زبان یار من ترکی
ابھی تک تو برازیل بہت اچھی جگہ ثابت ہوئی ہے لیکن ایک شکوہ ضرور ہے کہ لوگ جانے کیوں ہماری بات سمجھتے نہیں حالانکہ ہر بار پہلے انگریزی اور پھر اردو میں انہیں سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
ساؤ پالو ایک کروڑ سے زیادہ لوگوں کا بہت بڑا شہر لیکن اچھا خاصا صاف ستھرا اور منظم ہے۔ ایک انوکھی بات یہاں یہ دیکھی کہ ہفت وار تعطیل تو سنیچر اور اتوار کو ہوتی ہے لیکن بہت سے ریستوران اور کیفے پیر کے روز اس لیے بند ہوتے ہیں کہ اتوار کو کھلے تھے۔ ہمارا قیام شہر کے باہر ائیرپورٹ کے نزدیک ایک ہوٹل میں ہے لہٰذا ساؤ پالو شہر جانا بجائے خود ایک مرحلہ ہوتا ہے۔ وہ تو بھلا ہو ہسپانوی سروس کی ویلاری پیروسو کا کہ ہماری ترجمانی کے فرائض انجام دیے ورنہ جگہ جگہ سوال گندم جواب چنا کا مرحلہ درپیش ہوتا۔برازیلی بڑے اچھے اور آسان طبیعت لوگ ہیں لیکن جانے کیوں اردو ہندی سیکھنے کی ضرورت نہ سمجھی اور انگریزی کو اہمیت نہ دی ۔ دوسری جانب ہندی سروس کے راجیش جوشی کی پرتگالی بھی کچھ ہماری ہی مانند کمزور سی ہے۔ ویلاری کی ہوٹل واپسی کے بعد زبان یار من ترکی، نمی دانم کے معنی پوری طرح سمجھ میں آئے۔ کچھ آپ ہی بتائیں کہ برازیلیوں کو اس وقت مختصر وقت میں اردو، ہندی یا انگریزی کیسے سیکھائیں کہ باتیں خوب ہوسکیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
ديکھیں اب آپ سب سے پہلے رانی مکھرجی اميتابھ بچن والی ’بليک‘ فلم کم از کم دو دفعہ ضرور ديکھ لیں اور اشاروں ميں باتيں سمجھائیں ضرور سمجھ جائیں گے آپ لوگ برازيلین، اور ہو سکے تو انڈين فلموں کے نام اور شاہ رخ، سلمان، عاطف، ايشوريہ کا نام لے کر ہر بات شروع کريں، اسی فيصد سمجھ جائیں گے آپکی باتيں، ليکن ياد رہے ’آزمائش شرط ہے‘!
اچھا ہوا آپ قارئين تک محدود رہے۔ کسي ’ماہر‘ سے رجوع نہیں کيا۔ ايک چشم ديد واقعہ پيش خدمت ہے۔ ايک عرب ويب سائٹ پر قطب شمالي کے نواح سے کسي کا سوال تھا: ’يہاں تو اتنے ماہ مسلسل دن رہتا ہے، اوقات سحر و افطار کا کيا کيا جائے؟‘ جواب ملا: ’ايسے علاقے میں جا کر رہنے کي ضرورت ہي کيا ہے۔‘
ہم پاکستانی ہیں تو صفائی ستھرائی ہمارے پاس سے نہیں گزری۔ کچھ وہاں کے صدر کا بتائیں کہ کیا ان کے پاس بھی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے اختیار ہیں؟ کچھ آٹھ، چاول کا بھاؤ بتائیں، وہاں ایم کیو ایم جیسی کوئی تنظیم ہو تو اس کا بھی بتائیں۔۔۔ ہم پاکستانی ہیں اور سیاست ہمارا اوڑھنا بچھونا ہے۔۔۔
يار زبان کو زبان کیوں سکھا رہے تھے خود یار کی زبان کیوں نہ سیکھی۔ پھر آپ کو کہنا پڑتا زبان یار من ترکی و من ترکی آموختم۔
کرنے کو اور کچھ نہیں کيا؟ بی بی سی والے بھی ان فضول بلاگز کو آخر کيوں چھاپتے ہیں؟
قمر صاحب، ‘زبان یار من ترکی‘ کے خالق عظیم المرتبت صوفی نے ترکی ہی کو اپنا مسکن بنا لیا تھا اور شاید ترکی بھی سیکھ لی تھی۔ آپ کو بھی اس کی پیروی کرنی چاہیے۔ رابطے کی زبان کے طور پر انگریزی یا دوسری زبانوں کا سیکھنا مفید ہے تاہم اس بات کو سمجھنے پر کچھ وقت صرف کیجیے کہ برازیل کے لوگ انگریزی کے بغیر کیسے جی رہے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں تو ’انگریزی بنا جینا نہیں جینا‘ جیسے گیت الاپے جاتے ہیں۔
کوئی ضرورت نہیں ہے آپکو انڈین فلموں کے ایکٹرز کے نام لے کر بات شروع کرنے کی۔ باسماللہ کر کے بات شروع کریں، سب سمجھ جائیں گے، انشااللہ۔۔۔
آداب! کاشف صاحب سچ پوچھیں تو رؤف بھائی کا تبصرہ آپ کی روداد پہ بہت بھاری ہے اور دبے لفظوں میں آپ کے سوچنے اور لکھنے کی رہنمائی کے قابل ہے۔ ويسے ہمیں تو شکر کرنا چاہيے کہ آپ کو وہاں کی زباں پر دسترس نہیں، ورنہ وسعت اللہ خان بھائی کی پنجابی کی طرح اگر آپ وہاں کی بول چال شامل بياں کرتے تو ہم جيسے بمشکل اردو سمجھنے والوں کو تو بس سر ہی دھننا تھا۔ شکريہ