'سارے ہیرو ختم ہوتے جا رہے ہیں۔۔'
'سارے ہیروز ایک ایک کر کے میرے وقت میں میرے سامنے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ بڑا ہو کر میں کیا کہوں گا کہ یہ کیسا بچپن تھا میرا'۔ کلیفورنیا کے جنگلوں کی آگ کی طرح پھیلنے والی مائیکل جیکسن کی موت کی خبر والی شام میرے بیٹے نے مجھ سے کہا۔ وہ بہت اداس تھا پھر اس نے کہا 'اسے تم صحافیوں نے مار ڈالا'۔
سارے ہیروز واقعی ہمارے وقتوں میں ہمارے سامنے ختم ہوتے گئے ہیں۔ جواں مرگ لیکن سج دھج سے۔ اوشو، پہلے بھٹو اور پھر بینظیر اور اب مائیکل جیکسن!
'تیز رفتاری سے جیو اور جوانی میں مر جاؤ کہ جیسے تمہاری لاش خوبصورت لگے۔' نام یاد نہیں لیکن انیس سو ترانوے کی خزاں میں لندن کی پب کے باہر مردہ پائے گئے مشہور جواں سال پاپ سنگر کی موت پر اس کے مداحوں نے ٹی شرٹس سمیت اپنی ہر چيز پر لکھا تھا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مائیکل جیکسن کے خلاف ایک بچے کے ساتھ مبینہ طور پر جنسی زیادتی کے مقدمے کا جس دن فیصلہ عدالت میں آنا تھا، تو فیصلہ آنے سے کئی گھنٹے قبل میڈیا مائیکل جیکسن کو عدالت کی جانب سے سزا کا نہ فقط اعلان کر چکا تھا بلکہ ہائی سکیورٹی جیل میں وہ تنگ کھولیاں بھی دکھاتا رہا جس میں، بقول اینکر لوگوں کے 'مائیکل جیکسن کو زندگی کا باقی حصہ گزارنا پڑے گا۔' ہونی ایسی ہوئی کہ میڈیا کی ایسی قیاس آرائیوں کے درمیاں مائیکل جیکسن عدالت سے باعزت بری ہوکر آئے۔ میں نے کل شام دیکھا کہ وہی اینکر پرسن تھے، وہی امریکی میڈیا تھا اور سب مائیکل جیکسن کی موت پر آنسو بہا رہے تھے۔
'آج میرے لیے بڑی بری خبر اور بری شام ہے۔ تمہیں پتہ ہے جب میں یہاں امریکہ آيا تو مائیکل جیکسن کے گیت خوب چلتے تھے۔ وہ امریکہ کیا پوری دنیا کی علامت تھا'۔ میرے ایک صحافی دوست نے کہا جو کئی برس قبل پاکستان سے امریکہ آیا تھا۔
پورا امریکہ، ساری دنیا ایک احساس جرم اور چاہت کے ملے جلے جذبوں سے اس جواں سال لیکن زمانوں میں چند ایک بار پیدا ہونے والے فنکار کے لیے رو رہی ہے۔
فٹبال کے ورلڈ کپ میں برازیل کے ہار جانے اور بھٹوؤں کے مارے جانے پر ایک جیسا رونے والی لیاری (کراچی کا ایک علاقہ) کی طرح نیویارک میں پورا ہارلیم بھی رو رہا تھا۔
تبصرےتبصرہ کریں
بقول شاعر،
’مر جائے تو بڑھ جاتی ہے انساں کی قيمت
ندہ ہو توجينے کی سزا ديتی ہے دنيا‘
بہرحال ايک بات ہے کہ ہيرو مر کرامر ہو جاتے ہيں اور زمانہ وتاريخ ان کے کردار کو کبھی قراموش نہيں کر سکتے۔ رہ گئی دنياوی زندگی تو يہ کتنی بھی لمبی ہو جائے پھر بھی اس کی مثال پانی کے بلبلے کی مانند ہی ہے۔
‘آدمی مسافر ہے، آتا ہے اور جاتا ہے
آتے جاتے اپنے پیچھے کئی یادیں چھوڑ جاتا ہے۔۔۔‘
مترم حسن مجتبی، گھبرائيں نہيں، ہيرو مرتے اور پيدا ہوتے ہی رہتے ہيں۔
سچ کہ ہم ايم جے کے عہد ميں پلے ہيں۔ 1979 ميں ضياء کے پاکستان سے بھاگ کر بلگراد يونيورسٹی کا سٹوڈنٹ بنا تو ايم جے کو ٹی وی پر ديکھتا رہا۔ سب اسے ’ميٹھا لڑکا‘ کہتے تھے۔ 1982 ميں کينيڈاآايا تو يہاں ايم جے کی گونج تھی۔ تھريلر کے بعد وہ شہرہ افاق بنا۔ نوجوانوں کی تفريح کا خوب سامان تھا جس کا مطلب لڑکے لڑکيوں کو’کسب کمال کن کہ عزيزے جہاں شوي‘ سمجھانا تھا۔ يعينی کام کے وقت مکمل بھرپور کام اور تفريح کے وقت دل کھول کر تفريح۔۔۔
حسن بھائی! يہ حقيقت ہے کہ يہ شخص دنيا سے کيا منہ موڑ گيا سب کو افسردہ و رنجيدہ کرگيا۔ بہرحال يہ اس شخص کی موت کا ماتم ہے جس نے سالوں سب کو اپنی موسيقی کے سحر ميں جکڑے رکھا۔ اسی کو کہتے ہيں نہ کہ موسيقی کے سروں کی کوئی قيد و حد نہيں ہوتی۔ صوفيوں کی سرزمين اور موسيقی کے دلدادہ سندھ کے باسيوں نے اس عظيم فنکار کو خوب خراج تحسين پيش کيا ہے۔ لياری و نيويارک کيا يہ شخص تو اس ادا سے دنيا سے بچھڑا کہ سب کو رلا گيا، اداس کرگيا اور موسيقی سے بھری دنيا کو ويران کرگيا۔
سچ کہا آپ نے۔ میں اپنے بچوں کو شاید دنیا کی ہر آسائش دے سکوں لیکن انہیں زندگی میں رول ماڈل بننے والے ہیروز نہ دے سکوں۔ پرانے ہیروگزر گئے جو پیچھے رہ گئے وہ اتفاقیہ ہیروز کی مسند پر فائز ہو گئے اور پرانے ہیروز کی تصویروں کو دیواروں۔ تاریخ کے اوراق سے کھرچنےمیں مصروف ہیں۔ بہترین کلاسیکل گلوکار۔۔کھلاڑی۔۔۔سیاستدان۔۔۔فنکار۔۔۔ادیب۔۔۔۔کوئی بھی ایسا نہیں رہا جس کے ساتھ لفظ بہترین لگ سکے۔
ناصر کاظمی نے کہا تھا:
بہاريں لے کے آئے تھے جہاں تم
وہ گھر سونے جنگل ہو گئے ہيں
انہيں صديوں نہ بھولے گا زمانہ
يہاں جو حادثے کل ہو گئے ہيں
جو خلق خدا کے دلوں کا قرار بن کے جيتے ہيں وہ کبھی مرا نہيں کرتے۔
ہر بلاگ میں سندھ اور بھٹوؤں اور پیپلز پارٹی کو گھسیٹنا ضروری ہے کیا؟
ہيرو ہيرو ہوتا ہے اور ہيرو کبھی نہيں مرتا، ہميشہ دلوں اور زمانوں ميں زندا رہتا ہے ليکن ہم قدر مرنے کے بعد کرتے ہيں۔ کاش کہ ہم زندوں کی بھی قدر کر سکيں۔