلمان اور یہودی صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ رہتے آئے ہیں اور اب بھی امریکہ، ایران، انڈیا اور افریقہ میں رہ رہے ہیں۔ امید ہے کہ ایک دن یہ سیاسی مسئلہ حل ہو جائے گا اور مختلف مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہ سکیں گے۔ مل جل کر رہنے کے لیے ہمیں ایک دوسرے میں ملتی جلتی باتیں تلاش کرنی چاہیں نہ کہ آپس کے فرق۔
کاش انسانیت کو ہم سب سے بڑا مذہب سمجھتے
اس طرح کے واقعات کے بعد سوال پيدا ھوتا ھے کہ کيا يہ دشمنی کی ديواريں مصنوعی ھيں جو مخصوص مفادات نے کھڑی کی ھيں’ اور ’ ان کا ھميشہ ايک دوسرے کا دشمں رھنا‘۔ يھاں پر ايک اور سوال پيدا ھوتا ھے کہ کيا آپ جيسے پڑھے لکھے روشن خيال حضرات کبھی کلام اللھ سے رجوع کرتے اور رھنمائی حاصل کرنے کی زحمت گوارہ کرتے ھيں کہ يا صرف اور صرف بہت وسيع دنياوی مطالعہ رکھنے کی بنياد پر اسی رویے ’میں جانتا ہوں‘ کا شکار ھيں جس کا شکار ايک بار شيطان بھی ھوا۔ ايسے سوالات کے جوابات ايمان کے درجے سے منسلک ھوتے ھيں نا کہ وسيع مطلعہ رکھنے سے اور ايمان تقوی سے مشروط ہے اور تقوی ھی وہ اصل چيز ھے جس کے بارے اللہ تعالی نے سورہ بقرہ کی پہلی آيت ميں ھی فرما ديا- دوسرا سوال يہ پيدا ھوتا ھے کہ آیا آپ جيسے پڑھے لکھے روشن خيالوں کو وہ تقوی [اللھ کا ڈر] ميسر ھے کہ نھيں- جس کے بغير اللھ کی ھدايت ممکن نھيں۔ باوجود اس کے کہ چاھے دنيا جھاں کے سارے علم پر درترس حاصل کيوں نا ھو- علم تو ابليس کو بہت تھا مگر ھدايت چھين لی گئی- اللھ ھم سب کو کامل تقوی اختيار کرنے کی توفيق دے اور ھدايت دے- آمين-
ڈیئرمسٹر اسد جب بھی پیغمبر اسلام کا نام لیں تو ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابی کے نام کے ساتھ رضی اللہ تعالی عنہ لکھیں۔ دوسرا یہ لفظ خمسہ ہے ہمسہ نہیں۔ ہمسہ کے کچھ اور معنی ہوتے ہیں۔ امید ہے آپ آئندہ خیال رکھیں گے۔ معلومات کا شکریہ۔
دوستی اور دشمنی محض چند باتوں سے نہیں بلکہ عمل سے ظاہر ہوتی ہے۔ تالی دو ہاتھوں سے بجتی ہے اور اسی طرح دوستی یا دشمنی بھی یک طرفہ نہیں ہوتی
دین میں اللہ کے علاوہ کسی بھی ہستی سے حفاظت کی امید رکھنا دین کے خلاف ہے اور شرک سے نزدیک ہے۔ اس سے ایک اور بات ثابت ہوتی ہے کہ مسلمان یہودیوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ مسلمانوں اور یہودیوں میں کوئی دشمنی نہیں سوائے بیت المقدس اور فلسطین کے۔ یہودی مسلم سپین میں بڑے آرام سے رہ چکے ہیں اور اسے اپنی تاریخ کے سنہرے دور کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ موجودہ مسائل مسلمانوں کے نہیں ان یہودی رہنماوں کے پیدا کردہ ہیں جن سے بہت سے یہودی بھی اختلاف کرتے ہیں۔
ميرا مطلب ھر گز يہ نا سمجھ ليا جائے کہ ميں نے کہيں دشمنی کی وکالت کی ہے، مگر ميں صرف ان حضرات پر افسوس کر رھاھوں جو ان لوگوں کی دوستی کی وکالت ميں حلکان ھوئے جارھے ھيں جن کے بارے اللھ کئی بار مطلع کر چکے اور وہ مکار اپنی دشمنی کا پکا ثبوت بھی دے رھے ھيں
اسد علی صاحب آپ کا مضمون دیکھ کر سر پیٹنے کو دل چاہ رہا ہے . بھائی اس بنیاد پر وہ لوگ کیسے مسلمانوں جیسے ہو سکتے ہیں جو حضرت فاطمه کے والد کی رسالت ہی کے منکر ہیں.
میرے خیال میں تمام مذاہب میں مشترکات کثرت سے ہیں۔ اصل میں انسانیت کا اصل دین اسلام ہی ہے۔ لیکن تاریخ کے مختلف ادوار میں انسانوں کی تحریفات کی وجہ سے اس کی شکل بگڑ گئی ہے۔ یہودیت اور اسلام میں بہت زیادہ مماثلت ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ہم سب برداشت کا مظاہرہ کریں۔ اور خاص طور پر اگر مسلمان واقعی اسلام پر عمل کرنے لگیں گے تو شاید دنیا میں کوئی بھی غیر مسلم نہ بچے۔
یہ سب من گھڑت کہانی ہے۔ اسد صاحب پتہ نہیں کہاں سے لائے ہیں
اور اس کے پیچھے کیا مقصد ہے۔
ميرا نہيں خيال کے آپ اتنے”پولے” ہيں کہ جتنا تحرير سے لگ رہا ہے----خير اب ہميں تو علم نہيں کہ جناب کا يہودی لڑکی کے ساتھ کيساتھ کيا”ٹانکا” فٹ تھا پر اتنا ضرور علم رکھتے ہيں کہ يہ ديواريں کسی ايک کے ختم ہونے پر ہی گرسکتی ہيں اور کون ختم ہوگا يہ بھی بحيثيت مسلمان مجھے معلوم ہے-
ميں نے بہت سارے ہندوؤں کو ماشااللہ اور انشااللہ بولتے سنا ہے۔ انڈين اور پاکستانی مسلمان بہت سے ہندو رسم و رواج اپناۓ ہوئے ہيں۔ اس سے کيا اخذ کيا جا سکتا ہے؟ ہاں کچھ لو کچھ دو تو بات سمجھ ميں آتی ہے۔ ایک طرف ذيادتی اور ظلم ہو اور دوسری طرف پيار، تو کچھ بات نہيں بنتي۔