وکی لیکس، کیانی اور زرداری
یہ سفارتی سونامی ہے جسے وکی لیکس کہا جا رہا ہے۔ وکی لیکس نے امریکہ کے چوری کیے ہوئے سفارتی راز کیا افشا کیے ہیں، رازوں کا ایک آسمان سا پھٹ پڑا ہے!
بیدرد کے اقرار میں ہرگز نہ سچائی ہے
کر کے راز تونے فاش سجن دنیا ہنسائی ہے
کان پر ہاتھ رکھ کر گراما فون کمپنیوں کے لیے گانے والے زمانے میں سدا بہار سندھی فنکارہ اللہ وسائی کا ایک ریکارڈ ہوا کرتا تھا۔
ویسے بھی خون، عشق اور جاسوسی راز کبھی بھی چھپائے نہیں چھپتے۔
امریکہ اب ایک ایسے ہوشیار سکولی بچے جیسا بنا ہوا ہے جو تھا تو مانیٹر لیکن اس کے بستے میں گھر آنے والی رپورٹ میں اسے 'بلی' بتایا گیا ہے۔ امریکہ میں یہ لطیفہ عام ہے کہ وائٹ ہاؤس یا وزارت خارجہ کے عمل داروں کی جیبوں میں پڑی ہوئی پین میں بھی 'لیک' لگی ہوتی ہے۔
پاکستان کے متعلق وکی لیکس میں کونسا ایسا راز تھا کہ جو اسلام آباد کے ٹیکسی والے سے لے کر صحرائے تھر کے ٹیلے پر بیٹھے ہوئے چرواہے کو بھی معلوم نہ ہو، کہ صدر زرداری اور فوج میں ٹھنی ہوئی ہے۔ سابق امریکی سفیر این پیٹرسن کو اس میں اتنی زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی ہوگی۔ کیونکہ کہ سب کو پتہ ہے کہ وہ ملک جہاں فوج ملکوں کی نہیں بلکہ ملک فوجوں کے ہوتے ہیں وہاں صدر یا وزیر اعظم کی نوکری 'چیف صاحب' یعنی چیف آف آرمی سٹاف کے موڈ پر ہوتی ہے۔ بھلے پھر صدر یا وزرائے اعظم افواج کے چیف کمانڈر ہی کیوں نہ ہوں۔ عجیب ملک ہیں جہاں زندہ و موجود منتخب صدر اپنی وصیت کی بات کرتا ہے اور اس کے جنرل اسے جلاوطنی میں بھیجنے کی۔
اگر یہ سب سچ ہے تو پھر شاید اسی لیے حافظ شیرازی نے اپنے دنوں میں ایسے ملک تب کے ہندوستان کا دورہ کرنے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے کہا تھا:
'بادشاہ کے تاج کے نیچے ہمیشہ قتل ہونے کا خوف چھپا رہتا ہے
تاج ایک عالیشان ٹوپی تو ہے لیکن اس کے لیے سر کی قمیت بہت مہنگی ہے'
بےچارے زرداری تو خود کہتے ہیں کہ وہ بینظیر نہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
زرداری صاحب ویسے ہی کسر نفسی سے کام لیتے ہیں۔ حکومت کے لالچ میں سو بینظیریں اور دس نواز شریفوں کے برابر ہیں۔ وہ اپنی بیگم کو کوسوں پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ بینظیر کارڈ کا استعمال جاری ہے بھکاری کے واسطوں کی طرح۔ اور قوم بمعہ میڈیا نہ جانے کس احترام میں خاموش ہے۔ ان فصلی اور اصلی جیالوں نے ملک کا نام بھی بدل دینا ہے نقشے کے ساتھ۔ ہوشیار باش