کیا آپ کی عید ہے؟
آج عید ہے لیکن میرے برابر میں بیٹھنے والی میری ساتھی کی عید نہیں ہے۔
کچھ سال پہلے ہماری ایک ساتھی عید الفطر کے موقع پر گھر سے سویاں لے کر آیی تھیں، لیکن ہماری ایک اور ساتھی کی عید نہیں تھی لہذا انہوں نے اس بات کا کافی برا مانا۔ ان کا روزہ تھا لہذا ہمیں عید کی سویاں چُھپ چھپ کر کھانی پڑیں۔
جن کی عید نہیں تھی انہوں نے ہمیں طعنہ دے کر کہا 'تم لوگ سعودیوں کے ساتھ عید منا رہے ہو'۔ اب مجھے سعودیوں سے کوئی خاص محبت نہیں ہے کیونکہ ان کے بارے میں اکثر لوگوں کا تاثر ہےکہ وہ کافی مغرور اور بدتمیز لوگ معلوم ہوتے ہیں لیکن نماز تو ہم کعبے کی طرف منہ کر کے پڑھتے ہیں اور حج اور عمرہ بھی ہم وہیں جا کر کرتے ہیں تو وہ ایک طرح کا مرکز تو ہے اسلام کا۔ تو یہ کیا برا ہو کہ دنیا کے تمام مسلمان ایک ہی روز عید منا لیں؟ اور اگر وہ تاریخ مکہ میں عید کے مطابق ہو تو اس میں کیا برائی ہے؟
ایل او سی نے کئی لوگوں کو تقسیم کر دیا، تقسیم ہند نے کئی اور کو، اور عید نے بھی کئی خاندانوں کو تقسیم کر دیا ہے۔ کوئی کسی دن مناتا ہے، تو کوئی اور کسی اور دن۔
ہم مسلم امہ کا بڑا ذکر کرتے ہیں لیکن یہ کیسی امہ ہے جو اس خوشی کے موقع کی تاریخ پر اتفاق نہیں کر سکتی؟
سائنس نے بڑی ترقی کر لی ہے، یہ ساری تاریخیں ہم سائنس کے ذریعے مقرر کر سکتے ہیں۔ لوگوں کا بھی بھلا ہو جائے گا اگر ان کو تاریح پہلے سے پتہ ہو (میری مثال لے لیں، کل جب تک گھر واپس پہنچی تو ہمارے علاقے میں مٹھائی کی دونوں دکانیں بند ہو چکی تھیں)۔
ترکی میں عید پر ایک ہفتے کی چھٹی ہوتی ہے۔ یہ بھی اچھا ہے، اس موقع پر خاندان اکھٹے ہوتے ہیں، تین دن سے بہتر کم از کم پانچ روز کی چھٹی ہو۔
ہر سال میں اس قسم کا کالم یا بلاگ لکھتی ہوں کہ ہم مسلمان ایک ہی روز کیوں نہیں عید منا سکتے، لیکن ہر سال مجھے اس احمقانہ صورتحال پر بہت افسوس ہوتا ہے۔ مایوس ہو کر میں پھر یہ سوال اٹھاتی ہوں۔ بار بار، ہر سال۔
کیا ہمیں عید کی ایک تاریخ مقرر کر لینی چاہیے؟ کیا سعودی عرب کے مطابق عید منانا مناسب نہیں؟
تبصرےتبصرہ کریں
عيد ايک خوشی کا موقع ہے اور عيد کی خوشياں دو تين دن منا لينے سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہيے۔
’مبارک ہو اہل وطن تمہیں عيد کی خوشياں
بوئے چمن میں مہکی ہوئی عيد کی خوشياں
ميرا تو چين چھن جاتا ہے جس دم ياد آتی ہيں
وہ اپنے وطن ميں گزری ہوئی عيد کی خوشياں!‘
محترمہ عنبر بہن، آپ کی خواہش زبردست ہے مگر جن نے امہ کو 72 فرقوں ميں تقسيم کر رکھا ہے وہ تو ايک ملک ميں ايک دن عيد نہيں ہونے ديتے۔ بہرحال بحث شروع کرانے پر شکريہ۔
آپ کو عيديں مبارک! ہمارے ہاں تو مردم کشی ہو رہی، ديکھیں کس کی باری کب آ جائے۔۔۔
دعا گو
مياں آصف محمود
دراصل بدقسمتی یہ ہے کہ ہم مسلمانوں میں اتفاق نہیں ہے۔ اسی وجہ سے دنیا بھر میں ہماری یہ حالت ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ سو سال بعد بھی ہم ایک دن عید نہیں منا پائیں گے۔
بمطابق خاکسار، عنبر جي، جذباتی ليول پر دنيا ميں عيد ايک دن منانے کا فيصلہ درست ہے جبکہ نفسياتی وحقيقی ليول پر ايسا سوچنا احساس کمتری کی نشاندہی کرتا ہے۔ اگر مسلم دنيا ميں روزے ہی تيس کر دیے جائیں تو عيد ايک دن منانا ’قانوني‘ طور پر درست نظر آئے گا۔ ديکھا جائے تو ايک دن عيد منانے کي سوچ اس رد عمل ميں اٹھتی ہے جب ہم مسلمان چاند ديکھنے ميں دوسرے مسلمانوں سے کبھی پہل اور کبھی دير کر ديتے ہيں جس سے دنيا ہم پر ہنستی ہے کہ يہ تو عيد کا چاند بروقت اور ايک ساتھ نہيں ديکھ سکتے، چاند پر کيسے پہنچيں گے! دنيا کی ہنسی کی پرواہ کی بجائے ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان علم، شمسی علم اور ٹيکنالوجی سے استفادہ کرنے کی جانب مائل وقائل ہوں اور ملائيت کے لیے حقيقت پسندي، بردباري، قرباني، صبروتحمل اور برداشت کی دعا کی جائے۔ اگر آپ بھي خاکسار کي طرح فطرتاً حساس واقع ہوئي ہيں اور مغربی ممالک کی ہنسی برداشت نہيں ہو پاتی تو ايسے موقعہ پر يہ ضرور ياد کريں کہ:
’گرتے ہیں شہسوار ہي ميدانِ جنگ میں‘
یہ بےحد افسوس کی بات ہے کہ جو تہوار ہمیں یکجہ کرنے کا باعث بننا چاہیے وہ ہم میں تفریق پیدا کرتا ہے۔ میں پچھلے چودہ برس سے امریکہ میں یہی دیکھ رہا ہوں، کہ آج عربوں کی عید، یا آج پاکستانیوں کی عید۔۔۔ ابھی تک مسلمانوں کی عید ہونا باقی ہے۔۔۔
السلام عليکم، پوری دنيا کا چاند بھی ايک ہے اور سورج بھی تو عيد کا دن ايک کيوں نہیں؟ پشاور اور افغانستان اور امرتسر ميں تو چاند نظر آجاتا ہے پر پنجاب ميں نظر نہیں آتا۔ دراصل يہ چکر پاکستان ميں ساٹھ سال سے شروع ہوا ہے جو کہ انگريز کی سازش تھی۔ اس سے پہلے برصغير کا ايک ہی چاند تھا۔ اللہ ان مولويوں کو ہدايت نصيب کرے جن کو پاکستان ميں چاند نظر نہیں آتا۔
بی بی یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ ہمیں صاف طور پر ہدایت دی گئی ہے کہ جب اور جہاں چاند دیکھا جائے اسی حساب سے عید منائی جانی چاہیے۔ اب تو جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے یہ اور بھی آسان ہے۔ تو کنفیوژن کیا ہے؟ میری سمجھ سے باہر ہے۔۔۔ ہمیں بس حضرت محمد کے دکھائے راستے پر چلنا ہے۔۔۔
اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے لیکن آج کل کے لوگوں نے اس کو ایک مذہب کی بجائے ایک دفتر شکایات بنا لیا ہے۔ جس کو دیکھو اسلام کا ٹھیکہ دار بنا بیٹھا ہے۔ بی بی اسلام میں عید ایک ہی دن نہیں ہو سکتی کیوں کہ ہر جگہ کا وقت اور دن الگ ہے۔ آپ کس طرح امریکہ اور یورپ کا وقت ایک جیسا کر سکتی ہیں، نہیں نہ! اس لیے عید بھی ایک دن نہیں ہو سکتی۔ عید چاند دیکھ کر ہی ہوتی ہے اور چاند نظر آنے یا نہ نظر آنے کا اطلاق وہاں کے وقت کے حساب سے ہو سکتا ہے۔
ہر بات میں لوگوں کو مولويوں کا قصور نظر آتا ہے، جو درست نہیں ہے۔
سلام، اس سال بھی لگتا ہے کہ پاکستان میں دو عیدیں منانے کی تیاری چل رہی ہے۔ ایک طرف صوبہ پحتونخواہ میں عید کا اعلان کر دیا گیا ہے اور دوسری طرف رویت ہلال کمیٹی بند کمرے میں اجلاس کر رہی ہے۔ یہ کیا مذاق ہے بھئی کسی بات پر تو متفق اور متحد ہو جائیے!
آپ نے سعودي عرب کو مرکز مان کر دنيا بھر ميں ايک ہي دن عيد منانے کي رائے دي ہے۔ اس ميں ايک چيز کي وضاحت فرمائیے گا، سعودي عرب ميں امسال 29 روزوں کي عيد تھي۔ امريکہ اور کينيڈا جو نصف دن پيچھے ہیں کيا انہیں اٹھائيس روزوں کی عيد کروائیے گا؟ انتيس رمضان کو مقامی افق پر نيا چاند نظر آ گيا تو عيد ہے ورنہ ايک روزہ اور رکھ ليجيے۔ سيدھي سي بات ہے، جسے ہم نے ايک مسئلہ بنا رکھا ہے۔۔۔
جناب ايک بات بتائیے نماز کے ليے سورج برطانيہ کا اور عيد کا چاند عرب کا۔۔۔؟ يہ کہان کي مطلق ہے؟ اگر عيد سعودی عرب کے ساتھ کرنی ہے تو نماز بھی سعودی وقت پر ادا کریں۔۔
محترمہ، جيسا کہ اے رضا صاحب نے فرمايا ہے امسال سعوديوں کے ساتھ عيد منانے سے بہت سے امريکہ و کينڈا والوں کو واقعي اٹھائيس روزوں کے ساتھ عيد منانا پڑتی اور يوں ان چاند ڈھونڈتے ملاؤں کو فتوے کا ايک اور بہانہ مل جاتا۔ علم و دانش کو چونکہ مسلمان کی گمشدہ ميراث کہا گيا ہے اس لیے اگر مسلمان امريکہ و يورپ کی ٹيکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے اپنے علاقے ميں رمضان و عيد منائیں تو نہ صرف ملاؤں سے جان چھوٹے گی بلکہ مسلمان ترقی کی راہ پر بھی گامزن ہو سکیں گے۔
ميری ناقص عقل کے حساب سے ہر ملک کے مسلمانوں کو اپنے مقامی چاند کے حساب سے عيد کرنی چاہيے، کوئی متفق ہے مجھ سے؟
دوستو کوئی تو بتائے تين عيدوں ميں سے کون سی عيد شرعی ہے، وجودی، شہودی يا سعودی۔۔۔؟!
فضول ترين بحث ہے۔۔۔ کيا عيد ايک دن منانے سے مسلمانوں ميں جہالت، غربت، بيماري، نسلي تعصب ختم ہو جائے گا؟ عيد ہميشہ سے اسی طرح مختلف دنوں میں منائی جاتی رہی ہے، البتہ جديد ذرائع ابلاغ کی بدولت اب اختلاف نظر آجاتا ہے۔ اس طرح کے مسائل جديد دور کی بدولت پيدا ہوئے ہيں۔ جب سے پل پل کی خبروں کا علم ہونا شروع ہوا ہے۔ ورنہ سنا ہے کہ صليبيوں کے ہاتھوں بيت المقدس کی فتح کی خبر بغداد ميں کئی ماہ بعد پہنچی تھي۔ جس دن مسلمان جديد علوم کو اپنا ليں گے، ايسے مسائل خودبخود ختم ہو جائیں گے۔ ورنہ قيامت تک بحث کرتے رہيے۔۔۔
آخری بات سب سے بہتر ہے۔۔۔
السلامُ عليکُم۔ عنبر جی عيد کی بہت بہت مُبارک ہو گو ايک سے زيادہ ہی کيُوں نہ ہوں، ليکن ہر سال ہی آپ اور ہم اس موضُوع پر لکھ کر اور کہہ کر بس دل خُوش کر ليتے ہيں۔ يا نہ شايد خُوش، حالانکہ ہر دفعہ ہونے والی بات پر کيا کُڑھنا۔۔۔ اب عادت ہو جانی چاہيے اور اب اس دفعہ کا تماشہ تو ايسا طُرفہ ہُوا ہے کہ
محوِ حيرت ہُوں کہ اس چاند کا کيا ہو جائے گا۔۔۔
اور رہی بات عيد کی سعُودی عرب کے ساتھ تو ايسا مُمکن تو نہيں ہے کہ کينيڈا، امريکہ ميں فاصلُوں کا توازن کيسے برقرار رکھيں گے؟ ليکن اگر ايک بات کا آپ بُرا نہ مانیں تو يہ کہنا چاہتی ہُوں ’ليکن نماز تو ہم کعبے کی طرف مُنہ کر کے پڑھتے ہيں کہ وہ ايک طرح کا مرکز تو ہے اسلام کا‘۔۔ ايک طرح کا اسلام کا مرکز کی بات ميری ناقص عقل میں نہیں آئی۔ ميری پياری بہن ايک طرح کا نہیں ہميشہ سے مرکز ہے ہمارا۔ بہر حال سب بہن بھائيوں کو عيدين کی بہت بہت مُبارکباد۔ اللہ کرے کہ يہ عيد ہم سب کے ساتھ ہمارے مُلک کے لیے بھی امن و امان اور سلامتی کا پيغام لے کر آئے۔ دُعا ہے کہ صحيح معنوں ميں عيد عيد کے معنوں ميں ہی رہے اور ہم سب کے لیے خُوشيوں کا پيغام ہی لے کر آئے۔ آمين
دعاگو
شاہدہ اکرم