| بلاگز | اگلا بلاگ >>

ووٹ کی قیمت

اصناف: ,

اسد علی | 2009-04-22 ،15:11

اپریل کی ایک خوشگوار صبح انتخابات کے موسم میں میں دلی کے اندرا گاندھی ہوائی اڈے پر پہنچا۔ تیز دھوپ اور دھندلی فضا نے ہمارا استقبال کیا

ہوائی اڈے سے باہر آنے میں زیادہ دیر نہیں لگی اور تقریباً تیس منٹ میں میں سی این جی پر چلنے والی ایک بوسیدہ سی سوزوکی ٹیکسی میں ہوٹل کی طرف روانہ ہو گیا۔ اڈے پر زیادہ رش نہیں تھا۔ لوگ جتنی تیزی سے طیارے سے باہر آئے اتنی ہی تیزی سے غائب ہو گئے۔

راستے بھر میں آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے بڑے ملک اور سب سے بڑی جمہوریت میں ہونے والے انتخابات کی جھلک تلاش کرتا رہا، لیکن کچھ نظر نہیں آیا۔ کم سے کم اس طرح کا کچھ نظر نہیں آیا جسے پاکستانی انتخابات کے تجربے کے بعد آپ اس عمل کا لازمی حصہ سمجھنے لگتے ہیں۔

ہوائی اڈے سے ہوٹل تک تقریباً گھنٹے کے راستے میں ایک بھی پوسٹر، بینر، جھنڈا، وال چاکنگ نہیں تھی۔ شام کو دلی کے ایک دو دیگر علاقوں میں جانے کا بھی اتفاق ہوا لیکن صورتحال نہیں بدلی۔ مجھے بتایا گیا کہ ایسا الیکشن کمیشن کی پابندیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ لیکن یہ بھی بتایا گیا کہ ملک کے کچھ حصوں یہ چیزیں دیکھنے کو ملیں گی۔

لندن سے دلی تک کے سفر کے دوران انڈیا کی بارے میں ایک تحریر پڑھی جس میں بتایا گیا تھا کہ ملک میں سن سینتالیس سے انتخابی میدان میں ایک جنگ جاری ہے۔ ایک طرف تو آئین کا دیا ہوا نظام ہے جس میں ہر شخص کا ایک ووٹ ہے اور ہر ووٹ کی قیمت ایک ہی ہے۔ دوسری طرف سماجی نظام ہے جس میں ہر شخص کی قیمت ایک نہیں۔

یہ دونوں نظام انتخابی میدان میں ٹکراتے ہیں۔ سیاست کے ذریعے محمود و ایاز کو ایک صف میں کھڑا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ کوشش سن انیس سو باون سے جاری ہے۔ ان کے مطابق انڈیا کی کامیابی یہ ہے کہ یہ کوشش اب تک سیاست کے میدان میں ہی محدود رہی ہے اور اسی میں حل تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 13:04 2009-04-23 ,جاويد جمال الدين :

    ہندوستان ميں اليکشن کے دوران جو ماحول نظر آرہا ہے، وہ لگ بھگ ايک دہائی قبل بدلا ہے۔ اس سے قبل شہری اور ديہی علاقوں ميں انتخابی مہم کے دوران ہنگامہ آرائی عروج پر رہتی تھی۔ چند سال ميں شہری علاقوں ميں اس کا اثر کم ہوا ہے۔ لیکن ديہی علاقوں اور خصوصاً اترپرديش اور بہار ميں ماحول مختلف رہتا ہے۔ جہاں اس تبديلی کی بات ہے اس کا سہرا سابق چيف الیکشن کمیشنر ٹی اين سيشن کے سر پر بندھتا ہے۔ انہوں نے انتخابی مہم اور اليکشن کے اعلان کے ساتھ انتخابی صابطہ عمل کو سختی سے نافذ کرنے ميں پہل کی اور يہی اس کا اثر ہے کہ آج ہر جگہ ہر ايک پارٹی اس کا خيال رکھ رہی ہے۔ ورنہ 80 اور 90 کے عشرے ميں اشتعال انگيز تقارير کرتے تھے اور فرقہ وارانہ منافرت بڑھائی جاتی رہی لیکن سيشن نے اليکشن قوانين کو سختی سے نافد کيا اور ان تمام چيزوں کا خاتمہ ہوا۔ اس کے لیے سيشن مبارکباد کے مستحق ہيں۔

  • 2. 18:35 2009-04-23 ,Dr Alfred Charles :

    اسد صاحب! يہ سب کچھ جو آپ ديکھ رہے ہيں يہ بااختيار،خود مختار اور آزاد اليکشن کميشن کی بدولت ہے۔ دنيا کی سب سے بڑی جمہوريت ميں يہ بندوبست کوئی آسان کام نہيں

  • 3. 18:46 2009-04-23 ,نجيب الرحمان سائکو، لاہور، پاکستان :

    چوہدری صاحب، آداب! قیاس ہے کہ آپ کا بلاگ بہت اوکھا ہے یا سمجھنے میں دشوار ہے اور یہی وجہ ہے کہ تبصرے نہیں آ رہے ہیں۔ خاکسار نے تفصیلی تبصرے لکھنا تو بند کر دیا تھا کہ یہ ہمیشہ ہی کھا لیے جاتے ہیں لیکن آج بلاگ صفحہ کو سنسان ہونے سے بچانے کے لیے تفصیلی تبصرہ بھیج رہا ہوں۔

    جیسا کہ آپ نے کہا ہے کہ بھارت میں دو نظام ہیں ایک ‘آئینی نظام‘ اور دوسرا ‘سماجی نظام‘- اور یہ دونوں نظام باہم آپس میں گتھم گتھا ہوتے ہیں لیکن بھارت کا ’سیاسی نظام‘ ان دونوں نظاموں میں صلح صفائی کروانے کا کام کرتا ہے۔ دیگر الفاظ میں، بھارت کا ’سیاسی نظام‘ بہت قابل ستائش و قابلِ تعریف ہے کہ اس نے بھارت کو، پاکستان کی طرح خون خرابہ، بارہ مئی، طالبانائزیشن، ملائیت وغیرہ بننے سے روکا ہوا ہے اور وہاں پر ’سیاسی نظام‘ یکجہتی پیدا کیے ہوئے ہے۔

  • 4. 4:33 2009-04-24 ,ابوشامل :

    بھارت میں انتخابات صرف دہلی میں ہی نہیں ہو رہے بلکہ راس کماری سے جموں اور جے پور سے میزورام تک ہو رہے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ دہلی کا ماحول ہمارے ’پاکستانی‘ ماحول سے بالکل مختلف تھا، یکطرفہ رائے کہلائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ پہلے ہی مرحلے میں 21 افراد مارے گئے ہیں اور ابھی کئی مراحل باقی ہیں۔ بہتر ہوتا کہ دہلی کے ساتھ ساتھ آسام کا تجزیہ بھی پیش کر دیا جاتا۔

91ȱ iD

91ȱ navigation

91ȱ © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔