گنے والی آنکھ
گجرانوالہ کے ایک دور دراز گاؤں سے آّئے ہوئے ملک منظور کو نیویارک کی سڑکوں پر پیلی ٹیکسی چلاتے ہوئے بھی وارث شاہ کی ہیر، اور منڈی بہاؤ الدین کے دائم اقبال کا ’شاہنامہ کربلا‘، ’سیف الملوک‘ اور ’یوسف زلیخا‘ یاد رہتے ہیں۔
اس دن منظور نے مجھے جو ہیر وارث شاہ سےحیران کن سطریں سنائیں انکا ترجمہ کچھ یوں تھا: ’وارث شاہ ہم نے ان کیلیے اپنی کھال سے جوتیاں بنائی ہوئی ہیں جنہوں نے جیون کا روگ پالا ہوا ہے‘۔ پھر اس نے قدرے جذباتی ہوتے ہوئے کہا یہ تھا میرا پنجاب، لوگ پتہ نہیں کس پنجاب کی بات کر کے اسے غلط ملط کہہ رہے ہیں۔
منظور ایک ٹرک ڈرائیور کا بیٹا ہے جو اپنی ٹیکسی میں چڑھنے والے تمام مسافروں سے اپنی زندگي کا فلسفہ ’جیو اور جینے دو‘ بیان کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے ’یہ میں نے اپنے ابًے کے ٹرک پر بچپن میں لکھا ہوا دیکھا تھا جو میں آجتک نہیں بھولا، جیو اور جینو دو۔‘ انیس برسوں سے امریکہ اور وہ بھی نیویارک میں رہنے گجرانوالہ کے دور دراز گاؤں میں کئي سال کسان بنے رہنے والے منظور مجھ سے کہہ رہے تھے: ’میں رودیا جب میں نے سنا کہ پاکستان میں آٹا اور گندم نہیں مل رہے۔ میں نے خود اپنے ہاتھ سے زمین میں بیج بوئے تھے، گندم اگائي تھی خود راشن والی لائن میں کھڑا ہوا ہوں لیکن ایسے دن تو نہیں تھے جب آٹا، گندم بالکل ہی نہیں ملتے تھے۔‘
منظور مجھے گنے کی کاشت کا بتا رہے تھے کہ جب انکے بڑے انہیں زمین میں کماد بونے کیلیے گنے کا وہ ٹکڑا دیتے تھے جسکے اوپر آنکھ نما ایک بیج لگا ہوتا تھا تو وہ کہتے تھے یہ گنے کی آنکھ ہے۔ اگر یہ نہ ہوگي تو گنا نہیں ہوگا۔
آدھی رات تین پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور نیویارک کے مختلف حصوں پر ڈرائیو کرتے ہوئے ایک دوسرے کو اپنے سیل فونوں پر کانفرنس کرتے ہوئے مجھ سے میری بینظیر بھٹو والی نظم سننے لگے۔ میں نے بیک مرر سے دیکھا جیسے گنے والی آنکھ نیویارک براڈوے پر بھی آجتک میرا منظور کا اور انکا پیچھا کررہی ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
محترم حسن صاحب، پليز مينوں وی اپنا سيل نمبر بتا ديں تاکہ ميں بھی آپ کی سنہري حروف ميں لکھي جانے کے قابل محترمہ بينظير بھٹو والي نظم آپ ہی کی آواز ميں سُن سکوں۔ پليز انکار کرکے دل نہ توڑنا!!!
جس تحرير کا نہ سر ہو نہ پير، اُسے بی بی سی اُردو پہ بلاگ حسن کے طور پر پيش کر ديا جاتا ہے۔ باکمال لوگ لاجواب سروس!
آداب عرض
اور نہ سہی اتنا ضرور کہوں گا کہ آپ کی ان تحاریر سے کافی نفرتیں دور ہو رہی ہیں۔
حسن صاحب، واہ مزہ آ گيا۔ گنے کی آنکھ ہی سے تو گنے کا پودا جنم ليتا ہے۔ سمجھ دار کسان گنے کا مڈھ نہيں کاٹتے کہ دوسری فصل ليتے ہيں اور يہی گنے کی آنکھ اگلی فصل کا بيج بنتی ہے۔ مادر وطن اور ديس کی مٹی کی محبت ہی ہم جيسوں کو آپ کی خوبصورت تحريريں پڑھواتی ہے ورنہ تو
اس مٹی کی محبت ميں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہيں کہ جو واجب بھی نہيں تھے
ابھی تو بينظير بارے نظم کے دکھ کي تلخي محسوس کر رہا تھا کہ اس کالم کی مٹھاس نے اس ميں مزيد اضافہ کرديا۔ دعاگو!
بہت خواھش ھے کہ آپ سے ملا قات ھو، دل کھول کے باتيں ہوں۔ آپ کے وہ سارے کالم اور بلاگ جن کے پرنٹ ميرا اک سرمايہ ھيں سب پہ بات ہو۔ کبھي وقت ہو تو ای ميل کر ديں۔ ھم خيا لی کے رشتے والی شروعات تو ھو۔ اگر واشنگٹن ڈی سی آنا ہو تو خدمت کا موقع ضرور ديں۔ خوب گزرے گی جو مل بيٹھيں گے ديوانے دو۔
واہ، کيا بات ہے۔ گنے کی فصل کے ليۓ آنکھ والا حصہ بچانا ضروری ہے ايسے ہی ليڈر شپ کا معاملہ ہے۔
اسی ايک آنکھ کے کرشمے تو ديکھئے کہ پہلے پہلے ملکی گنا ہوتا تھا جو ميٹھا بھی اور دل پزير بھی ہوتا تھا۔ گڑ جسکا مسالے والا، حلوہ لاجواب ہوتا تھا اور کک يعنی گنے کے رس ميں مربہ سازی تو الگ سے گھريلو انڈسٹری ہوا کرتی تھی۔ پراٹھے کے ساتھ دوپہر کو کک کا ظہرانہ کرنے ميں آدھی چھٹی کے وقت بھاگا بھاگا گھر آتا۔ مگر پيداوار بڑھانے کے لیے جب ہمارے ہاں بھی گنا آنکھ سے آنکھ ملانے لگا تو فارم والا گنا بنا۔ سرخ سرخ رنگت والا يہ گنا ’گورا گنا‘ کہلايا جس کا نہ مزا، نہ لطف، بس چينی کی ملوں کا پسنديدہ تھا۔ اس کے لیے ايشيا کی پہلی شوگر مل مردان ميں انیس سو باون کو لگی تو پھر پاکستان بھر ميں جيسے شوگر مل لگنے کی دوڑ چل پڑي۔ چيني سازي کے مفاد ميں گھريلو گڑ انڈسٹري پر ٹيکس لگنے لگے جس کے لیے ہمارے ايک پٹھان ليڈر مرحوم غلام محمد لوند خوڑ گڑ کی جنگ لڑتے رہے اور جب کبھی ڈی سی گڑ سازی اور گڑ کی ترسيل پر ٹيکس پابندی ہٹانے پر راضی ہو جاتے تو موصوف گڑ کی چائے کی دعوت عام لگائے ’ہم نے گڑ کی جنگ جيت لي‘ کی خبر نوائے وقت کے لیے لکھنے بيٹھ جايا کرتے تھے۔ کيا زمانے تھے وہ بھی!!
کچھ آنکھيں ساری عمر انسان کا پيچھا کرتی ہيں اور غريب الوطنوں کو تو يہ نا ديدہ آنکھيں کبھی چين سے سونے نہيں ديتيں-
حسن صاحب، بہت ہی قابلِ تعریف بلاگ ہے اور صرف باذوق افراد ہی اس کی گہرائی کو سمجھ سکتے ہیں۔ دیارِ غیر کے غم اور ساتھ ہی بےنظیر کا غم جب مل جائیں تو گنے کا کھیت اور گنے کی آنکھ سوچ کا واحد مرکز ہوجاتی ہیں۔
اکثریت کی طرح میرا شمار بھی خاموش قارئین میں ہوتا ہے مگر حسن صاحب کی یہ خوبصورت تحریر اور اس پر گستاسپ خان کا تبصرہ پڑہ کر اپنی رائے کا اظہار ضروری سمجھا۔ میری نظر میں یہ تحریر اہل دل پاکستانیوں کے موجودہ حالات پر افسردہ جذبات کی بہترین ترجمانی کرتی ھے اور جناب گستاسپ صاحب کو میرا مشورہ ہے کہ اگر ہوسکے تو ذرا اپنے ذوق کی آبیاری فرمائیں۔
گستاپ خان، اگر آپ کو ساری بات سمجھ آجاتی تو آپ مشرف دو نہ ہوجاتے۔ کچھ لوگوں کو عام چیزیں جیسے یہ بلاگ نہیں سمجھنے چاہئیں، انسانیت کے لیے یہی اچھا ہے۔
حسن بھائی، کيا، کيا جائے، ہمارے حکمرانوں کو گنے اور گنڈيری کے فرق کا علم اور اندازہ نہيں ہوتا رہا اور سياسي قيادتوں کو مروا کر وہ گنے کی آنکھ ہی تلف کر ديتے ہيں جس سے پودا پھوٹتا ہے اور فصل تيار ہوتی ہے۔ آپ کی تندرستی کے واسطے۔ دعا گو
حسن صاحب، آداب۔ کيا خوبصورت نيم علامتي بلاگ ہے۔ گستاسپ صاحب، پيشگی معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ بين السطور پڑھنے کی صلاحيت اور قابليت پيدا کيجيے۔
حسن صاحب، بہت شاندار۔ وقت کے ساتھ ساتھ آپ کے بلاگ اور بھی معنی خيز اور گہرے ہوتے جارہے ہيں۔ اردو ادب آپ جيسے اديبوں کا منتظر ہے تاکہ نئے دور کے ساتھ معيار اور وقار کی آبياری کرتی تحريريں اردو قاری کے احساس کمتری کو کچھ تو کم کرسکيں۔ کاش کہ آپ ناول بھی لکھا کرتے! خير انديش۔