افاقہ ہوگا
وہ پاکستانی جو کئی برس سے کسی خلیجی ریاست کی جیل میں سڑ رہا ہے ۔جسے نہ تو اپنی فردِ جرم کا تحریری طور پر پتہ ہے۔ نہ وکیل میسر ہے اور نہ ہی یہ معلوم کہ کب رہا ہوگا۔
اور وہ پاکستانی جسے گجرات یا گوجرانوالہ یا رحیم یار خان کے کسی ریکروٹنگ ایجنٹ نے لاکھوں روپے لے کر یورپ کی جانب سمگل کردیا اور وہ یا تو ایران و ترکی کی سرحد پر کسی گارڈ کی گولی کا نشانہ بن گیا یا پھر بحیرہ روم میں لانچ سمیت ڈوب گیا یا پھر کسی کنٹینر میں چھپا پکڑا گیا۔
اگر کوئی پاکستانی اہلکار یا سفارتخانہ مدد کرنے کو تیار نہیں تو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ایسے متاثرین یا ان کے ورثا صرف اس ایڈریس پر خط لکھ دیں۔انشااللہ افاقہ ہوگا۔
چوہدری شجاعت حسین
چوہدری پرویز الہی
ظہور پیلس۔گجرات
مذکورہ حضرات جب اپنے چھوٹے بھائی چوہدری وجاھت حسین ( کہ جن کی اس وقت کوئی سرکاری حیثیت نہیں) کے لیے پوری حکومتی مشینری اور برطانوی وزیرِ اعظم گورڈن براؤن کو ہلا سکتے ہیں تو اپنے قیمتی ووٹر کے لیے کیا نہیں کرسکتے۔
تبصرےتبصرہ کریں
کيونکہ وجاہت ہی تو پورے گجرات کو کنٹرول کرنے والا ہے۔ اس کےليے بھی اتنا نہ کريں گے تو پھر گجرات ميں کون ہے جو وجاہت کے رعب ميں آئے گا۔
آفاقہ ہی ہو گا
خدا آپ جيسا حساس دل پاکستانی اشرافيہ کو بھی عطا کرے۔
کیا بات کرتے ہیں وسعت اللہ صاحب، وہ بھائی ہے اور یہ شخص انکا ووٹر۔ آپ کس دنیا میں رہتے ہیں، اپنا خون کیوں جلاتے ہیں؟ دوسرا وہ خط اس ایڈریس تک پہنچے گا تو کچھ ہوگا نا۔ سر جی پرویز الہٰی تو آنے والی نام نہاد اسمبلی میں وزیراعظم کے امیدوار ہیں اور ایسے امیدوار ہیں جو پنجاب سے باہر نکل کر کسی دوسرے صوبے میں جلسہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ سر جی آنے والے وزیراعظم سے نہ بگاڑیں، کہیں وہ آپ کے کسی دوست احباب کو یونان نہ بھجوا دے۔
وسعت اللہ خان صاحب، جن کے اپنے کپڑے تک اتروائے گئے، جن کی تصاوير ائيرپورٹ سيکيورٹی والوں کے پاس محفوظ ہيں، دھشت گردی کے الزام پر تفتيش ہوئی، پياز بھی کھائے اور چھتر بھی، وہ کسی کے کيا کام آئيں گے۔ ظہور پيليس جانا تو ويسے ہی مشکوک کام ہے۔
وسعت بھائی السلام عليکم!
اميد ہے کہ بخير ہونگے، افاقہ ہوگا۔ ايک معنی خيز بلاگ ہے۔ ميں نہيں جانتا تھا کہ چودھری شجاعت حسين کيا ہيں، پرويز الہی کی کل کہاں جاکے ملتی ہے اور ظہور پيلس کے کارنامے پاکستان سے انگلينڈ تک کيسے پھيلتے ہيں مگر اس بلاگ نے سب کچھ صاف کرديا ہے۔ باباجی اچار ہے والے کالم نے جہاں ہنسی کے فوارے چھڑوائے ہيں وہيں يہ بھی کہنے پر مجبور کرديا ہے کہ وسعت اللہ خاں کا قلم موجودہ دور کی صحافت کو ايک نئی جہت دے رہا ہے۔ واقعی بات سے بات پيدا کرنا کوئی آپ سے سيکھے۔ خير انديش
محترم وسعت اللہ خاں صاحب، آداب!
ہميشہ کی طرح آج بھی آپ نے اپنی بات کو ہلکے پھلکے، سادہ اور آسان الفاظ ميں بہت خوبصورتی سے بيان و واضح کيا ہے کہ پہلی ہی فرصت ميں سب کچھ سمجھ آجاتا ہے۔ عرض ہے کہ ايسے متاثرين کيلۓ کچھ لو کچھ دو کے مصداق يہ شرط بھی ہے کہ وہ يا تو ’سائيکل‘ کو پسند کرتے ہوں اور يا پھر اسکو پسند کرنے کی حامی بھريں، تب ہی افاقہ کی اميد کی جاسکتی ہے۔ بصورت ديگر ظہورپيلس گجرات کے پتہ پر ان متاثرين کا متاثرہ سرگزشت پر مشتمل خط رستہ ميں ہی رستہ کھو بيٹھے گا۔
جو خود آمريت کے سہا رے ہيں وہ کسی کو کيا سہا را دينگے۔ خدا بچائے ان سے جن کے اپنے پيٹ آٹا، بجلي، گيس کھا کےاب تک نہيں بھرے وہ آگئے تو ہوا اور پانی کا بحران بھی ہو جا ئے گا۔