جیکسن پر ہم سب روئے
تقریباً نصف رات کو جب ریڈیو پر جیکسن کے انتقال کی خبر سُنی تو نہ صرف میری نیند اڑ گئی بلکہ ایسی اضطرابی کیفیت پیدا ہوگئی کہ بچے پریشان ہوکر میرے کمرے میں آگئے اور حیرت سے پوچھنے لگے 'آپ جیکسن کے انتقال پر اتنی اُداس کیوں ہو۔'
میں لاجواب ہوگئی۔
دوسرے روز بی بی سی کی نشریات میں تقریباً ہر ملک کا شہری جیکسن کے انتقال پر اظہار افسوس کر رہا تھا۔
مشرق سے مغرب، ایشیا سے افریقہ تک ہر کوئی جیکسن کی اچانک موت پر ماتم کُناں نظر آیا۔
بیشتر اسلامی ملکوں میں جہاں بعض عناصر نے موسیقی کو اسلام منافی قرار دیا ہے وہ بھی جیکسن کی موت پر افُسردہ ہوگئے۔
میں دن بھر سوچتی رہی کہ ہمارا جیکسن کے ساتھ کیا رشتہ یا اس سے پہلے ڈیانا سے کیا رشتہ تھا کہ ہم سب اِن کے انتقال پر افُسردہ ہیں۔
شاید ہمارے سیاست دانوں نے ہمیں مذاہب، ثقافت، لسانیات کی سرحدوں میں اس طرح قید کیا ہے کہ ہم انسان اور انسانیت سے محروم ہوگئے ہیں۔
اب سیاست دانوں نے گلوبلائزیشن کی جو تشریح کی ہے وہ مجھے حقیقت سے کوسوں دور لگ رہی ہے۔ اصل گلوبلائزیشن اس بات کی مظہر ہے کہ جیکسن کی موت پر جس طرح امریکیوں نے ماتم کیا اسی طرح غیر امریکی بھی اداس اور افسردہ نظر آئے۔ لوگ خود ہی عالمگیریت کی تشریح کرنے لگے ہیں۔
کاش دنیا میں سیاست دانوں کے بجائے جیکسن ہی ہوتے۔
تبصرےتبصرہ کریں
اصل ميں ہماری دنيا ميں مرنے کے بعد ہی انسان کی قدر لوگ کرتے ہے۔ مائيکل جيکسن جب تک زندہ تھے لوگ ان سے لاًتعلق تھے۔ کل کو کوئی اور مرے گا تو اس کی بھی ايسی ہی قدر ہو گي۔ ليڈی ڈيانا، ياسر عرفات سب اس بات کی مثالیں ہیں۔ ’تيرے جانے کے بعد تيری ياد آئي۔۔۔‘
ایک کالم نگار کے مطابق تو مائيکل جيکسن موسيقی کی تاريخ کی کتاب ميں حاشيہ ميں جگہ پانے کے قابل تھے بس! جيکسن ان کے نذديک احساس محرومی کا شکار تھے۔ شايد يہ لوگ خود احساس محرومی کا شکار ہیں۔ اسی ليے ساری دنيا کے لوگوں کی چاہت اور محبت ديکھنے سے قاصر ہیں۔ پاکستان کو انہی دانشوروں اور صوفيوں اور مجاہدوں نے تباہ کر ديا ہے۔۔۔
ہميں بھی جيکسن کی موت کا افسوس ہے کيونکہ يہ مرنے والے کا حق ہے۔ اس بات کا درس ہميں ہماری مذہبی تعليمات ديتی ہیں۔ يہی وجہ ہے کہ ميں آپ کی اس بات سے متفق نہيں ہوں کہ ہمارے سياستدانوں نے ہميں ان باتوں سے بيگانہ کر ديا ہے، کيونکہ نہ وہ ہمارے لیے قابل تقليد ہے اور نہ ہم ان احساسات کی ترجمانی کے لیے ان کے محتاج ہيں۔ البتہ آج اگر ہم انسانيت سے محروم ہيں تو اس کے ذمہ دار صرف ہم ہيں۔ مانا ہمارا جیکسن اور ڈیانا سے سوائے ’انسانيت‘ کے کوئي دوسرا رشتہ نہيں، ليکن يہ ايک رشتہ ہی ايسا ہے جو ہميں ان کی موت پر افسردہ کر ديتا ہے۔ مجھے افسوس صرف اس بات کا ہے کہ ہم تو ان کے جيکسن کے لیے افسردہ ہو جاتے ہيں ليکن ہمارے وہ بےگناہ بہن بھائی جو بےقصور ڈرون حملوں کا نشانہ بنتے ہيں ان کے لیے وہ افسردہ کيوں نہيں ہوتے؟ شايد اس لیے کہ وہ انسانيت سے محروم ہو چکے ہيں جبکہ ’جیکسن ہم سب تم پر روئے۔۔۔‘
محترمہ آپ کا تبصرہ بروقت اور عالم انسانيت کے جذبات کی ترجمانی ہے۔
محترمہ نعيمہ احمد مہجور،
گلوبلائزيشن کا يہ پہلو واقعی بہت احسن ہے کہ ہم سب ايک دوسرے سے انسانيت کے رشتے ميں جڑ گۓ ہيں اور دنيا کے کسی ايک کونے ميں ہونے والے واقعے کا اثر پوری دنيا ميں محسوس ہوتا ہے جو کھبی کھبی مظلوموں کی آواز بھی بن جاتا ہے اور ان کی داد رسی کا ذريعہ بن جاتا ہےـ بلکہ ميں تو يہ کہوں گا کہ گلوبلائزيشن کے اشارے تو اسلام ميں موجود ہيں۔