'دھرتی کے خاص لوگ'
گزشتہ دن نیویارک سے نکلنے والے ایک ہفت روزہ اردو اخبار میں اشتہار دیکھا: 'گوادر کی زمین دھرتی کےخاص لوگوں کیلیے'۔ پاکستان کے جدید ساحلی شہر گوادر میں بین الاقوامی معیار کی ہاؤسنگ اسکیم۔
میں نے سوچا یہ 'دھرتی کے خاص لوگ' کون ہو سکتے ہیں بھلا؟
خاص لوگ تو وہ بھی نہیں جن کی دھرتی اور سمندر صدیوں سے بغیر کسی مالیے اور معاوضے کے سرکار اور پٹوار نے لوٹ لیے ہیں۔ جیسے گوادر کی زمین مال غنیمت ہو اور پورے پاکستان میں بڑے بڑے ہورڈنگ لگے ہیں 'چلو چلو گوادر چلو'۔
دھرتی کے خاص لوگ تو وہ بھی نہیں جن کے پیروں تلے سے دھرتی سرکائی گئی ہے، خاص لوگ بلوچ سرزمین کے وہ بیٹے اور بیٹیاں بھی نہیں جن کی تعداد اسی ہزار سے زائد ہے اور جو اپنے ہی پاک وطن میں بے یار و مددگار جلاوطنی سے بھی بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔
جو دھرتی کے اوپر ہے جو دھرتی کے نیچے ہے ان پر حق دھرتی کے خاص لوگوں کا ہے۔ تیل، گیس، سنگ مرمر، سونا، نیوکلیئر بم، یوم تکبیر اور خدا سب تمہارے لیے۔
پھر وہی بات آتی ہے کہ یہ خاص لوگ کون ہیں؟ کیا یہ خاص لوگ خدا کے خاص بیٹے ہیں جن کو گوادر سمیت گوادر کی زمینیں انعام اور نیلام میں دی گئي ہیں۔ چاہے بھارت سے یا اپنے عوام سے جنگ لڑیں یا کرکٹ کا میچ جیتیں یا قومی نغمے گائيں تب بھی گوادر کی زمینیں انکو۔ ترقی پسند، چاہے رجعت پسند سب اس بات پر متفق ہیں کہ بلوچ ترقی نہیں چاہتے۔ اسی لیے دھرتی کے خاص لوگوں کو عام لوگوں پر بھیجا گیا ہے۔ چین و عرب لوٹ چکا، سارا پیارا پاکستان لوٹ چکا، اب اوورسیز دھرتی کے خاص لوگ لوٹیں گوادر کے مزے۔۔۔۔
تبصرےتبصرہ کریں
حسن بھائی اس ميں کيا برائی ہے؟
بلاگ پيج ٹھيک کرنے پر بی بی سی کو بہت بہت مبارک ہو۔ بی بی سی نے بھی اسی ٹيکسٹ کو شروع کر کے چيٹ روم بنا ڈالا ہے۔ ويسے بی بی سی کا فورم ’آپ کی آواز‘ تو پہلے ہی سے چيٹ روم ہی ہے کہ جہاں پر قارئين ’ريفرنڈم‘ کا سہارا ليتے رہتے ہيں۔ لہذا مجھے بلاگ پيج پر ٹيکسٹ باکس کے اضافہ سے کوئی حيرانگی نہيں ہوئی ہے اور نہ ہی ملک کی سب سے بڑی پارٹی پاکستان پيپلزپارٹی کا ايم کيوايم کو سندھ ميں ساری وزارتيں دينے پر حيرانگی ہوئی ہے کہ ’بارہ مئي‘ سے بچنے کي خاطر يہ سب کچھ کيا گيا ہے۔ ويسے بھي پاکستان پيپلزپارٹی نے ہميشہ قربانياں دينے ميں فخر محسوس کيا ہے۔ سبحان اللہ!
گوادر والوں کے لیے تو کوئی سکيم و پيشکش نہيں، دوسروں کے لیے جنہیں ضرورت بھی نہیں، واہ! سائکو صاحب، مجھے آپ کے اندھے بہرے پی پی سے پيار پر حيرت، رشک بالکل نہيں ہو رہا کيونکہ سائکوز سب کر سکتے ہیں۔ بات، موضوع، بلاگ ہوتا کيا ہے ليکن آپ وہی طوطے کی طرح پی پی پر شروع ہو جاتے ہيں۔ ايم کيو ايم صدر کی حامی جماعت ہے اس لیے پی پی پی والوں نے انہیں گھيرا ہوا ہے کہ جب اس ’سو کالڈ کوليشن‘ سے ن باہر نکلے تو ايم کيو ايم کا تو ساتھ ہو اور اين آر او نے بہت سکون ديا ہے پی پی اور ايم کيو ايم کو۔۔۔
میں بہن ثنا خان صاحبہ کے تبصرہ سے مکمل اتفاق رکھتا ہوں۔ خصوصاً اس بات پر کہ سائکوز سے کچھ بھی بعيد نہیں ہوتا، بلاگ کچھ ہوتا ہے جبکہ ان کے تبصرے کچھ اور ہی کہانی بيان کرتے ہیں۔۔۔
حسن بھائي جان، يہ خاص لوگ فوجی حکمرانوں کے ہاتھوں بٹتی ريوڑياں حاصل کرنے والے چند گھرانے ہیں جو مارشل لا کو مستحکم کراتے ہیں۔ ترقياتی امداد کو غصب کرتے ہیں اور سب ہرا ديکھنے والے لٹيرے ہیں۔ جالب نے لکھا تھا،
’جب تک چند لٹيرے ہیں ميرے ملک کو گھيرے اپنی جنگ رہے گی‘
خوشی کی بات ہے کہ آپ جيسے باضمير اس جنگ کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
خاص لوگ؟ نکمی اولاد برتن بیچنے پر آجاتی ہے اور پاک حکمران اب پردیسیوں کو لوٹنے کا یہ ڈرامہ رچائے دیتے ہیں۔ گوادر کے نام پر زیادہ تر پردیسی پاکستانیوں سے ’ہینڈ‘ ہو جائے گا ور باقی تھوڑا سا بلوچی پاکستانیوں سے۔
آداب! حسن صاحب زيادہ پريشان ہونے کی ضرورت نہيں، صرف پاکستان ہی ميں نہيں پوری دنيا ميں ’خاص‘ لوگوں کے لیے گنجائش بہرحال موجود ہوتی ہے۔ مگر ہمیں قانون فطرت ہرگز نہیں بھولنا چاہيے جس کے تحت صاحب ثروت اور خود کو دنيا کے خوش قسمت ترين لوگ سمجھنے والے کبھی کبھی پل بھر میں تہی داماں ہو جاتے ہیں۔ کبھی جن کے لیے مٹی بھي سونا بن جايا کرتی ہے، کے پيروں کے نيچے سے ہی زمين کھسک جاتی ہے، تو کبھی لوگوں کا اترن پہننے والے خاص نہیں بلکہ بہت ہي ’خاص‘ بن جاتے ہیں۔۔۔
’بےوفا وقت نہ تيرا ہے، نہ ميرا ہوگا
رات بھی آئے گي، سورج کا بھی پھيرا ہوگا‘
سنتے ہيں کہ ايک کان کن ايک شام کو غير قانونی طور پر شکار کيے ہوئے تيتروں اور بٹيروں کے ساتھ واپس اپنے گھر جا رہا تھا کہ اچانک زميندار آ نکلا۔ اس نے وحشت بھری آنکھوں سے کان کن کی طرف ديکھا اور مونچھوں پر وٹ چڑھاتے ہوئےگرجدار آواز ميں بولا ’کيا تمہیں معلوم نہیں کہ يہ ميری زمين ہے اور يہ تيتر اور بٹيرے ميرے ہیں، لاؤ انہیں ميرے حوالے کر دو‘۔ کان کن نے سوال کيا ’يہ زمين آپ نے کہاں سے حاصل کی تھي؟‘ زميندار نے جواب ديا ’مجھے اپنے باپ سے ترکہ ميں ملی تھي‘۔ کان کن بولا ’ آپ کے والد نے کہاں سے حاصل کی تھي؟‘۔ زميندار نے جواب ديا ’ميرے والد نے اپنے باپ سے ترکہ ميں پائی تھی اور گزشتہ پانچ سو سالوں سے يہ اراضی ميرے خاندان کی ملکيت ہے‘۔ کان کن بولا ’اچھا، بہت اچھا! تو يہ اراضی آپ کے اسلاف نے پانچ سو سال پہلے کيسے حاصل کی تھي؟‘ زميندار بولا، ’انہوں نے اس کے ليے لڑائی لڑی تھي‘، يہ سُن کر کان کن زميندار کو چيلنج کرتے ہوئے بولا ’اچھا ٹھيک ہے۔ آپ اپنی جيکٹ اور پگ اتاريں۔ میں آپ سے لڑنے کے لیے تيار ہوں‘۔
حاصل کلام کہ بڑے بڑے زمينداروں نے زمينیں چرائی ہیں جو انہوں نے طاقت کے زور سے يا دھوکہ دہی سے حاصل کی تھیں اور قيام پاکستان کے وقت زمينوں کی دو نمبر بندر بانٹ اس کی مثال ہے اور جو لوگ بھارت ميں ايک کلہ کے مالک تھے پاکستان میں انہوں نے اپنے نام مربعوں کے حساب سے زمين الاٹ کروائی جبکہ جو بھارت میں مربعوں کے مالک تھے ان کے ہاتھ ايک کلہ زمين آئي۔ لکھ پتی ککھ پتی بن گئے اور ککھ پتی لکھ پتی بنا دئیے گئے۔
ارے بھائی کوئی بتائے گا کہ کل جب بلوچستان آزاد ہو جائے گا تو اس گوادر کی زمین کا کون مالک ہوگا کسی نے سوچا ہے یہ اس وقت بلوچستان یا سرحد میں زمین خریدنا بیوقوفی کے سوا کچھ نہیں۔