پر ایسا کیسے نہ ہو؟
مانچسٹر میں چند روز قبل ایک دعوت کے دوران میرے ایک عزیز نے ٹی وی پر مباحثے میں شریک اپنے علاقے کے ایک سیاستدان کی کافی تعریف کی۔ اس سیاستدان کو عزت دار اور خاندانی قرار دیا گیا اور اس دلیل پر سب سے زیادہ زور دیا گیا کہ 'وہ دشمنیوں والے بندے اور ان کی اکثر لڑائیاں رہتی ہے'۔
ایسے لوگوں کے لیے عام طور پر 'ڈنڈے سوٹے والے لوگوں' کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔
اپنےعزیز کی اس بات سے مجھے تقریباً بِیس برس پہلے کوہاٹ کے آئی ایس ایس بی سنٹر(فوج میں افسر بھرتی ہونے کا مرکز) میں لاہور کے ایک صاحب سے ملاقات یاد آ گئی۔ ان صاحب کا طرہ امتیاز بھی لڑائی کا شوق تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ان دنوں لاہور میں سنگھ پورے کے علاقے میں ہونے والی ایک مشہور لڑائی میں وہ بھی شامل تھے، اور ان کے خیال میں یہ کوئی بہت بڑا کارنامہ تھا۔ اس لڑائی میں کسی ایم پی اے کے بیٹے کو بھی مار پڑی تھی۔ آئی ایس ایس بی سنٹر میں چار روز تک کئی لوگوں نے بار بار سنا کہ 'آپ نے اس لڑائی کی خبر پڑھی، اس میں ہم بھی تھے نا، وہ ہماری لڑائی تھی'۔
سنگھ پورہ کے قریب ہی ہے۔ سالوں پہلے وہاں سنا ہوا ایک جملہ بھی اکثر سر ابھارتا ہے۔ کینٹین میں ایک لڑکا دوسرے کو کہہ رہا تھا کہ اس کی ایک 'زبردست بندے سے ملاقات ہوئی ہے، اس نے قتل بھی کیا ہوا ہے'۔ اُس نام نہاد 'زبردست بندے اور قاتل' کے لیے 'صحیح مرد آدمی' کے الفاظ استعمال کیے گئے۔
یہ بات لکھتے ہوئے مجھے حافظ آباد کے ایک شخص کی بات یاد آ رہی ہے کہ ان کے علاقے میں کسی 'مسکین اور شریف' آدمی نے چھوٹی سی بات پر قتل کر دیا۔ اِس قاتل نے اپنی حرکت کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ چاہتا تھا کہ علاقے میں اس کا بھی کوئی 'نام، شام ہو، چرچا ہو'۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ اس شخص نے شہرت کے لیے پڑھائی لکھائی، سیر و سیاحت، فلاحی کام یا تخلیق کے راستے کی بجائے کسی کی جان لینا کیوں ضروری سمجھا۔ ایسا نہیں کہ اس علاقے میں لوگوں نے مثبت کام نہیں کیے ہوں گے، لیکن شاید چرچا قاتلوں کا زیادہ ہوتا ہوگا۔
آخری بار یورپ جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں بھی ایک ایسی ہی بات سنی۔ قصہ کچھ یوں تھا کہ کئی خونی لڑائیوں اور خاندانی جھگڑوں میں شامل ایک نوجوان کو جان کے خطرے کے پیش نظر یورپ بھیج دیا گیا تھا۔ یہاں آ کر وہ پہلی بار بغیر سکیورٹی گارڈوں کے گھوما پھرا اور اسے آزادی کا احساس ہوا۔ کچھ عرصے بعد اس نے سوچا کہ پاکستان میں وہ کس طرح کی زندگی گزار رہا تھا اور لڑائی جھگڑوں اور مقدمات کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ پاکستان واپس جا کر اس نے اس کا پرچار کیا ہوگا جو بات وہاں لوگوں کو پسند نہیں آئی۔ انہوں نے یورپ میں فون پر اپنے بھائی کے میزبانوں کو طعنے دیے کہ انہوں نے اسے خراب کر دیا ہے اور بزدل بنا دیا ہے۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ ان کے علاقے میں جنازوں کی بھی وڈیو بنتی ہے جس میں یقین دہانی کی جاتی ہے کہ اس میں زیادہ سے زیادہ بندوقوں والے لوگ دکھائی دیں تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ ان کا شمار بھی اس اہم طبقے میں ہوتا ہے جن کی دشمنیاں ہیں اور جو لڑائی پسند کرتے ہیں۔
پر ایسا کیوں نہ ہو؟ جب ملکی قیادت بھی ایسی زبان استعمال کرتی ہو جس میں مار دھاڑ کو رومانویت بخشی جائے۔ کم سے کم مجھے تو ایسا ہی لگتا ہے۔ اس کی ایک مثال کے شریک سربراہ کا وہ بیان ہے جو میں ایک سے زیادہ بار ٹی وی پر سن چکا ہوں، جس میں وہ کہتے ہیں کہ 'ہم جان دینا بھی جانتے ہیں اور جان لینا بھی'۔
اس کے علاوہ تقریباً ہر گھر میں اس بچے کی شخصیت پر اطمینان کا اظہار کیا جاتا ہے جو لڑتا ہے، دوسرے بچوں کو مارتا ہے اور ضِد کرتا ہے۔ ایسے بچوں میں مضبوط انسان کی جھلک دیکھی جاتی ہے اور ان کی حرکتوں کا ذِکر فخر سے کیا جاتا ہے۔ صلح کرنے والے، لڑائی سے بھاگنے والے بچوں کے بارے میں اکثر تشویش ظاہر کی جاتی ہے۔
اگر میں لکھتا جاؤں تو اس طرح کے کئی واقعات نکلتے چلے آئیں گے اور شاید عام حالات میں ان کی زیادہ اہمیت نہ ہو۔ لیکن پاکستان میں آجکل کے حالات میں یہ تسلسل سے ذہن میں آتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جو فصل ہم کاٹ رہے ہیں اس کے ہم سب ذمہ دار ہیں اور حالات میں بہتری کے لیے ایک فکری انقلاب کی ضرورت ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
تو نے میرے دل کی بات کر دی
اسد بھائي!بات ہمارے مجموعی رويوں کی ہے۔اگر ہم گنڈاسا وکلاشنکوف کلچر اپنائيں اور معاشرے ميں ٹہور اور دھاک بھی بٹھائيں تو عش عش واہ واہ بھی ملتی ہے۔لوگ باگ رشک کرتے ہوئے تلقيد کرنا پسند کرتے ہيں۔جہاں فخريہ کہا جائے کہ ”اسی بڑے لڑيا” يعنی ہم مہا لڑنے والے تو ايسا معاشرہ ہی تشکيل پائے گا نا!ايک اور فخريہ پيشکش تو ہمارے”غازی و پراسرار” بندوں کی ہے جس کی بنا پر بندوق برادران ہميں يرغمال بنانے پر تلے ہوئے ہيں۔کچھ قصور ہمارے سياسی رہ نماؤں کا بھی ہے جو ناصرف اسلحہ سے ليس محافظوں کے جلو ميں برآمد ہوتے ہيں بلکہ اسلحہ کلچر کو فروغ ديتے ہوئے بزور طاقت اسلحہ اورلائسنس کی بندر بانٹ ميں سرگرمی سے حصہ ليتے ہيں۔تبديلی اسی وقت ممکن ہوگی جب ہم تعليم عام کريں گے جس کے نتيجہ ميں يہ حقيقت سب پر واضح ہوگی کہ بزور اسلحہ اپنی بات منوانے کے بجائے گفت و شنيد اور دلائل کا سہارا ليا جائے نيز اسے کمزور و بزدلی تصور نہ کيا جائے
زبردست اور فکرانگیز
برادرم اسد علی چودھری صاحب
کاش آپ کا بلاگ اکابرين ملت پڑھيں اور قوم کو صراط مستقيم پر لائيں يا کم ازکم لانے کی جہد کريں- يہاں تو ہمسايہ کے سرخ گال ديکھ کر اپنے منہ پر چانٹے مارنے والے مجنوں ہی ہيں، اور نہ جانے ہر شخص قيامت سے پہلے جہنم جانے کی جلدی ميں کيوں ہے-
آپکا مخلص و دعا گو
مياں آصف محمود
'جہل خِرد نے دن يہ دکھاۓ
گھٹ گۓ انسان بڑھ گۓ ساۓ'
(اسد صاحب 'آپ کي آواز' دے موڈريٹر نوں کہہ ديو کہ اوتھے ميرے لگ بھگ ست تبصرے شائع کرے کيوں جے فورم دے باقی سجن مينوں اوتھے ياد کر رہے نيں- ايہہ ويکھو ايس ثبوت ايس گل دا:
'سائکو صاحب اور بھانا صاحب کا بيان ابھی تک نہيں آيا کيونکہ اس فورم ميں ملائيت اور جرنيلي نظام کے مخالف بيان کہاں سيے لائيں اور عبدالوحيد صاحب کو حقيقت پسندانہ سوچ پر خراج تحسين۔فيصل بلوچ، بدين' )
موضوع چاہے کچھ بھی ھو؛ زرداری کے عيب ضرور نکالنے ھيں جيسے سب اسی کا کيا دھرا ھو- 40 پھچلے 20 سالوں سے کون حکمران رہے ھيں-
بات تو سچ ھے مگر بات ھے رسوائی کی
جس معاشرے ميں مذہب کی بنياد ہی سلامتي کے بجائے تشدد پر رکھ دی جائےوہاں اس بات پرتعجب کیسا؟ یہ کام پاکستان بننے کے بعد ہی شروع ہو گیا تھا، سیاستدانوں اور فوج نے اسکی خوب اچھی طرح دیکھ بھال اور پرورش کی۔ اب یہ عفریت بھرپورجوان ہے اور سروں کی فصل تیار۔
یھ سب باتین ٹھیک ھیں لیکن ان سب چیزوں کا تحلق ھمارے میڈیا اور لٹریچر سے ھے۔ ٓاپ اپنی فلموں، ادب، داستانوں اور شاعری میں بھی ھیرو ھمیشہ لڑاکا جنگجو اور خونی دیکھایا جاتا ھے۔ سلطان راھی، تیس مار خان ھمارے ھیرو ھیں۔ تیمور، چنگیز، نادر شاھ، صدام کے نام اپنے بچوں کیلے چنتے ھیں۔
مجموعی طور پر ھمارا معاشرہ وحشی اور نيم قبائلی معاشرے ميں تقسيم ھے اور اس کی گرمی ھر سمت محسوس کی جا سکتی ھے
مان لو! جان لو! عاصم نيو یارک
مجموعي طور پر پاکستانی معاشرہ ايک نيم قباۂلی اور وحشی معاشرہ ہے جہاں قباۂلی لڑاۂياں کئی نسلوں تک جاری رہتی ہيں- قتل اور دشمنوں کی بھينس اور لڑکياں اٹھا لينا باعث فخر سمجھا جاتا ہے- تعليم اور تعميری کاموں کے بجائے پيسہ بنانا عزٌت اور شرافت کا پيمانہ ہے- افسوس تو اس بات کا ہے کہ نئی نسل کی سوچ يورپ اور امريکہ سے تعليم حاصل کرنے کے بعد بھی نہيں بدلتي-
چوہدری صاحب، آداب! بات يہ ہے کہ سب سے پہلے تو ہميں يہ باور رکھنا ہوگا کہ کسی بھی واقعہ، بيماري، مسئلہ، جھگڑا، خودکش حملہ، يا گُھنجل کی صرف ايک ہي وجہ نہيں ہوتي بلکہ ايک سے زيادہ وجوہات بھی ہوسکتی ہيں- گھروں، گلي محلوں، چوراہوں، بازاروں، بسوں، ويگنوں، سڑکوں، سکولوں، کالجوں، يونيورسٹيوں، دفتروں ميں ملک کی پود کی باتوں، الفاظوں، سوچنے کے اندازوں، اور انتخابوں ميں جو 'تشدد' نظر آتا ہے اسکی کوئی ايک نہيں بلکہ کئی ايک وجوہات ہيں- ايسے 'متشدد اذہان' تيار کرنے کے ذمہ داروں ميں ميڈيا، اندھی تقليد، غربت، حسد، مادہ پرستي، اندھا دھند اصول پرستي، 'حب الوطني' جراثيم اور سب سے بڑھ کر ناقص ترين نظام تعليم اور امتحانی نظام ہے کہ جس ميں تاريخ مضمون کو محض مار دھاڑ، قتل وغارت اور فتوحات سمجھا جاتا ہے، اپنی تاريخ کو 'حق پر' (چاہے ہو يا نہ ہو) جبکہ دوسری قوموں کی تاريخ کو 'باطل پر' (چاہے نہ بھي ہو) دکھا، پڑھا اور ٹھونس کر 'خود پرست' بنا ديا جاتا ہے- کسی بات پر کسي شخصيت يا مذہب کا حوالہ دے کر طلباء کے ذہن اور سوچوں پر 'پہرہ' بٹھا ديا جاتا ہے کہ اگر نہں مانتے تو ٹھرے 'غدار' اور يا پھر مرتکب ہوۓ 'کُفر' کے!- اس وقت بچوں کو سکولوں ميں بلاواسطہ اور بلواسطہ جو سب سے زيادہ مضمون پڑھايا جا رہا ہے وہ ہے اسلاميات- غور کرنے کی بات ہے کہ جو مخصوص ابواب اسلاميات کے پڑھاۓ جا رہے ہيں کيا ان ميں انسان دوستی کی تعليمات زيادہ ہيں يا 'جہاد' کرنے کي؟ 'تعقل پسندي' کي يا 'خرد دشمني' کي؟ اس سوال کو مدِ نظر رکھتے ہوۓ خاکسار پاکستان پيپلز پارٹی حکومت سے پرارتھنا کرتا ہے کہ وہ نظام تعليم ميں وسيع پيمانے پر تبديلياں کريں اور تشدد پسندی ابھارنے والے ابواب کی بجاۓ اسلام کے روشن، انسان دوستي، نيکي، ہمدردی اور بھائی چارہ پروان چڑھانے والے ابواب شامل کيۓ جائيں- رويوں ميں تشدد پسندی آسانی سے ختم نہيں کی جاسکتی بلکہ اسکے ليۓ باقاعدہ ايک لانگ ٹرم پاليسي، تحريک اور جہاد کرنا ہوگا---
خاصہ فکر انگیز مضمون لکھا ہے۔ میری نظر میں نہ صرف بڑے بلکہ عوامی نماءندے بھی ان حالات کے برابر میں ذمہ دار ہیں۔ تعلیم سے یہ جہالت ختم ہو گی لیکن بچوں کو تعلیم کس نے دلوانی ہے؟ آخر بڑوں نے ہی یہ فیصلہ کرنا ہے۔