'اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔۔۔'
جماعت اسلامی کی جانب سے کیری لوگر بل پر 'صاف و شفاف' ریفرنڈم کے انعقاد پر پارٹی کے سربراہ منور حسن صاحب کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد دینے کو دل چاہتا ہے۔
عوام اور سیاستدانوں پر ہمیشہ شک کرنے والی پاکستانی فوج کے ساتھ یکجہتی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے۔ اِدھر کور کمانڈروں نے اجلاس کے بعد محض چند جملوں کا پالیسی بیان جاری کیا اُدھر مسلم لیگ نواز سمیت کئی جماعتوں نےاس پر لبیک کہا۔
بہرحال سب سے زیادہ وفادری کا کریڈٹ جماعت اسلامی کو ہی جاتا ہے جس نے دن رات ایک کر کے اس ایشو پر بقولِ شخصے انجینئرڈ ریفرنڈم کروایا۔ شفافیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر غالباً منور حسن صاحب تھے اور پولنگ ایجنٹس جماعت اسلامی کے ہی مقامی رہنماء تھے۔ ووٹوں کی گنتی بھی جماعت اسلامی کے منظم ذمہ داروں کے مبارک اور مقدس ہاتھوں سے کچھ اس طرح انجام پائی کہ دوسرے ہاتھ کو خبر تک نہیں ہوئی۔
ریفرنڈم میں اٹھاونوے فیصد افراد کا کیری لوگر بِل کے خلاف ووٹ دینے سے نہ صرف فوج کی منشاء پوری اور ساکھ بہتر ہوئی بلکہ اس سے جماعت اسلامی کا سیاسی موقف بھی 'برحق فوج' ثابت ہوا۔
کیری لوگر بل پر ریفرنڈم اعداد وشمار کے لحاظ سے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف اور ایشو کے حوالے سے جنرل ضیاءالحق کے ساتھ مماثلت رکھتا ہے۔
لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ جماعت اسلامی خودکش حملوں کے حلال یا حرام ہونے، مساجد میں بم دھماکوں، طالبان کو 'دہشت گرد' یا 'مجاہد' قرار دینے، چینی اور دیگر روزمرہ اشیاء کی عدم دستیابی اور بڑھتی ہوئی قیمتوں پر کوئی ریفرنڈم کرواتی، لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔۔۔
تبصرےتبصرہ کریں
سلام
یہ آپ کیری لوگر بل کی حمایت ميں لکھ رہے ہیں؟
مجھے اس بات کی سمجھ نہيں آئی کہ بيرونی و اندرونی امداد پہ چلنے والی جماعت کس منہ سے کيری لوگر بل کی مخالفت کر رہی ہے۔ شايد ان کو کچھ نہيں ملے گا اس لیے۔ ورنہ امريکہ اور روس کی سرد جنگ کے دوران تو انہيں جو ملا وہ قبول کيا۔ مجھے آج تک ان کے موٹو کی سمجھ نہيں آئی۔۔۔
جماعت اسلامی کی تاریخ ایسے کاموں سے بھری پڑی ہے۔۔۔
جناب بےوقت کی راگنی الاپنا جماعت اسلامی کا ہمشہ وطيرہ رہا ہے۔ جب کہ مملکت پاکستان ايک کٹھن دور سے گزر رہی ہے، کبھی جماعت اسلامی ڈاکٹر عافيہ کے معاملے کو ہوا دينے ميں سرگرم ہو جاتی ہے تو کبھی کيری لوگر بل کے اوپر ريفرينڑ م کراتی ہے۔۔۔ ان کے پاس اتنا وقت کہاں کہ خود کش بمباروں اور ان کے عزائم کو غلط يا حرام قرار دے۔۔۔ نہ تو برسر اقتدار آ کر خوش رہتی اور نہ ہی حزب اختلاف کا کردار احسن طور پر ادا کر پاتی۔۔۔ لگتا اس کے پاس تعميری سوچ کا فقدان ہے۔
آہ كاش ہم كو آج بھى سمجھ آ جاتا کہ تمام مسائل كى اصل جڑ ہی امريكہ ہے۔ ليكن بی بی سى تو بی بی سى ہے۔۔۔
اى بسا آرزو كہ خاك شدہ۔۔۔
جماعت اسلامی کے ’بے بی ريفرينڈم‘ کا سن کر پرويز مشرف کا ريفرنڈم ياد آگيا جس ميں ناچيز کو ہزار ووٹ ڈالنے کا شرف حاصل ہے۔۔۔ ليکن وہ ذہنی ناپختگی کا زمانہ تھا اور ساتھ ہی سکول کے استاد کا حکم بھی تھا۔ چناچہ اس وقت جوش ميں آکر عمل کياگ بعد ميں (عقل آنے پر) اپنے کیے پر بڑا پشيمان ہوا اور ريفرينڈم کے نام سے ہی چبھن ہونے لگي۔ اب جب جماعت کے ريفرينڈم کی بازگشت سنی تو پرانا زخم ہرا ہوا، فيصلہ کيا کہ ووٹ تو ضرور ڈالنا ہے وہ بھی جماعت کی تبليغ کے برعکس۔۔۔ چناچہ جمعرات کو يہی عظم کر کے سويا۔ جمعہ کی صبح سڑک پر گھومنے والی سوزوکی سے ہونے والی پرہيبت تقرير سے ہوئی۔ جس ميں کيری لوگر بل کے اتنے نقصانات بيان کیے گئے کہ ايک وقت تو مجھے انديشہ ہوا کہ مولانا کہنے لگیں گے ’عزيزوں ميں تو بھاگ رہا ہوں آپ بھی بھاگیں۔۔!‘ جمعہ کی نماز پڑھنے گيا تو باہر ہی جماعت کے کارکن ايک گتے کا ڈبہ رکھے نظر آگئے، جس پر تحرير تھا’کيری لوگر بل امريکی غلامی کا پھندا۔۔‘ بہت سا حوصلہ اکھٹا کر کے جماعت کے کارکنوں کے پاس گيا جنہوں نے مجھے ايک کاغز پکڑا کر حکم ديا کہ يہاں نشان لگاؤ۔ میں نے پڑھنے کی اجازت چاہی تو انہوں نے مجھے ايسے گھورا کہ سارا حوصلہ ’ٹائیں ٹائیں فش‘ ہوگيا اور ميں جماعت کے کارکنوں کا حکم بجا لايا۔۔۔
نماز سے قبل کيری لوگر بل پر امام صاحب نے خطبہ ديا اور نماز کے بعد اسی حوالے سے رقت آميز دعا کرائی۔ اور ميں سوچتا رہا کہ کاش کہ مولوی صاحب اسی طرح خودکش حملوں پر بھی خطبہ ديں۔۔ جماعت کے کارکن اسی عظم و حوصلے سے دہشت گردوں کو بھی للکاريں پر ’ہزاروں خواہشیں ايسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔۔۔‘
السلام عليکم، آپ کا بلاگ پڑھ کر اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بقول سید منور حسن جہاں اس ریفرنڈم سے امریکہ خوف زدہ ہوا ہے وہیں اس کے حواریوں پر بھی یہ بہت گراں گزرا ہے۔
جماعت اسلامی ایک دینی، سیاسی جماعت ہے۔ دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح اس کا حق بھی اور فرض بھی ہے کہ یہ رائے عامہ کو اپنے مؤقف کے حق میں ہموار کرنے کے لیے سیاسی اور جمہوری مہمات چلائے۔ ایک روشن خیال فرد کی حیثیت سے ہمیں ہر کسی کو اپنا ضمیر بیان کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔ اگر خود کش بمبار انتہا پنسد ہیں تو پرامن جمہوری مہم کا مذاق اڑانے والوں کو آپ کس زمرے میں شمار کریں گے؟ پاکستان کی یہ واحد جماعت ہے کہ جس میں جمہوری طریقے سے الیکشن کے ذریعے قیادت منتخب ہوتی ہے نیز اس کے حسابات کا آڈٹ الیکشن کمیشن کے پاس جاتا ہے۔
کاکڑ صاحب! جماعت ايک مکمل و منظم تنظيم ہے۔ اس کی خدمات سے بھرپور فائدہ اور ملک بھر ميں پھيلے کارکنان کی مخفی صلاحيتوں سے فائدہ اٹھانے والے جانتے ہيں کہ ان کو کب اور کيسے استعمال کرنا ہے۔ جس دن اوپر سے حکم آئے گا تو وہ حملوں پر بھی پرچياں ڈلوا ليں گے مگر آپ کے لکھنے سے نہيں۔
کسی صاحب نے مشرف صاحب کے ریفرنڈم کا ذکر کیا ہے، اتفاق سے اس روز میں پاکستان میں تھا اور جب ہاتھ دے کر گاڑی روکنے والے ایک سرکاری اہلکار کو میں نے بتایا کہ میں اوورسیز پاکستانی ہوں اور میرے پاس کوئی شناختی دستاویز نہیں کہ اس کی فرمائش پر ووٹ ڈال سکوں تو بولا ’ گاڑی کے کاغذ تو ہوں گے وہ دکھا کر ووٹ ڈال لیں‘۔ جماعت اسلامی کے ڈھونگ میں تو ایسے کسی تکلف کی بھی ضرورت نہ رہی ہوگی چنانچہ اگر اس ریفرنڈم کا نتیجہ مشرف کے ریفرنڈم سے بھی بڑھ کر ریفرنڈم کرانے والوں کے موقف کے حق میں نکلے تو بہت پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اسی کا نام ہے پاکستان!
محترمی جماعت کو تنقيد کا نشانہ بنانے کی بجائے آپ براہ راست کيری لوگر بل کی حمایت ميں لکھيں: سامنے آتے بھی نہيں صاف چھپتے بھی نہيں والا رويہ چھوڑ ديں۔
’نان ایشوز‘ پر سیاست جماعت اسلامی کی خصوصی شناخت ہے۔
السلام علیکم
جناب خود کش حملوں کی اصل وجہ یہی امریکی امداد ہے۔
جو علما خود کش حملوں کے خلاف بولتے تھے ان کے حق ميں کچھ لکھنے کی توفيق کيون نہين ہوئی؟
جماعت اسلامی میں اور بھارتیہ جنتا پارٹی میں كیا فرق ہے؟ دونون مذہب كے نام پر عوام كو بےوقوف بنا رہی ہیں۔
میں نے پہلی بار پبلک باتھ روم ميں لکھا پڑھا تھا ’ظالمو قاضی آ رہا ہے‘۔
دھرنے اور ريفرنڈم کی سياست کي بنياديں کالج ہاسٹلز سے شروع ہوتی ہيں جس کا پر تشدد مظاہرے ديکھ چکا ہوں اور شايد کئي دوستوں کی طرح بھگت بھي چکا ہوتا لیکن قسمت اچھی تھی۔ بادشاہ اور بادشاہ گر ميں بادشاہ گر زيادہ قابل سزا ہے۔ پولنگ بوتھ پر جنگی ترانے سن کے دل چاہا ’15‘ پر کال کر دوں۔
جماعت اسلامی اور جنتا پارٹی میں فرق یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے ابھی تک تشدد کو پارٹی پالیسی کے طور پر کبھی بھی اختیار نہیں کیا۔ جہاں تک عوام کو بیوقوف بنانے کا تعلق ہے تو یہ کام ساری سیاسی جماعتیں کرتی ہیں۔ جاگیرداروں کے غلبے والے اس معاشرے میں نام نہاد سیکولر جماعتوں کی قیادتیں مسلسل اسی غاصب گروہ کے پاس رہی ہیں۔ میکاولی کے فلسفے کا جس بے دردی سے استعمال پاکستان کی سیاسی جماعتیں کرتی ہیں وہ کہیں اور نہیں ہوتا ہوگا۔