| بلاگز | اگلا بلاگ >>

لالی اکھیاں دی۔۔۔

حسن مجتییٰ | 2008-12-10 ،19:00

سنہ سینتالیس کی تقسیم کے بعد جب پہلا پاک بھارت مشاعرہ انڈیا میں ہوا تھا تو پاکستان کے عظیم پنجابی شاعر استاد دامن بھی بھی گئے ہوئے تھے اور اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو اس مشاعرے کی صدارت کر رہے تھے۔
ustab_daman152.jpg

جب استاد دامن نے اپنی یہ مشہور غزل پڑھی تھی:
بھاويں مونہوں نہ کہیے پر وچوں وچي
کھوئے تسی وی او، کھوۓ اسی وی آں
ایہناں آزادیاں ہتھوں برباد ہونا
ہوئے تسی وی او، ہوئے اسی وی آں
کجھ امید اے زندگي مل جا‎ۓ گي
موئے تسی وی او، موئے اسی وی آں
جیوندی جاں ای، موت دے منہ اندر
ڈھوئے تسی وی او، ڈھوئے اسی وی آں
جاگن والیاں رج کے لٹیا اے
سوئے تسی وی اور سوئے اسی وی آں
'لالی اکھیاں دی پئی دسدی اے
روۓ تسی وی او رو‌ۓ اسی وی آں'

استاد دامن نے پاکستان اور بھارت کے سیاستکاروں اور فوجی اسٹبلشمینٹوں کے جنگی جنون پر لکھا تھا
واہگے نال اٹاری دی نہئیں ٹکر
نہ گیتا نال قرآن دی اے
نہئيں کفر اسلام دا کوئی جھگڑا
ساری گل ایہہ نفعے نقصان دی اے

اسی طرح عظیم سندھی شاعر شیخ ایاز نے پاکستان بھارت کشیدگي پر انیس سو پینسٹھ کے دنوں میں اپنی ایک نظم بھارت میں اپنے دوست اور ہمعصرسندھی شاعر نارآئن شیام کے نام کرتے ہوۓ لکھا تھا:
'یہ سنگرام
اور سامنے ہے نارائن شیام
اسکے میرے بول بھی اک سے
ڈھول بھی اک سے
وہ کوتا کا راج گرو
اور میرے رنگ رتول بھی اک سے
اسپر بندوق کیسے اٹھاؤں
اسکو گولی کیسے ماروں'

این جی اوز کے دفاتر کھلنے سے بھی کئی برس قبل پاکستان میں شیخ ایاز، استاد دامن اور حبیب جالب جیسے شاعروں کو بھارت اور پاکستان کے درمیاں محبت کے گیت لکھنے پر صلیبیں اٹھانی پڑ گئي تھیں۔ شیخ ایاز کی مندرجہ بالا نظم لال قلعے پر سبز پرچم لہرانے کی بات کرنے والے جنونیوں نے اردو میں ترجمہ کرواکے اسکے پوسٹر پورے ملک کی دیواروں پر چسپاں کروا دیے تھے۔ سنہ پینسٹھ کی جنگ میں ایاز کو گرفتار کر لیا گيا تھا۔ حبیب جالب کے بیوی بچے جب محلے سے گذرتے تو لوگ کہتے 'او جیہڑا جالب سی نہ غدار سی قید ہو یا چنگا یویا۔' لیکن میرے دیس کے یہ شاعر تو اس فنکار جیسے تھے جس سے پوچھا گیا تھا کہ 'اگر کسی گھر کو آگ لگي ہو اور اس میں ایک بچہ اور فن پارہ موجود ہوں تو تم دونوں ميں سے کس کو نکال کر آؤ گے؟' فنکار نے کہا تھا 'میں آگ کو نکال کر باہر پھینکوں گا۔'

ہندوستانیوں، پاکستانیوں! کیا تم میں ایک بھی ایاز، جالب اور دامن نہیں!

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 20:12 2008-12-10 ,خاور کھوکھر :

    بہت اچھے!!
    میں بھی استاد دامن اور حبیب جالب کو پسند کرتا ہوں
    لیکن ایاز صاحب کو نہیں پڑھا ہے۔ میں استاد دامن کے کلام کو اپنے بلاگ پر بھی لکھتا رہتا ہوں اور میں نے جو شاعری کی سائیٹ بنائی ہے اس میں بھی استاد دامن کے کلام کو مسلسل بڑھا رہا ہوں ـ
    باقی جی تہاڈا لکھن دا سٹائیل مینوں بڑا چنگا لگدا۔۔ جے
    کدی ملن نو دل کردا اے ۔۔۔

  • 2. 20:29 2008-12-10 ,نجيب الرحمان سائکو، لاہور، پاکستان :

    امريکيو، برطانويو، اسرائيليو، افغانيو، طالبانو، 'جہاديو'، 'بارہ مئي' برپا کرنے والو، ہندوستانيوں، پاکستانيوں ! اگر تم ميں ايک بھي اياز، جالب اور دامن نہيں ہے تو يہ ہي ديکھ لو کہ تم ميں شايد ايک ساحر لدھيانوی ہي نکل آۓ- ساحر لدھيانوي، ہندوستان اور پاکستان کی جنگ کے پس منظر ميں لکھتے ہيں:

    ’خون اپنا ہو يا پرايا ہو
    نسلِ آدم کا خون ہے آخر
    جنگ مشرق ميں ہو کہ مغرب ميں
    امنِ عالم کا خون ہے آخر

    بم گھروں پر گريں کہ سرحد پر
    روح تعمير زخم کھاتی ہے
    کھيت اپنے جليں کہ اوروں کے
    زيست فاقوں سے تلملاتی ہے

    ٹينک آگے بڑھيں، کہ پيچھے ہٹيں
    کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
    فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
    زندگی ميتوں پر روتی ہے

    جنگ تو خود ہی ايک مسئلہ ہے
    جنگ کيا مسئلوں کا حل دے گی
    آگ اور خون آج بخشے گی
    بھوک اور احتياج کل دے گی

    اس ليے اے شريف انسانو !
    جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
    آپ اور ہم سبھی کے آنگن ميں
    شمع جلتی رہے تو بہتر ہے

    برتری کے ثبوت کی خاطر
    خوں بہانا ہی کيا ضروری ہے
    گھر کی تاريکياں مٹانے کو
    گھر جلانا ہی کيا ضروری ہے

    جنگ کے اور بھی تو ميدان ہيں
    صرف ميدانِ کشت و خوں ہی نہيں
    حاصلِ زندگی خِرد بھی ہے
    حاصلِ زندگی جنوں ہی نہيں

    آؤ اس تيرہ بخت دنيا ميں
    فکر کی روشنی کو عام کريں
    امن کو جن سے تقويت پہنچے
    ايسی جنگوں کا اہتمام کريں

    جنگ، وحشت سے، بربريت سے
    امن، تہذيب و ارتقاء کے ليے
    جنگ، مرگ آفريں سياست سے
    امن، انسان کی بقاء کے لیے

    جنگ، افلاس اور غلامی سے
    امن، بہتر نظام کي خاطر
    جنگ بھٹکي ہوئي قيادت سے
    امن، بےبس عوام کي خاطر

    جنگ، سرمائے کے تسلط سے
    امن، جمہور کي خوشي کے ليے
    جنگ، جنگوں کے فلسفے کے خلاف
    امن، پُرامن زندگي کے ليے‘

  • 3. 22:43 2008-12-10 ,Zaheer Chughtai :

    پاکستان کے پاس تو آپ ہيں۔ بی بی سی ہندی پر بھی کوئی آپ جيسا کلاکار موجود ہو گا جو بھارتيوں کو يہی سبق پڑھانے کی کوشش کر رہا ہو گا۔ بی بی سی کے باہر تو مجھے دونوں ملکوں ميں کوئی نظر نہيں آتا۔

  • 4. 23:06 2008-12-10 ,Dawood Ismail :

    جناب آپ نے اپنے بلاگ میں ہی اس کا جواب دے دیا ہے۔۔۔ ایسے شاعروں کو ’غدار‘ قرار دے کر زنداں کی نظر۔۔۔ اب آپ بتائیں لوگ شاعری کریں یا زنداں میں رہیں

  • 5. 23:42 2008-12-10 ,fida fida :

    وہ تو تھے سبھی دانشور، جب ديکھتے ابراہيم بےدھڑک آتش نمرود ميں کودنے کو ہے تو رام رام کيے توجہ دلاؤ کرتے تھے۔۔۔ آج دانشوروں کا قحط لگا ہے۔ بےدھڑک بچے تک خود کش جيکٹ پہنے اچھلتے ہیں، ارد گرد لوگوں کو مار ان کے اوپر دھڑام سے ڈھير ہو جاتے ہيں۔۔۔ لگتا ہے قوم چل گئی ہے۔ ايسے ميں جالب شيخ اياز اور استاد دامن کہاں سامنے آئیں گے؟

  • 6. 1:55 2008-12-11 ,Rafi :

    حسن،
    بہت خوب صورت۔ جیتے رہو۔

  • 7. 2:41 2008-12-11 ,اے رضا :

    حسن مجتبٰی صاحب، اقدار بدل چکيں۔ اب ايسا کوئي نہيں آئے گا۔ اياز، جالب اور دامن بن گئے تو غاصبوں کي صفائياں پيش کر کر انعام و اکرام کون پائے گا؟ پلاٹ اور بنگلے کس طرح بنيں گے؟ سرکاري خرچ پر بيرون ملک دورے کيونکر ہوں گے اور اولادوں کا مستقبل کون سنوارے گا؟ قوم کی قسمت ميں تو ٹھوکريں ہی لکھي ہيں۔ ڈوبتوں کے ساتھ ڈوب مرنے کی بجائے ’موجاں‘ کيوں نہ اڑائے گا۔۔۔

  • 8. 5:49 2008-12-11 ,خرم۔ لاہور :

    جناب!
    بھولے بادشاہو تسی کس دنیا اچ رہندے او! حبیب جالب اور دامن کا دور گزر گیا، وہ دور اب قصۂ پارینہ بن چکا ہے۔ اب زمانہ ہے مفادات کا، دباؤ کا، جس کا جہاں زور چلتا ہے ایک دوسرے کو نیچا دکھا رہے ہیں، جنونیوں نے تو اپنی فضائیہ بھی الرٹ کر دی ہے، اور آپ وہاں چلے ہو حبیب جالب اور استاد دامن کے سپوت ڈھونڈنے!

    وہ یاروں کی محفلیں ہوتی تھیں، اب وہ بات نہیں، اور خدارا اگر آپ بوڑھے ہو چکے ہو، لڑائی اور جنگ کا نام سن کر کانپنے لگتے ہو تو۔۔ خاطر جمع رکھو، ابھی ایسی مائیں ہیں جو ایسے بیٹے جننتی ہیں جو ملک و قوم کی خاطر پاکستان تو کیا ہندوستان میں واقعی میں گھس کر حملہ کر سکتے ہیں، مگر فی الحال تو انکی طرف سے یہ ایک پروپیگنڈا ہو رہا ہے۔

    خرم۔ لاہور
    پاکستان

  • 9. 6:35 2008-12-11 ,حسن عسکری اسلام آباد :

    جناب حسن مجتبی صاحب، جن کو انسانی خون پينے کی عادت پڑ چکی ہو ان پر شعرا کا نرم و نازک کلام کيسے اثر کريگا؟ جنہوں نےخوف و ہراس اور دہشت کے سب ہتھکنڈے نہتے بےگناہ لوگوں پر مسجدوں، امام بارگاہوں، مزاروں، جنازوں، مندروں، گرجا گھروں، سفارت خانوں، تھانوں، بازاروں، سکولوں، ہوٹلوں، بسوں، ٹرينوں ميں آزمائے۔۔۔ ہزاروں گھر اجاڑ کر بچوں کو يتيم، عورتوں کو بيوہ کر کے پوری سوسائٹی کو ٹروماٹائز کرنے کے بعد ملکوں کو آپس ميں لڑانے پر تل گئے ہيں۔۔۔ اس کيفيت ميں حکومت کی بيان بازی بھی ديکھيں، ’عوام کے جان و مال کی حفاظت ہر صورت کريں گے۔۔۔‘ قاضی حسين احمد، مولانا فضل الرحمان اور ان کے کنبےکی خرامہ مستياں ديکھیے۔۔۔ حدود آرڈيننس ہو يا طلاق کے مسائل يا فاٹا ميں حکومت کا کمزور ايکشن يہ آنکھيں پھاڑ پھاڑ کر تقريروں سے آسمان سر پر اٹھا ليں گے مگر لوگوں کے سر عام گلے کٹيں، اغوا کر کے لاشيں واپس پھينکی جائيں تو مجال ہے جو طالبانوں کے خلاف ذرہ سا بيان بھی ديں ۔۔۔ کوئی مظاہرہ، پوسٹر، بينر، تقرير يا احتجاج کريں۔۔۔ اب پريس کو ديکھيں کتنے دن سے کالم نگار اخباريں سياہ کر رہے ہيں کہ بمبئی واقعہ بھارت کا اپنا ڈرامہ ہے۔ جيسے انکی فوج اور پوليس کا کوئی کبڈی ميچ تھا۔۔۔ کوئی ہندو انتہا پسندوں کے سر تھونپ رہا ہے تو کوئی اور دور کی کوڑی لاتا ہے۔۔۔ ہر طرف کنفيوژن اور جھوٹ سے اپنے عوام کو گمراہ کيا جا رہا ہے، حالانکہ سيدھی بات يہ ہےجو لوگ پاکستانی مسلمانوں کو نہيں بخش رہے وہ انڈيا کو کيا بخشيں گے۔۔۔ مجھے تو ڈر ہے اب يہ لوگ چين کے اندر جا کر کہيں ايسي کوئي حرکت نہ کر بيٹھيں۔۔۔ تو جناب اب ڈنگ ٹپاؤ اور بے دلي کي پاليسي چھوڑ کر پوری قوم کو نہايت تيزی اور يکسوئی کے ساتھ اٹھنا ہوگا۔ فوج، پوليس، عوام، علماء، ميڈيا سب دہشت گردووں کے خلاف اٹھيں تو يہ جن قابو آئے گا ورنہ يہ لوگ حقيقتاً ہميں پتھر کے زمانے ميں پہنچا سکتے ہيں۔۔۔

  • 10. 6:45 2008-12-11 ,سمیع اللہ خان :

    ہم میں تو پھر جالب، دامن اور ایاز جیسے گزرے ہیں دوسری جانب کیا ہے؟ صرف نفرت۔۔۔۔۔۔!

  • 11. 10:57 2008-12-11 ,fawadrj :

    يہ سبھی ممکن ہے مگر ميں 1947 کے بٹوارے سے آج تک کی محرومياں مثلاً 47 ميں ميرے ملک کے خزانھ کے حصے سے لے کر آج کی پانی چوری کو کیسے بھلاؤں۔۔۔

  • 12. 11:21 2008-12-11 ,sana :

    ترجمہ کر ديتے تو اچھا ہوتا۔ اسی تسی کے علاوہ کچھ سمجھ نہيں آيا، پھر بھی اثر ہوا اس دلِ زخمی پر کچھ کچھ۔۔۔

  • 13. 6:43 2008-12-17 ,اعجاز اعوان :

    بے شک منہ سے نہ کہو پر اندر سے
    کھوئے تم بھی ہو، کھوئے ہم بھی ہيں

    ان آزاديوں کے ہاتھوں برباد ہونا
    ھوئے تم بھی ہو، ھوئے ہم بھی ہيں

    کچھ اميد ہے زندگی مل جائے گی
    مرے تم بھی ہو ، مرے ہم بھی ہيں

    جيتے جی ھی ، موت کے منہ ميں
    گرے تم بھی ہو، گرے ہم بھی ہيں

    جاگنے والوں نے خوب لوٹا ہے
    سوئے تم بھی ہو، سوئے ہم بھی ہيں

    لالی آنکھوں کی بتا رہی ہے
    روئے تم بھی ہو ، روئے ہم بھی ہيں
    استاد دامن

91ȱ iD

91ȱ navigation

91ȱ © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔