جوش نہیں ہوش چاہیئے
کیا آپ کو یاد ہے کہ کارگل کی لڑائی میں بھارتی حکومت نے اپنا سب سے بڑا سول اعزاز ایک فوجی کو یہ کہہ کر دیا کہ اس نے لڑائی میں بہت بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جان دے دی تھی لیکن وہ خوش قسمت سپاہی بعد میں دلی کے ایک ہسپتال میں زندہ پڑا ملا تھا۔ حکومت کو ذرا شرمندگی ہوئی لیکن شاید اس سے اعزاز واپس نہیں لیا گیا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیشہ یہ ضروری ہوتا ہے کہ سبھی فیصلے سوچ سمجھ کر کیے جائیں مگر ان فیصلوں کے متعلق زیادہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہوتی ہے جن سے شرمندگی ہو سکتی ہے، جن کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں یا جن سے جانوں کا زیاں یا جنگ کا خطرہ ہو سکتا ہے۔
اب ذرا ممبئی حملوں کو لیجیئے کہ کس طرح اگر دس افراد یہ ٹھان لیں کہ انہوں نے بس بربریت کا مظاہرہ کرنا ہے اور اپنی اور دوسروں کی جانوں کی ذرا پروا نہیں کرنی تو وہ کیا کچھ کر سکتے ہیں، کتنے خطرناک ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے جو کیا اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں حکومتیں کیا کر رہی ہیں۔ کیا یہ ضروری نہیں کہ ہم حملے تو نہیں روک سکے لیکن ان کے مقاصد کو کامیاب ہونے سے روکیں۔
جب یہ حملہ آور جن کے متعلق بھارت کا کہنا ہے کہ وہ سب کے سب پاکستانی تھے اس نیت سے ممبئی گئے کہ وہاں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو قتل کریں گے اور دہشت پھیلائیں گے اس لیے ان کو اس کی ذرا بھی پروا نہیں تھی کہ وہ اپنے آپ کو چھپانے کی کوشش کریں۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ ان کو پتہ تھا کہ بھارت کا اگلا ردِ عمل کیا ہو گا۔ اور ٹھیک بھارت نے اس طرح کا ردِ عمل ہی ظاہر کیا۔ بات پاکستان کی سرزمین پر حملوں اور جنگ تک پہنچ گئی۔ انڈین میڈیا میں آنے والے رائے شماری کے جائزوں میں اکیانویں فیصد لوگوں نے پاکستان پر جنگ کی حمایت کی۔ اس وقت ایسا لگا کہ حملہ آور آج اپنے مقاصد میں کامیاب ہوئے ہیں۔
کیا کسی نے ممبئی حملوں کے متعلق اٹھنے والے سوالوں کے متعلق نہیں سوچا۔ کیا یہ نہیں سمجھ آیا کہ یہ حملے ایک یا دو ہفتوں یا مہینوں کا کام نہیں تھے، کس طرح حملہ آور اپنے ٹارگٹس کے متعلق بالکل کلیئر تھے، دونوں ممالک میں انٹیلیجنس شیئرنگ کی کتنی ضرورت ہے، کس طرح پاکستان شدت پسندی کا شکار بنا اور کس طرح اس بھنور میں پھنس گیا۔
بھارت کو شاید اس بات کا بھی اندازہ ہوا ہو گا کہ پاکستان میں ہونے والے خود کش حملے صرف اخبار کی سرخیاں نہیں ہیں، ان کے پیچھے رسیاں کھینچنے والے جو لوگ ہیں ان سے مشترکہ طور پر نمٹنا کتنا ضروری ہے۔ معصوم لوگوں کی جانیں لینے والوں کا کوئی ملک نہیں ہوتا اور شاید عالمی برادری کے لیے اچھی طرح سمجھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ دنیا کو درپیش مسائل حل کرنے سے ہی ان بے ملک لوگوں سے نمٹا جا سکتا ہے۔
نہیں تو قصاب اس طرح کے 'لشکروں' میں بھرتی ہوتے رہیں گے۔
'جنگ کے اور بھی تو ميدان ہيں
صرف ميدانِ کشت و خوں ہی نہيں
حاصلِ زندگی خِرد بھی ہے
حاصلِ زندگی جنوں ہی نہيں۔' ساحر لدھیانوی
تبصرےتبصرہ کریں
محترم عارف شميم صاحب، ريکارڈ تو خير ہمارے وطنِ عزيز کے اربابِ اقتدار و اختيار کا بھی اس سلسلے ميں کوئی زيادہ اچھا نہيں، مگر بھارت کی واقعی بات ہی الگ ہے! ديکھا جائے تو ميدان ميں بھارت تنِ تنہا راج کر رہا ہے ، کوئی اور مُلک اس کا ثانی نہيں، يہ اپنی مثال آپ ہے۔ تاہم، تاريخ گواہ ہے کہ سارا قصُور اس بے چارے کا بھی ہر گِز نہيں۔ دراصل اِس غريب کو ماضی ميں بيرُونی حملہ آور پے در پے اِس قدر رگيدتے رہے ہيں کہ اس نے شرم وغيرہ سب گھول کر پی رکھی ہے اور يہ کب کا ’لکڑ ہضم، پتھر ہضم‘ ہو چکا ہو ہے۔ رہے نام اللہ کا۔
خير انديش، نديم اصغر
جی ايک اور بات، ان لوگون کو معاف نا کریں۔
ہندوستانی سرکار پاکستان دشمنی اور پاکستانی سرکار عوام دشمنی میں کچھ بھی کر سکتی ہے، ان کو عقل دینے کی قطعاً کوئی کوشش نہیں کرنی چاہئے اور نا ان کے فیصلوں پر حیران ہونا چاہئے۔ ورنہ سائیبر ایکٹ بھی ایکشن میں نظر آ سکتا ہے۔ آپکو تو فکر ہوتی نہیں بی بی سی پہ لکھنے کی وجہ سے ہمیں تو سو بار سوچنا پڑتا ہے نا جی۔ کچھ قارئین کا خیال رکھا کریں۔
سلام عارف شميم صاحب
آپ کی بات سو فيصد درست ہے کہ دہشت پسندوں کا جواب ہوش و حواس سے دينے کی ضرورت ہے، نہ کہ جوابی کارروائی جو الٹی ان کے خلاف کر دی جائے جو نہ صرف غير متعلق بلکہ خود وکٹم ہوں۔ يہ ايک زمينی حقيقت ہے کہ اس وقت چار مختلف گروہ شدت پسندوں کے ٹاپ نشانے پر ہيں امريکہ (يا مغرب) ، انڈيا، پاکستان اور شيعہ۔ امريکہ نے نائن اليون کے بعد آؤ ديکھا نہ تاؤ اور اينٹ کا جواب پتھر سے دينے کا فيصلہ کر ليا۔ جس ميں آٹے کے ساتھ گھن بھی بری طرح پسا۔ انڈيا نے بھی کبھی پاکستان پر حملے کی دھمکی دی کبھی اپنے ملک کے اندر فرقہ وارانہ فسادات کو بھڑکا کر گناہگار بے گناہ سب کو اس آگ ميں جھونک ديا۔ گجرات کے فسادات تو سب کو ياد ہيں۔ پاکستان کی مثال قدرے بہت حد تک صبروتحمل کی تھی مگر پھر بھی دہشت گردوں کو ملٹری و پيراملٹری آپريشنز کا سامنا کرنا پڑا جس ميں خون در خون بہتا گيا ۔ اب شيعہ پر حملوں کا تجزيہ کريں تو محسوس ہو گا انہوں نے ہميشہ خون ديا مگر کبھي جوابی کارروائی نہ کی جس سے پتہ چلتا ہے کہ دہشت پسندوں کا مقابلہ حکمت ودانش اور صبر وحوصلے سے تو کيا جا سکتا ہے جوابی خون بہانے سے نہيں۔ کيونکہ حقيقی فتح ہميشہ خون کی تلوار پر ہوتی ہے۔ ميرے خيال ميں اس حکمت عملی پر عمل کيا جائے تو دہشت گردوں کے شيطانی نظريات وخواہشات کو خاک ميں ملايا جا سکتا ہے، کيونکہ دہشت گرد دو سو بندے مار کر جوابی کارروائی ميں مرنے والے دس لاشے دکھا کر پھر اپني مظلوميت کا روپ دھار کر اگلی دفعہ زيادہ نقصان کرنے کا جواز بنا ليتے ہيں۔ ايک بات کہ اس کا مطلب يہ نہيں کہ دہشت گردوں کو کھلی چھٹی دے دی جائے بلکہ اينڈ پوائنٹ پر کارروائی کرنے کی بجائے دہشت گردوں کے اوريجن پوئنٹس ٹارگٹ ہوں يعنی انکی پنيری کو ملنے والا کھاد پانی بند کيا جائے۔ جہاد کے نام پر ملنے والے پیسے بند کروائے جائيں، سب فسادی تعليمی کم مگر تخريبی زيادہ مدارس نما اڈے بند ہوں، ہتھیار ملنے کے ممبے کا کھوج لگا کر اسے ٹارگٹ کريں۔ اخباروں ميں ڈھکے چھپے انکے حمايتيوں کا پروپيگنڈہ بند کروايا جائے اور سب سے بڑھ کر ہر بات پر فتوی بازی کے شوقين نام نہاد مذہبی رہنماؤں نے دہشت گردوں کی آدم خور مہم کے سامنے جو مصلحتاً چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے اسے کھلوا کر ان کے قول و فعل کے تضاد کو ختم کروا يا جائے۔
ہندوستان انتہائی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرنے کی مہارت رکھتا ہے مگر ہم انتہائی تابعدار واقع ہوئے ہيں۔ دہشتگردی کے خلاف اس جنگ کا سارا بوجھ صرف پاکستان پر ہی کيوں؟ بھارت ميں بھی ماليگاؤں اور سمجھوتہ ايکسپريس جيسے بيسيوں واقعات ہوتے رہتے ہيں۔ بھارتی آرمی انٹيليجنس کے کرنل ليول تک کے افسروں کے ملوث ہونے کے ثبوت ہيں۔ ہندو تنظيميں علی الاعلان خودکش بمبار تيار کر رہی ہيں۔ کوئی ملک بھارت کو ان دہشتگردوں کے کاروائی کيلیے مجبور کيوں نہيں کرتا؟ کيا اس جنگ کی قيمت صرف ہميں ہی ادا کرنی ہے؟
فريدکوٹ گاؤں کے ايک ريڑھی لگانے والے کا چار جماعت پاس نوجوان لڑکا، عيد پر نئے کپڑے نہ ملنے پر گھر چھوڑ کے چلے جانا، والدين کا چار برس بعد ميڈيا پر اسے ايک دہشتگرد کے روپ ميں ديکھ کر قسمت کو کوسنا، ملک کےايک سرکردہ دينی اور فلاحی ادارے پر سلامتی کونسل کی طرف سے دہشتگردی کا الزام، حکومت پاکستان کا خواب غفلت سے بيدار ہو کر پکڑ دھکڑ کرنا، خدا جانے ہم کيا ثابت کرنا چاہ رہے ہيں جناب عارف شميم صاحب۔
دہشت گردی کہيں بھی ہو ناقابل قبول عمل ہے ۔ ہمارے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لينے چائيں ۔ ضياء ، بے نظير اور نواز شريف سب ہی ماضی ميں دہشت گردی کی سرپرستی کرتے رہے ہيں ـ اجمل قصاب جيسے چار جماعت پاس نوجوان اس وقت تک بدمعاش ملاؤں کے ہاتھوں کھلونا بنے رہيں گے جب تک ان کو مناسب بنيادی سہولتيں مثلاٌ تعليم روزگار اور سماجی تحفظ مہيا نہيں کيا جاتا ۔ يہ پاکستان ميں کس طرح طرح ممکن ہے ؟ جب ہر ڈاکو اور لٹيرا بر عزت مآب بن جاۓ۔ کيا پاکستان ميں ايسا کوئي تعليمی ادارہ نہيں جہاں بلاول صاحب تعليم حاصل کرسکيں ؟ اس سے ايک فائدہ تو يہ ہو گا کہ لاکھوں روپۓ ما زرمبادلہ بچے گا دوسرے اگر بابا سائيں کے دل ميں اگر اب بھی انسانيت نام کی شۓ ہے تو شايد وہ پيسہ کچھ دوسرے معصوموں کو اجمل قصاب بننے سے روک سکے ، تيسرا فائدہ يہ ہو گا بلاول صاحب کو پاکستان کے سماجی سسٹم کو ، عام آدمی کے مسائل کو سمجھنے ميں آسانی ہو گي۔ آخر کل کو انھيں بھی اعليٰ و جليل القدر عہدے پر فائز ہونا ہے ۔ کيونکہ چپراسی کا بيٹا چپراسی وزيرآعظم کا بيٹا وزيرآعظم ، شايد يہی اللہ کا قانون ہے۔ سنا ہے بابا سائيں جب عمرے کی سعادت حاصل کرنے کے لۓ تشريف لے گۓ تو اپنے ہمراہ دو سو سے زيادہ گناہ گاروں کو بھی اپنے ذاتی خرچ عمرے کی سعادت سے فيضياب کيا۔ اس پر کتنا خرچہ ہوا اور يہ پيسہ کہاں سے آيا ۔ کيا محکمہ انکم ٹيکس اس کی تحقيقات کرے گا۔ کيا ہی اچھا ہو تا اگر بابا سائيں يہ پيسہ بيواؤں، يتيموں اور دوسرے حاجت مندوں پر خرچ کرتے اور اپنی عاقبت سنوارتے ـ کيونکہ روز محشر نہ ہی اين آر او کام آۓ گا اور نہ ہی وہاں کوئي پرويز مشرف مددگار ہو گا۔ اب بھارت کی بات کرتے ہيں ، يہ بات بھارت کے عوام اور سياست کاروں کو سمجھ لينی چاہۓ کہ مظبوط و مستحکم پاکستان ہی ان کے بہترين مفاد ميں ہے ـ لہذا دونوں ممالک کو يہ بات سمجھ لينی چاہۓ کہ اگر اپنے يہاں سے دہشت گردی ختم کرنی ہے تو خلوص نيت کے ساتھ ملکر دونوں طرف اس بربريت کے خلاف جدوجہد کرنی ہو گي۔ بدمعاشي، ڈنڈے اور طاقت کے بل پر اگر اسے ختم کرنے کی کوشش کی گئي جيسا کہ ماضی ميں ہوتا رہا تو دونوں طرف حالات بہتر ہونے کے بجاۓ خراب ہی ہوں گے ۔ چاند پر جانے سے غربت ختم ہونے والی نہيں ۔ فی الوقت اعتماد کی فضا پيدا کرنے کی ضرورت ہے۔ بدعنوانی اور رشوت کا خاتمہ اور دفاعی بجٹ ميں مناسب کمی ہماری ترجيحات ہونی چاہئں ۔ ساٹھ سال سے زيادہ عرصے سے ہم ايک دوسرے کو نيچا دکھانے کي لا حاصل کوششيں کرنے ميں لگے ہوے ہيں ، نتيجہ ماسواۓ تباہی و بربادی کے کچھ نہيںـ ہندوستان زندہ باد ـ پاکستان پائندہ باد۔
ظلم کی رات رہے گی کب تک اب نزديک سويرا ہے
ہندوستان بھی ميرا ہے پاکستان بھی ميرا ہے
'ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو ديکھنا تو ديدہء دل وا کرے کوئي'
محترم عارف شميم صاحب، آداب! راقم ہوں کہ جب تک 'نفرت' کا خاتمہ نہيں کيا جاۓ گا، جب تک نفرت پيدا کرنے والے عوامل کے خلاف تن، من اور دھن سے جہاد نہيں کيا جاۓ گا، جب تک مذہب کو رياست سے الگ نہيں کيا جاۓ گا، جب تک بيک وقت آمريت وملائيت کی پيداواروں کی پيدا ہونے سے نہيں روکا جاۓ گا، جب تک مذہب کو انفرادی حيثيت نہيں دی جاۓ گي، جب تک آمرِزمانہ ضياء الحق کی نافذ کردہ 'تعليمی اصلاحات' جنہوں نے فرقہ واريت کو اسقدر پھيلايا کہ شيعہ اور سني طلباء وطالبات کيلۓ اسلاميات کے دو مضمون رکھ ديۓ جو آج تک جاري ہيں اور جنہوں نے 'آج کے بچے کل کے معمار' کي عقل و خرد پر پہرا بٹھانے کے سوا کچھ نہيں، کو دريا برد نہيں کيا جاتا، جب تک مذہب کے نام پر توہمات کی اطاعت کو روکا نہيں جاۓ گا، جب تک انتہاپسندی کی بجاۓ رواداری کا پرچار نہيں کيا جاۓ گا جسکے ليے خطہ ميں سيکولرازم يا کميونزم يا سوشلزم کا ہونا پہلی اور آخری شرط ہے، جب تک تقليدی فکر کو ترک نہيں کيا جاتا، اور جب تک 'انسان کا انسان سے ہو بھائي چارہ، يہي پيغام ہمارا' کو زندگی کا ماٹو نہيں بنايا جاتا، جب تک انسانی مسائل پر رنگ و نسل، اور عقيدے سے آزاد ہوکر سوچنا شروع نہيں کيا جاۓ گا، جب تک جذبات کي بجاۓ عقل کو ترجيح نہيں دي جاۓ گي، جب تک 'ظلم کا جواب ظلم' فلسفہء کو ترک نہيں کيا جاۓ گا کہ يہ ايک لامتناہی تباہی کی طرف لے جاتا ہے، جب تک 'ذلت کي زندگي سے موت بہتر ہے'، 'شير کي ايک دن کي زندگي گيدڑ کي سو سالہ زندگي سے افضل وبرتر ہے' وغيرہ جيسے 'تخريبي انا' پيدا کرنے والے الفاظ فراموش نہيں کيۓ جائيں گے، تب تک جوش کي بجاۓ ہوش کي اميد رکھنا محض ايک خوش فہمي کے سوا کچھ نہيں ہے- محترم عارف صاحب، جنگوں، کشت وخوں اور نفرتوں کو روکنے کيلۓ ہميں اپنے سوچنے، محسوس کرنے اور طرزِعمل ميں زبردست اور ھنگامی بنيادوں پر تبديليوں کی ضرورت ہے- ہميں اپنے جذبات پر قابو پانا سيکھنا ہوگا- يہ صحيح ہے کہ انسان اپنے مقدر کا مالک ہے، اسکے مصائب فطرت نے پيدا نہيں کيۓ بلکہ خود اسکی حماقتوں، ہوشياريوں، لالچوں اور چالاکيوں نے پيدا کيے ہيں- يہی انسان عقل و خرد و دانش و برداشت و قربانی و خدا ترسی و انسانيت اور اپنے وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھا کر اپنی زندگيوں ميں سے نفرت، انتقام، حسد، غصہ، لالچ کا خاتمہ کرکے مسرت و شادمانی و کاميابی پا سکتا ہے- بصورت ديگر 'خدا حافظ اشرف المخلوقات'-
'پيامِ عيش وعشرت ہميں سناتا ہے
ہلالِ عيد ہماري ہنسي اڑاتا ہے'
مخلص، نجيب الرحمان سائکو، لاہور، پاکستان
شميم صاحب
آپ کے بلاگ پر صرف چند تبصرے ديکھ کر اندازہ کيا جاسکتا ہے کہ پاکستان ميں رہنے والوں کو اتنے سنجيدہ موضوعات پڑھنے کا نہ ذوق ہے نہ وقت۔ آپ بھی کسی عام موضوع پہ قلم اُٹھائيے اور ديکھیئے کيسی پزيرائی ملتی ہے۔ موضوع جتنا گھٹيا ہوگا اتنی ہی زيادہ تعريف و تبصرے ہونگے۔ حاصل کلام: قوم انتہائی تنزلی کا شکار ہے۔ مزيد دليل کے لیے پاکستانی اخبارات، اداریے، اور شہرہِ آفاق کالم نگاروں کے کالم ملاحظہ فرمایے اور ديکھیئے کہ آج کی اِس انتہائی کڑے وقت ہمارے خودساختہ تجزيہ نگار و فلاسفر حضرات کن لا حاصل مباحث ميں دست و گريبان ہيں۔ انتہائی شرمناک ہے کہ ہم ہر سطح پر يہ تاثر دينے کی کوشش کر رہے ہيں کہ جيسے پاکستان ميں سب ٹھيک ہو، جيسے يہاں کوئی جہادی تنظيم نہ ہو، کوئی دہشتگرد تنظيم نہ ہو۔ يہ انڈيا کا 11/9 نہ سہی ليکن پاکستان کے لیے دوسرا 11/9 ضرور ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ خود احتسابی کي جاۓ، غلطيوں کو تسليم کيا جاۓ، درست سمت ميں پاليسياں بنائی جائیں۔ پاکستان آج نہيں بلکہ برسوں سے انتہا پسندي، اسلحہ و اسلحہ بندی، دہشتگردي، فرقہ واريت وغيرہ کا نہ صرف گڑھ بلکہ شکار بھی رہا ہے اور اب بھی ہے۔ اِس معاملے ميں ہميں معذرت خواہ ہونے يا کسی کو کچھ بتانے يا چھپانے کی اس لیے ضرورت نہيں کيونکہ کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں، سب ہی سب کچھ نہ صرف جانتے ہيں بلکہ بشمول بھارت، امريکہ و برطانيہ سب کسی نہ کسی طرح شامل و ملوث پہلے بھی تھے اور اب بھی ہیں۔ بہرکيف ہوشمندی کا تقاضہ يہی ہے کہ اب جاگ جايا جائے وگرنہ اب مار اندر کے ساتھ ساتھ باہر سے بھی پڑے گي۔
بہت اعلی
صاف سی بات ہے تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ بھارت ہم سے دوستی کرنے کے ليے کبھی مخلص تھا ہی نہيں۔ اگر ہوتا تو ہمارے درياؤں کا پانی نہ روکتا اور کشمير کے مسئلے پر کھل کہ بات کرتا، چشم پوشی نہ کرتا۔ اگر وہ چاہتا ہے کہ ہم اپنے يہاں انتہا پسند تنظيموں پر پابندی لگائيں تو پہلے اپنے يہاں کی ان انتہا پسند تنظيموں پر پابندی لگائے جنہوں نے وہاں کے مسلمانوں اور عسائيوں کا جينا دوبھر کر رکھا ہے۔ دنيا کچھ لو اور کچھ دو کا نام ہے۔
اس بلاگ کا مرکزی خيال: قلم، تلوار سے بہتر ہے۔
حکومتي اہلکاروں نے ڈائيلاگ بھی تو کيے تھے شدت پسندوں سے۔ کيا نتيجہ نکلا تھا؟ الٹا يہ لوگ سر پر چڑھ جاتے ہيں۔ چار جماعتيں پاس لوگوں سے مذاکرات کرنا وقت ضائع کرنا ہوتا ہے۔ مذاکرات وہيں کامياب ہوتے ہيں جہاں پر بات سننے سمجھنے والے ہوں۔ يہ چار جماعتيں پاس دہشتگرد کيا جانيں سوچنا کيا ہوتا ہے، سمجھنا کيا ہوتا ہے۔يہ اکيسويں صدی ہے کوئی حاتم طائی کا دور نہيں۔
ہندوستان کی انٹيليجنس کا جواب نہيں۔ ابھی ممبئی آپريشن جاری تھا کہ اس حملے کے تانے بانے پاکستان سے جوڑ ديۓ گئے۔
سيد فرحت علی بھائی چھاگئے آپ اب ميں کيا لکھوں؟
تيل کو آگ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آگ لگانے والے بھی جل جائينگے۔
آپ کی خواہش بجا ليکن آنے والے دنوں ميں جوش سے کام لينے کے امکانات زيادہ نظر آتے ہيں۔