'اوباما اور زرداری'
میں کل شام نیویارک کی بارش میں آغا کی دکان پر پہنچا۔ دکان پر بجتی تبتی موسیقی، دیوار پر لگی دلائي لاما کی تصویر کے فریم کے سامنے والی دیوار کی کونے والی میز پر وہ چترالی ٹوپی پہنے بیھٹا تھا۔
آغا نیویارک میں پاکستانی اور امریکی سیاست کے ایک جز وقتی کارکن ہیں۔
'کیا آپ نے کل رات اوباما کی تقریر سنی؟' میں نے آغا سے پوچھا۔
'نہیں۔ میں نے کل اسی لیے ٹی وی نہیں دیکھا۔۔۔'
پھر اس نے کہا 'اوباما کو لیڈر بننے کا چانس ملا تھا لیکن اس نے وہ موقع گنوا دیا۔' مجھے یاد آیا آغا اور اس کا پورا گھر کتنا جوشیلا تھا پچھلے نومبر میں اوباما کے صدارتی انتخابات پر۔
'میں بش یا مکین کے مقابلے میں اوباما کو اس لیے پسند کرتی ہوں کہ بش اور مکین جنگ کا جبکہ اوباما امن کا پیام لایا ہے'، آغا نے مجھے بتایا اس کی بارہ سالہ بیٹی نے اپنے سکول میں مباحثے میں کہا تھا۔
'لوگوں نے اور میں نے اسے صرف امریکہ کا صدر بننے کے لیے ووٹ نہیں دیے تھے۔ تمام دنیا کے مقہور و مجبور لوگوں نے ایک امید سے اوباما کو ووٹ دیے تھے کہ وہ دنیا میں امن قائم کرے گا۔'
'اب اوباما اور زرداری میں کیا فرق ہوا؟ زرداری بھی جو وعدے کرتے تھے اس سے مکر گئے اور اوباما بھی'، اس نے کہا۔
'کیا امن قائم اس طرح ہوتا ہے۔ کیا دہشت گردی تیس ہزار فوجیں بھیجنے سے ختم ہو سکتی ہے؟ اگر میں امن کی نوبل انعام کمیٹی میں ہوتا تو اوباما سے امن کا انعام واپس لینے کا اعلان کرتا'۔
'لیڈر ایسے نہیں ہوتے۔ لیڈر کمپرومائز نہیں کرتے۔ جو سمجھوتہ نہیں کرتے وہ دلوں پر راج کرتے ہیں۔ ایسے لیڈر لنکن بن جاتے ہیں، جان ایف کینیڈی بن جاتے ہیں۔ گاندھی اور بھٹو بن جاتے ہیں' آغا کہہ رہا تھا۔
اس نے کہا 'وائٹ ہاؤس اوباما کی منزل نہیں سنگ میل ہونا چاہیے تھا۔ تمام دنیا کے لوگوں کی اس سے امیدیں بندھی تھیں۔' پھر اس نے کہا 'مارٹن لوتھر کنگ جونئیر نے کہا تھا، ہم مختلف جہازوں سے امریکہ آئے تھے۔ لیکن اب ہم سب ایک ہی کشتی پر سوار ہیں۔'
مجھے یاد آیا کل شام ٹائمز سکوائر پر جنگ مخالفوں کے جلوس میں مشہور امریکی جنگ مخالف ایکٹوسٹ کہہ رہا تھا 'جو اوباما کے ووٹر نہیں تھے اب اسکی افغانستان میں تیس ہزار فوجیں بھیجنے کے اعلان سے اس کے حامی ہوگئے ہیں۔۔۔ اور جو اوباما کے ووٹر تھے ان میں سے کئي اس کے مخالف۔'
تبصرےتبصرہ کریں
‘بات تو سچ ہے لیکن بات ہے رسوائی کی‘
دونوں کو کام کرنے دو۔ دیکھیں کہ مستقبل میں کیا ہوتا ہے؟
دير نہيں لگتی يہاں کچھ ہونے کو
اک سال چاہيے اوباما سے بش کونے کو۔
پس يہ بات ثابت ہوئی کہ اکثرسياست دان وعدہ کرکے مکر جاتے ہيں۔ اقتدار ميں آنے سے پہلے لچھے دار تقريريں کرتے ہيں جس سے ثابت کيا جاسکے کہ انکو عوام کا بڑا دکھ درد ہے جبکہ دراصل انکا کوئی اس سے دور کا بھی واسطہ نہيں ہوتا۔ اوباما جس تبديلی کا نعرہ ليکر آئے تھے اس کا پول رفتہ رفتہ کھل کر سامنے آرہا ہے۔ادھر زرداری صاحب کی کہہ مکرنیاں بھی گل کھلارہی ہيں اور عوام کو بدذن کرکے پی پی کے ووٹروں کو مخالف کيمپ ميں دھکيل رہے ہيں جو تبديلی کی طرف قابل فہم اشارہ ہےـاوباما کس ترپ کا پتہ کھيلے گا معلوم نہيں جبکہ زرداری صاحب سندھی ٹوپی پہن کر سندھی ٹوپی کا پتہ کھيلنے کے درپے ہیں۔
اگر دہشتگردوں کے ساتھ مزاکرات کرنا اور ان کی خواہش کے مطابق کام کرنے کو آپ امن اور ان کو طاقت کے ساتھ نمٹنے کو برا کہتے ہيں تو آپ بھی وسعت اللہ خان کے ”جيد” افراد کی لسٹ ميں ہو نگے
میرے خیال میں حسن تمہیں اور آغا صاحب دونوں کو اوباما کی تقریر پھر سے پڑہنی چاہیے۔ اوباما کی تقریر افغانستان کے بارے میں نہیں پر وہ زیادہ تر پاکستان کے بارے میں ہے جو مذہبی جنونیوں کی نرسری اور انکو ساری دنیا میں درآمد کرنے کا مرکز بنا ہواہے۔
امن قائم کرنے ،وعدہ نبھانے يا اپنے مؤقف پہ ڈٹے رہنے کے ليے جان کی بازی لگانا ہوتی ہے جو ہر کسی کے بس کی بات نہيں جيسا کہ بھٹو خاندان نے اپنی زندگيوں کا رسک ليا صرف اور صرف اس مافيا کے خلاف جو عام آدمی کو غلام بناکر اپنی اجارہ داری چاہتا ہے اور وہ بھی اسی مجبور رعايہ کو ان کے ذہنوں پہ حکومت کرکے ان کو مختلف نظريات کی آگ ميں دھکيل کر اور ساتھ ساتھ نظام تعليم کے غلط استعمال سے نئی نسل کا ذہن بھی تبديل کررہا ہے ۔زرداری بھی اسی مافيا سے خوف زدہ ہے اور پاکستان اور امريکہ ميں فرق يہ ہے کہ پاکستانی مافيا کی جڑيں فوج کے اندر جاتی ہيں جبکہ امريکہ ميں يہ کام بڑے بزنس مينوں اور بيوروکريٹس کے ذريعے ہوتا ہے۔
جہاں تک اوباما کا تعلق ہے تو جناب ناچيز کی راۓ ہے کہ امريکا پاکستان کی طرح روزانہ کی بنياد پر پاليسی نہيں بناتا چناچہ عوام کے سامنے وہ کچھ بھی کہيں ،کرينگے وہی جو بيس يا تيس سالہ پروگرام ميں شامل ہے - اب زرداری کے اوباما سے مقابلے کے بارے ميں کيا کہوں کہ کوئی جوڑ ہی نہيں بنتا سواۓ اسکے کہ آپ نے فٹ کرديا ہے- محترم بہت ہی افسوس ہوتا ہے يہ سوچ کر کہ ہم غير قانونی ڈکٹيٹر تو سالوں بھگت ليتے ہيں پر جب جمہوريت آتی ہے تو چند ہی ماہ ميں وعدے ياد آنے لگتے حالانکہ وعدوں پر عمل تو تب ہوگا جب عمل کرنے کی آزادی دی جاۓ گی -ايک سال ميں سے ساڑھے دس ماہ تو حکومت بچانے ميں لگ گۓ -غور کريں تو اندازہ ہوگا کہ پندرہ سال کا بگاڑ درست کرنے کيلۓ بھی پندرہ سال ہی چاہيں اور آپ اورآپ کے دوست سال بھر ميں ہی مايوس گۓ - ہمارے ملک کی تباہی کی سب سے بڑی وجہ يہی عدم برداشت ہے اور يہ عدم برداشت بھی صرف کمزوروں پر ہی چلتی ہے ورنہ طاقتور تو وردی ميری کھال ہے کا ورد کرتے کرتے ہی دس سال گزار ديتا ہے وعدوں کی تو باری ہی نہيں آتي-
پہلے ھم سمجھتے تھے کہ صر ف ھما ر ے حکمر ا ن عو ا م کو دھو کہ دينے ميں اپنا ثا نی نھيں رکھتے ليکن انکل سا م کے ھا ں يہ ٹيکنا لو جی ھو گی ھميں اند ا ذہ نہ تھا
”وہ وعدہ ہی کيا جو وفا ہوجاۓ”
یہ بات حقیقت پر مبنی نہیں ہے کہ ابامہ نے افغانستان فوج نہ بھیجنے یا پاکستان پر ڈرون حملےبند کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ حققیت اسکے بلکل برعکس ہے۔ اس نے فوج بڑہانے اور ڈرون حملے بڑہانے کا وعدہ کیا تھا۔ ہمارے پکستانی بھائیوں نے اس خوشفہمی پہ اوباما کو ووٹ دیا تھا کہ
افغانستان اور پاکستان کے وعدے کی حد تک تو وہ "زرداری" ثابت ہونگے۔ وہ دوسرے وعدوں میں تو زرداری ثابت ہوئے مگر اس میں
نہیں۔
حسن صاحب پتہ نہیں آپ کو یاد ہے یا نہیں
آپ نیویارک میں اوباما کو ووٹ نہ دینے والے پاکستانیوں کا ان پٹ لے رہے تھے(میں نے رالف نادر کو ووٹ دیا تھا) تو فون پر میں نے آپ کو بلکل وہی وجہ بتائي تھی جسکا آج ہم کو سامنا ہے۔
جو محترم حضرات افغانستان سے امريکی افواج کی فوری واپسی چاہتے ہيں، کيا انھوں نے بعد از امريکي افواج، افغانستان کے مستقبل کے منظر نامے پر کبھی غور کيا ہے؟ جب تک افغان افواج اپنے ملک کے دفاع کے قابل نہيں ہوتيں، امريکی واپسی کا مطلب افغانستان ميں ايک ہولناک خانہ جنگی کا آغاز اورطالبان کا دوبارہ قبضہ- اميد ہے کہ امريکہ يہ غلطی کبھي نہيں کرے گا، کيونکہ اس بار افغانستان کے ساتھ پاکستان بھي طالبان کے قبضے ميں آ جائے گا- امريکی افواج کی واپسی کے متمني، چاہتے تو يہی ہيں، ليکن دل کی بات زبان پر لانے سے نہ جانے کيوں گبھراتے ہيں؟
میں اوباما کے افغانستان میں مزید فوجیں بجھینے والے فیصلے سے زبرست اتفاق کرتا ہوں۔
امن ایک نسبتی اصطلاح ہےجو زمینی حقائق کی بنیاد پر استعمال ہوتی ہے۔افغانستان کے صورتحال پر نظر کریں اورتصور کریں کہ اگر امریکہ وہاں سے نکل گیا تو کیا ہوگا؟ وہاں مکمل طور پر کشت و خون کا راج ہوگا۔
ایک طرف وہاں پر نام نہاد جمہوری حکومت ہے اور دوسری طرف
طالبان شدت پسد اور اسلامی انتہاپسند ہیں، آپ کسے ترجیح دیں گے؟