مسلمانوں کو کیا چاہیے؟
ہندوستان کے پارلیمانی انتخابات میں آجکل اس بات پر بہت بحث ہے کہ مسلمان کس کا ساتھ دیں گے۔ جب کوئی فرقہ، مذہب یا برادری انتخابات میں کسی کا ساتھ دیتی ہے، تو اس کی کچھ توقعات اور کچھ آرزوئیں ہوتی ہیں۔
تو مسلمانوں کو کیا چاہیے؟ وہ کس بنیاد پر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کس کا ساتھ دیں؟
برسوں پہلے میرے ایک بزرگ کہا کرتے تھے کہ' میں نے ہندوستانی مسلمانوں کو کبھی کوئی یونیورسٹی، سکول یا کالج مانگتے ہوئے نہیں دیکھا، نہ وہ کبھی اپنے علاقے میں ہسپتال کے لیے تحریک چلاتے ہیں اور نہ بجلی پانی کے لیے، وہ جانوروں تک کا ہسپتال نہیں مانگتے۔ انہیں چاہیے تو بس ایک چیز: لاؤڈ سپیکر پر مسجد سے آذان دینے کی اجازت جس پر اکثر فرقہ وارانہ اعتبار سے حساس شہروں میں پابندی لگا دی جاتی تھی۔
میرے خیال میں بنیادی طور پر یہ بات اب بھی سچ ہے۔ چاہے لاؤڈ سپیکر اب اشو نہ ہو، لیکن مسلمان اب بھی ماضی میں ہی الجھے ہوئے ہیں۔ انڈیا میں نام نہاد سیکولر جماعتوں کو ووٹ دیتے ہیں، حفاظت کے نام پر ان کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے ہیں، پاکستان میں شرعیت کے نفاذ کے لیے جان دیتے ہیں، ایسا کیوں ہے کہ اس کے سوا ہمیں اور کچھ نہیں چاہیے؟
تبصرےتبصرہ کریں
’حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ اُمت روایات میں کھو گئی‘
انڈيا ميں کروڑوں کی تعداد ميں مسلمان آباد ہيں اور انڈين پنجاب کے ايک غير مسلم ريٹائرڈ استاد جو تقسيم سے پہلے لائلپور (موجودہ فيصل آباد) ميں پيدا ہوئے اور اب کئی دہائيوں سے يہاں برطانيہ ميں مقيم ہيں کے بقول انڈيا ميں مسلم آبادی انتہائی کسم پرسی کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے اور انہيں اپنا ذاتی کاروبار شروع کرنے سميت کئی قسم کے بنيادی حقوق بھی حاصل نہيں ہيں اور ايسی کئی وجوہات کی بنا پر ان کا معيار زندگی انتہائی پست ہے۔ چند لوگوں کو چھوڑ کر اکثريت رکشہ کھينچنے جيسے جان توڑ کام کرنے پر مجبور ہيں۔ انسانی، مذہبی، سياسی اور معاشی آزادياں ہی انسان کو ترقی اور کاميابی سے ہمکنار کرتی ہيں۔
ایسا سو فیصد صحیح نہیں ہے۔ ہم مذہب کے بارے میں حساس ہیں لیکن ہم تعلیم و ترقی کے لیے بھي کوشاں ہیں۔ کم سے کم بھارت کے مسلمانوں کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہيں۔ ساری رکاوٹوں (غریبی، پسماندگی اورفرقہ واریت) کے باوجود کافی ہمت دکھائی ہے مسلم سماج نے۔
سہيل صاحب! آج کل کے زمينی حقائق کے تناظر ميں مسلمانوں کو جو کچھ مانگنا چاہيے مانگ رہے ہيں۔ سب سے بڑھ کر خوداری اور ماضی کا شاندار رکھ رکھاؤ اور روايات بھی آڑے آتے ہیں۔ ہندوستانی مسلمان خوش قسمت ہیں کہ انہیں علی گڑھ جيسا ادارہ ميسر ہے۔ ساتھ ہی سياسی محاذ پر ذاکر علی، نجمہ ہدايت اللہ اور مولانا ابوالکلام آزاد جيسی نابغۂ روزگار شخصيات بھی ديکھ لی ہيں تو اور کيا چاہيے ماسوائے انتہا پسندی سے کنارہ کشی اور تحفظ کے۔
جب کوئی بھی قوم ایک ایسے نظام کے نیچے زندگی گزار رہی ہو جو ان کی سوچ اور عقیدے کے منافی ہو تو اس قوم کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو dark ages میں یورپ کے ساتھ ہوتا تھا، پہلی جنگ عظیم سے پہلے سوشلسٹ عقیدے کے حمایتیوں کے ساتھ ہوتا تھا اور جو انڈیا میں اور ساری دنیا میں اس وقت مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اب اس کے دو ہی حل ہیں۔۔۔۔ یا تو مسلمان اپنا عقیدہ بدل لیں یا پھر مسائل کا حل دینے والا نظام۔
حليم صاحِب ميرے خيال ميں تو ايک سچے مسلمان کو اپنی ذات کے لیے واقعی کچھ درکار نہيں ہوتا ليکن جيسا کہ آپ نے ہندوستان کی سياست کے متعلق کہا ہے تو وہاں رہنے والوں کی مجبوری ہے کہ وہ اپنی حِفاظت کے نام پر وہاں کے سياستدانوں کے ہاتھوں بليک ميل ہوتے ہيں۔ پھر بھی اِتنے گھٹے ہوئے ماحول ميں رہ کر اگر ہمت دِکھاتے ہيں تو بڑی بات ہے۔ ہم لوگ تو ايک مسلم ملک ميں رہتے ہوئے بھی بس يہ نا جانے کيوں سوچتے ہيں کہ ہمارے ہاتھ ميں کچھ بھی نہيں حالانکہ جو ہم نے پايا ہے وہ رشک کرنے کو کافی ہے۔ يعنی ايک مسلِم ملک، اپنا ملک جہاں اپنی مذہبی آزادی تو ہے ليکِن قدر نہيں ہے۔ وجہ وہی کہ جو چيز پاس ہے اُ س کی کيا قدر کريں؟
انڈیا میں اگر کسی مسلمان کی معاشی حالت تھوڑی بہت درست ہو بھی جائے تو وہ اسے ظاہر کرنے سے ڈرتا ہے کیونکہ ان کے دلوں میں خوف ہے کہ جب بھی مسلم کش فسادات ہوں گے تو معاشی طور پر مستحکم مسلمان پہلے نشانہ بنیں گے۔گجرات کے فسادات میں بھی یہی ہوا تھا اور کروڑوں انڈین مسلمان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ انتہا پسند ہندو تنظیموں نے متمول مسلمانوں کے ناموں اور پتوں کی باقاعدہ فہرست فسادیوں کوجاری کی تھی۔ انڈین مسلمان جس دباؤ میں زندگی بسر کر رہے ہیں اس کا اندازہ ہم پاکستانیوں کو کبھی نہیں ہو پائے گا۔