غیر محفوظ ایٹمی طاقت
پاکستان میں ہونے والے ہر خود کش حملے کے بعد ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ ایٹمی دھماکے کرنے سے پاکستان کو کیا فائدہ ہوا؟ ہم نے کون سا سنگ میل طے کیا؟
یہ سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ ایٹمی دھماکے کرتے وقت ہمیں بہت شدت سے احساس ہو گیا تھا کہ اب یہ ملک دنیا کے چند مضبوط ترین یا یوں کہیے کہ محفوظ ترین ممالک میں شامل ہو گیا ہے، لیکن آج ہر خود کش حملہ اس دعوے کی نفی کر رہا ہے۔
ہم عالمی طاقتوں میں شامل ہونے کے دعویداروں کی نیت کو چیلنج نہیں کر رہے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ ایٹمی دھماکوں کو بہت زیادہ سال نہیں گزرے اور پاکستان کا شمار دنیا کے چند غیر محفوظ ترین ممالک میں ہو رہا ہے۔
پاکستانی بھی دنیا کہ ان شہریوں میں شامل ہیں جنہیں آج تک یہی سمجھایا گیا، اور بہت سے ابھی بھی، یہی سمجھ رہے ہیں کہ ہمارے پاس جدید اسلحہ ہے، دور سے دور مار کرنے والے میزائل ہیں، ہمارے فوجی دلیر اور ذہین ہیں اس لیے ہمارا ملک ہر سازش اور خطرے سے محفوظ ہے۔
کسی بھی قومی دن کی تقریبات عسکری قوت کے مظاہرے کے بغیر نامکمل سمجھی جاتی ہیں۔ المختصر طاقت کا مظہر اسلحہ اور جانثار کرنے کا جذبہ رکھنے والے افراد ہیں۔
ان میں سے کسی بات کو جھٹلانا مقصد نہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی پاکستان اس مشکل دور سے گزر رہا ہے جب خودکش حملوں کے ڈر سے سکیورٹی ادارے بھی نہیں بچ پا رہے۔
پاکستان میں سیاسی حکومتوں کو چلنے نہیں دیا گیا اور ملکی حالات کو سدھارنے کے نام پر بار بار فوج اقتدار میں آئی اور طویل عرصے تک کام کیا۔ ان کی نیت اور ارادوں کو شک سے بالا بھی قرار دے دیں تو سچ یہ ہے کہ وہ جب بھی اقتدار سے ہٹے تو ملک مزید مشکلات میں گھر ہوا تھا۔
وزیر داخلہ اور دوسرے اعلیٰ حکام ہمیشہ کی طرح کہتے نہیں تھکتے کہ ساری صورتحال کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ ہے اور انڈیا کا نام لیتے ہیں۔ لیکن اس غیر ملکی چال کو بھی کامیاب کرنے کے لیے لوگ تو اندر کے ہی کام آ رہے ہیں۔ اور بیرونی سازشیں اتنی آسانی سے اسی وقت کامیاب ہوتی ہیں جب ملک اندرونی طور پر کمزور ہو۔
کئی ماہ پہلے مانچسٹر میں ایک پاکستانی صاحب سے ملاقات ہوئی تھی جو وہاں ٹیکسی چلاتے ہیں اور جن کے خیال میں خودکش حملہ آوروں کو سمجھنا مشکل کام نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کے علاقے میں کئی ایسے افراد ہیں جنہیں لاہور یا کہیں پر بھی کسی دعوت کا منظر دکھانے کے بعد کہیں بھی خود کش حملے پر راضی کیا جا سکتا ہے۔ 'جن کے بچوں نے کبھی دو وقت روٹی نہ کھائی ہو وہ تو صرف دعوت کے بعد ضائع ہونے والا کھانا دیکھ کر ہی کہیں پر بھی پھٹ جائے گا۔'
پاکستان میں اگر کوئی تجربہ نہیں ہوا تو وہ ہے سیاسی حکومتوں کے بغیر روک ٹوک کام کرنے کا۔تقریباً ساٹھ برس فوج اور غیر سیاسی نظام کی بالادستی میں گزارنے کے بعد اب اگلی نصف صدی جمہوری نظام کو بھی آزما لینا چاہیے جس میں فوج منتخب حکومت کے ماتحت ہو۔ شاید اسی طرح سماجی انصاف اور قانون کی بالادستی قائم ہو جائے جو اندرونی اور حقیقی طاقت کے لیے ضروری ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
يہ غير فطری ملک سامراجی طاقتوں نے اپنے مفادات کے ليے بنايا تھا - جب تک ان کے مفادات ہيں يہ ملک قائم ہے - مگر اب ايسا لگتا ہے کہ يہ طاقتيں اپنے مفادات کے ليے جلد اس ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کر ليں گی - يہاں عوام صرف ايک اکثريتی صوبے ميں رہتی ہيں -باقی صوبوں ميں عوام نہيں بلکہ رعايا بستی ہيں - جن کی کوئی حيثيت نہيں -
بہت اچھا
اسد چوہدری صاحب بہت اچھا لکھا ہے۔ ايسی طاقت بننے کا کيا فائدہ جب اپنے ہی اپنوں کے دشمن بن جائيں۔ ہماری بدقسمتی کہ پارٹيشن کے بعد ملک کی باگ دوڑ ٹيکنيکل ہينڈ يعنی سياست دانوں کی بجائے فوج اور ان کے حواری نيم سياست دانوں جن کو ملک سے زيادہ اپنی جاگير داری يا صنعتکاری عزيز تھی کی کٹھ پتلی حکومتوں کے ہاتھوں ميں چلی گئي۔اسی وجہ سے عوام کی حالت بہتر کرنے کے منصوبے کسی کوسوچنے کی ضرورت محسوس نہيں ہوئی کيونکہ ان کا اپنا سب کچھ بہتر چل رہا تھا۔ امريکہ نے روس کو افغانستان سے بھگانے کے ليۓ پاکستان کے امير امومينين جنرل ضيا کی خدمات سے استفادہ کيا اور انٹيلی جنسيوں نے تمام مذہبی تنظيموں کو سپورٹ کيا۔جو کچھ بھی ہوا کسی نے نہ سوچا آگے کيا ہوگا۔ پھر آج حالت سب کے سامنے ہے ۔
ڈور کو سلجھا رہا ہوں سرا ملتا نہيں
آداب! مانچسٹر کے ٹیکسی ڈرائیور کا کہنا بالکل بجا ہے اور یہ درست ہے کہ انسان کی اچھائی اور برائی کا معیار اسکی معاشی آزادی اور آمدنی پر ہوتا ہے۔ جب تک دولت کی غیرمساوی تقسیم ختم نہیں کی جائے گی، جب تک فیکٹریوں کو حکومتی تحویل میں نہیں لیا جائے گا، جب تک سوشلزم آگے نہیں آئے گا تب تک غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا چلا جائے گا، انتقام کی آگ بھڑکتی رہے گی اور یہ فلسفہ پنپتا رہے گا بقول شاعرِ مشرق:
‘جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہء گندم کو جلا دو‘
يہی تو دکھ ہے کہ ايٹمی طاقت بننے کے باوجود ہم لوگ اتنی کمزور قوم ہيں۔ نہ تعليم، نہ صحت، نہ سماجی و معاشرتی ترقی۔ بہتر ہوتا اگر ايٹم بم کے بجائے ہارورڈ، کيمبرج جيسی يونيورسٹيز بنائی جاتی ايٹم بم سے تيز اسٹوڈنٹس نکلتے تو طاقتور ملک ويسے ہی بن جانا تھا، ميزائيل سے تيز کام کرنے والے ہسپتال بنا ليتے۔ ليکن نہيں۔ انڈيا سے مقابلہ کرنے کيلۓ بنالۓ ايٹم بم، اب بس خوش رہو ايٹمی بن کر
يہ بات ملک کو کمزور کرنے والے کوئی ان خودکش حملے کروانے والوں سے کہے کہ وہ ملک کو کمزور کرکے کس کو فائدہ پہنچا رہے ہيں- اسلام کی آڑ ميں بے گناہ لوگوں کو قتل کرکے اسلام کے کس پہلو پر عمل کر رہے ہيں- اپنے ہي ملک ميں دہشتگردی کرکے وہ دنيا ميں لوگوں کو اسلام کی کيسی تصوير پيش کر رہے ہيں- انکے ہر حملے کے بعد اگر کوئی آفت آتی بھی ہے تو وہ عام لوگوں پر ہی آتی ہے- ايک سوال يہ بھی ہے کہ علماء يہ جانتے ہوئے بھی کہ اسلام کے نام پر سب غلط ہو رہا ہے کيوں خاموش ہيں- يہ سخت وقت تو گزر ہی جائے گا آخر ايک دن مگر علماء کی خاموشی بھی ياد رہے گی کہ وہ لوگ حکومتوں پر دن رات تنقيد کرنے والے اس ظلم کے سامنے خاموش تماشائی بنے رہے-
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
مجھے يہ کہنےميں کوئی جھجک نہيں کہ ايٹمی اسلحہ کا استمعال يا اس کے استمعال کی دھمکی جس سے بچے اور بوڑھے ، مرد اور عورتيں ، فوجی اور سولين بلا تفريق ہلاک ہوتے ہيں، اسی ذہنيت کي عکاسی کرتا ہے جو ايک خودکش بمبارکی ہوتی ہے ۔ يہ لوگ بھی بلا تفريق مارتے ہيں
اسد بھائی بی بی سی پرکافی عرصہ بعد ايک مکمل بلاک پڑھ کر خوشی ہوئی- آپ نے درست کہا کہ سياسی قيادت کو ہر صورت موقع ملنا چاہۓ - ايک سياست دان عوام کے درميان رہ کر اپنے عروج پر پہنچتا ہے علاقائی اور بين الاقوامی سياست کے داؤ پيج کا وہ بخوبی علم رکھتا ہے- اس کے برعکس ايک فوجی اپنے کيريئر کر شروعات ”يس سر” سے کرتا ہے اور اپنے عروج پرپہنچتے پہنچتے وہ ”يس” سنے کا عادی ہوجاتا ہے اور اس تمام عمل ميں وہ عوام سے کوسوں دور رہتا ہے، يہی وجہ ہے کے جب تک کسی جرنيل کے ہاتھ ميں معملات ہوتے ہيں وہ اپنا حکم تھوپتا چلاجاتا ہےاور جب کوئ اس پر ہاوی ہو(امريکا) تو وہ بھيگی بلی بن جاتا ہےاسي لۓ کہا جاتا ہے کہ بد ترين جمہوريت بھي بہترين آمريت سےبہتر ہے
اپنا منہ بند رکھو
سب کے سب نا اہل ہیں، اُس کے بعد "جس کی لاٹھی اُس کی بھینس"
اور آخری بات جمہوریت بنائی ہی اس وجہ سے گئی ہے کہ کرپشن کی جائے،
"جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے جس میں کہ
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے"
کچھ دن پہلے تک تو میں کافی مایوس تھا۔ پھر تحمل کے ساتھ سارا کچھ سمجھنے کی کوشش کی کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔ دنیا کے بیس ملکوں کی فوجیں کیری لوگر بل سے تیس سے چالیس گنا زائد رقم خرچ کرنے، دنیا کی جدید ترین مشنری کے استعمال اور سینکڑوں فوجی مروانے کے باوجود بھی نہ صرف بے بس دکھا ئی دیتی ہیں بلکہ اندرون خانہ مایوس بھی ہیں۔ منجھے ہوئے کمانڈر اور دنیا کے ذہین ترین ماہر ابھی تک ناکام ہیں تو کیوں۔
آٹھ نو سال کی ناکامی کے بعد موردالزام ٹھہرایا گیا تو پاکستان کو۔ واویلا مچا تو پاکستانی ایٹمی اثاثوں پر۔
میں تو اتنا جانتا ہوں کہ پاکستان کا چھوٹے سے چھوٹا ائیر پورٹ بھی دنیا کے جدید ترین آلات، سیکورٹی کے مربوط نظام اور بہترین سیکرٹ سروس رکھنے والے ملک سے زیادہ محفوظ رہا ہے۔ جہاں سے بیک وقت پانچ جہاز اغوا ہوکر خودکش حملہ آور بن گئے تھے۔ ایٹم بم کوئی گدھا گاڑی تو نہیں کہ جس کا دل چاہے جدھر مرضی ہانک کر لے جائے۔ باقی رہا خوف اس بات کا کہ کہیں فوج کے اندر سے کوئی گڑبڑ نہ کر دے۔ ایسا ہونا ہوتا تو ایک بھی فوجی اٹک کا پل کراس نہ کر پاتا۔ وزیرستان تو بہت ہی دور ہے۔
جناب اب يہ ايٹمی قوت اس ملک کا آخری آسرا ہے۔ اس کے بغير آپ کا دشمن آپ کو لمحوں ميں ختم کر دے گا۔ ان دھماکوں کے بيک پر موجود دشمن کو پہچانيں وہ کھل کر جنگ نيں لڑسکتا لہذہ اب چھپ کر وار کر رہا ہے اور انشااللہ اس مشکل وقت کے بعد اسے اس کي پوري قيمت ادا کرنا ہو گی۔
جناب اسد صاحب آپ کی بات میں وزن ہے کہ یہاں آمریت کی جگہ جمہوریت کی اشد ضرورت ہے اور میں آپ کی اس بات سے سو فیصد متفق ہوں کہ آمریت نے ملک کو نقصان پہنچایا۔ لیکن ایٹمی طاقت بننے کے باوجود خطرات میں گھر جانا ایٹمی طاقت کا قصور نہیں بلکہ یہاں کی حکومتوں خصوصاً فوجی حکومتوں کی مکمل ناکامی ہے۔ ذرا سوچیئے کہ آج ہم اتنے مشکل حالات سے گزر رہے ہیں اگر ایٹمی طاقت نہ ہوتے تو ہمیں اس سے کئی گنا زیادہ خطرات کا سامنا کرنا پڑتا۔ ابھی تو صرف امریکہ ڈرون حملے کرتا ہے ایٹمی طاقت نہ ہوتے تو بھارتی ’’سرجیکل سٹرائیکس‘‘ کا سامنا کیسے کر پاتے اس ایٹمی طاقت کی بدولت ہم آج بھی محفوظ ہیں ورنہ ہمیں موجودہ خطرات سے بھی بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑتا۔۔۔۔
افسوس کی بات ہے کہ کچھ لوگ اس ملک کو غیر فطری سمجھتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا میں بے شمار ملک اسی طرح قائم ہوئے اور ہمیشہ سے قائم ہیں اور رہتی دنیا تک قائم رہیں گے۔ جن لوگوں کو شکایت ہے کہ پاکستان میں عوام صرف اکثریتی صوبے میں رہتی ہے وہ یقینا غلطی پر ہیں کیونکہ انہیں اس ’’اکثریتی صوبے‘‘ کے درست حالات معلوم نہیں ہیں۔۔ جب ظلم ہوتا ہے تو پورے ملک کے ساتھ کسی ایک صوبے کو بھی بخشا نہیں جاتا ہاں کچھ لوگ اپنی پریشانیوں کا الزام دوسروں پر دھر کر خود کو بری الذمہ ضرور قرار دیتے ہیں۔۔۔غلام بلوچ سے میں صرف اتنا کہوں گا کہ ذرابگٹی ہائوس میں بنے ہوئے اس چڑیا گھر کا نظارہ ضرور کریں جہاں سرداروں نے کروڑوں روپے کے جانور پالے اور ان کے علاقے کے لوگ بھوک سے مر رہے تھے۔
کعبے کس منہ سے جائو گے غالب شرم تم کو مگر نہیں آتی
ہماری سوچ کا تو اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک سیمینار میں ایک آرمی آفیسر سے پوچھا کہ سر اگر ہم انڈیا پر اٹیک کریں تو زیادہ سے زیادہ اس کا تیس فیصد حصہ تباہ کریں گے لیکن وہ ہمیں مکمل طور پر تباہ کر سکتا ہے تو ان کا جواب تھا کہ کوئئ بات نہیں ہم جاتے جاتے انڈیا کی ناک تو توڑ جائیں گے۔ یہی وہ سوچ کا انداز ہے جس نے ہمیں یقین دلایا کہ جوہری اثاثے ہی ہماری طاقت ہیں اور ہم اسلام کا قلعہ بن گئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ خدا کے لیے خیالی پلاؤ بنانا بند کریں۔ یہ جنگ جو افغانستان سے ہماری گلیوں میں آ گئی ہے انہی خیالات کی دین ہے۔
چودھری صاحب فقط ايٹم بم ہی تحفظ کی ضمانت ہوتے تو سوويت يونين ٹوٹ کر نہ بکھرتا - کيا دہشت تھی اس کی - عسکري قوت ميں تمام مغربی ممالک پر حاوی تھا - ليکن کيا ہوا - نسل در نسل بد نظم قيادت نے ادارے کھوکھلے کر ڈالے اور سب کچھ دھڑام سے نيچے آ رہا - ہم خوش ہو لۓ کہ ہم نے مار بھگايا - پاکستان عين اسي رستے پر گامزن نظر آتا ہے - جرنيل فوج کي کاروباری سلطنت چلائيں يا عسکري امور ديکھيں - پارليمان صنعتکار اور جاگيردار طبقے کے ہاتھوں يرغمال رہي ہے - اقتدار ان تين طبقات تک محدود ہے جنہيں سوائے اپنےمفادات کےاور کسی چيز سے کوئی سروکار نہيں ہے - آپ پچاس سال کی بات کرتے ہيں - يہاں تا ابد کچھ نہيں ہونے والا جب تک ان جونکوں سے چھٹکارا نہيں پايا جاتا ہے -
سب جھوٹ ہے۔ ميڈيا پراپيگنڈا کر رہا ہے۔ اپنا ذہن استمال کريں۔ خود سوچيں اور سمجھيں- ميں نے بہت سے کالم پڑھے مختلف اخباروں ميں- سب ايک جھوٹ کو سچ ثابت کرنے ميں لگے ھيں کہ پاکستان گيا - ھميں مايوس کرنے پر تلے ھيں -پاد رکھيے مايوسی کفر ہے اور اپنی تاريخ بھی پڑھ لو سپين ميں مايوس ھو کر ہتھيار ڈھالنے والوں کے ساتھ دشمن نے کيا کيا- ہتھيارڈالنے سے پہلے سبزباغ دکھائے اور باد میں خون کی ندياں بہائيں-
میں تو صرف ایک چیز جانتا ہوں کہ جمہوری طاقت سے لیس پاکستان تمام غیر مسلم دنیا کا باپ ہے