دس بیس کا کام نہیں
سچ ہے کہ زندگی دوسرا چانس ضرور دیتی ہے۔ ویسٹ انڈیز میں ہونے والے کرکٹ کے عالمی کپ میں آئرلینڈ کے ہاتھوں بدترین شکست کھانے والی پاکستانی ٹیم آسٹریلیا جیسی دیو قامت ٹیم کو شکست دے چکی ہے۔ انڈیا کے یوراج سنگھ آسٹریلوی بالروں کے چھکے چھڑا چکے ہیں۔ بھئی یہ کیا ہو رہا ہے۔ کیا گٹھ جوڑ ہے آسٹریلیا کے خلاف۔
میرے لیے ٹوئنٹی ٹوئنٹی کرکٹ بالکل فاسٹ فوڈ کی طرح ہے۔ گئے لیا اور کھایا۔ اسی طرح کریز پر آئے مارا، مارا اور اور مارا۔ شروع میں جب ٹوئنٹی ٹوئنٹی کا میچ دیکھا تو لگا کہ یہ کیا ہے۔ ابھی آئے بھی نہ تھے کہ چل دیے۔ یہ کیسی کرکٹ ہے۔ لیکن پھرسوچا کہ جب ایک روزہ کرکٹ کا آغاز ہوا تھا تو تب بھی یہی سوال اٹھایا گیا تھا کہ یہ کیسی کرکٹ ہے کہ بس بولروں کی پٹائی کرتے رہو۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک روزہ کرکٹ نفیس ہوتی گئی اور اب اسے دیکھتے ہوئے مزہ آتا ہے۔ ڈھنگ سےکھیلنے والا ہی کریز پر رہتا ہے اور نپی تلی گیند کرنے والا ہی بیٹسمین کی یلغار سے بچتا ہے۔ کچھ سالوں بعد شاید ٹوئنٹی ٹوئنٹی بھی ایسی شکل اختیار کر لے۔
ٹوئنٹی ٹوئنٹی کرکٹ کا فائدہ یہ ہے کہ دفتر سے چھٹی ہوئی تو سیدھا گراؤنڈ یا گھر میں ٹی وی کے سامنے۔ معلوم ہوا کہ میچ ابھی شروع ہونا ہے اور پورے کا پورا میچ تین گھنٹے میں ختم۔ کھانا کھانے اور تبصرہ کرنے کا بھی ٹائم مل جاتا ہے۔ اور اگر ہار بھی جائیں تو بستر پر جانے تک غصہ اور افسوس بھی جاتا رہتا ہے۔
لیکن یہ سب کچھ شاید پیر کو جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں ہونے والے فائنل کے میچ میں نہ ہو۔ وجہ انڈیا اور پاکستان ہیں۔ ورلڈ چیمپئن شپ آف کرکٹ اور شارجہ کپ کے علاوہ مجھے نہیں یاد کہ پاکستان اور انڈیا کسی کپ کے فائنل میں آمنے سامنے آئے ہوں۔ دونوں نے پورے ٹورنامنٹ میں بہتر کھیل کھیلا اور نہ صرف میچ جیتے بلکہ ٹوئنٹی ٹوئنٹی کے کھیل میں اپنی مہارت کا بھی مظاہرہ کیا۔ اس لیے ٹینشن ذرا بڑھ گئی ہے۔
اگرچہ انڈیا کی ٹیم پاکستان کی ٹیم کی نسبت ذرا زیادہ تجربہ کار ہے لیکن توازن کے حوالے سے پلڑا پاکستان کی ٹیم کا بھاری نظر آتا ہے۔ ثبوت اس کا یہ ہے کہ مین آف دی ٹورنامنٹ میں جن سات کھلاڑیوں کے نام لیے جا رہے ہیں ان میں پاکستان سے چار شاہد آفریدی، مصباالحق، شعیب ملک اور یونس خان شامل ہیں۔
انڈیا کی طرف سے ہیں تو ایک لیکن ہیں بہت جابر۔ یوراج کا اگر کسی نے پوچھنا ہے تو وہ انگلینڈ کے سٹورٹ براڈ سے پوچھے جسے اس سنگھ نے ایک ہی اوور میں چھ چھکے لگائے اور صرف سولہ گیندوں پر اٹھاون رنز بنا ڈالے۔ آسٹریلیا کے خلاف بھی انہوں نے تیس گیندوں پر ستر رنز بنا ڈالے۔
پاکستان کے پاس اگر یوراج کا جواب ہے تو وہ آفریدی ہے۔ سنگھ کا جواب خان۔ اور ٹوئنٹی ٹوئنٹی تو ویسے بھی آفریدی سٹائل کرکٹ ہے۔ دیکھیں پیر کو کون کس کو پیٹتا ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
میرے خیال میں آئندہ سالوں میں اس طرح کی کرکٹ بہت مشہور ہو جائے گی۔
محترم عارف شميم صاحب ، سلام عرض ۔
جناب ، آپ کي بات سے ميں بالکل متفق ہوں کہ يہ ميچ دراصل يوراج اور آفريدي کے درميان ہے ۔ بس جو جوش و خروش ميں توازن رکھے گا وہی کامياب ہوگا ۔
نياز مند
سيد رضا
محترم عارف صاحب !
آپ کے لکھنے کے سٹائل اور خيالات نے بہت متاثر کيا۔ مگر فائنل کے بارے ميں صرف اتنا کہوں گا کہ وہی کھلاڑی يا ٹيم جيتے گی جس کا دن ہوگااور قسمت کی ديوی جس پر مہربان ہوگي کيونکہ دونوں ٹيموں نے جس اعلی کارکردگی مظاہرہ کيا ہے`بحثيت سپورٹس مين ميں کہو ں گا کہ دونوں ٹيموں کا برابر کا حق ہے بہر حال جيت تو ايک کی ہوگي۔
یہ پہلا ٹوئنٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ بہت شاندار گیا ہے ۔ فائنل میں روایتی حریف مدمقابل ہوں گے تو ٹورنامنٹ کو چار چاند لگ جائیں گے ۔
بھئی اس فائنل جيت گے بعد تو سکون آجائے گا ٹورانٹو ميں رہنے والے کرکٹ کے پاکستانی شائقين کو۔
ميرے خيال ميں پاکستان آج کا ميچ آسانی سے جيت لے گا اور فيوچر بھی پاکستان کا ہے۔ پاکستان مارے ہی مارے۔
باجوہ
آج کا ميچ واقعی بہت اعصاب شکن ھوگا مگر مجھے يقين ہے فتح ياب پاکستانی ٹيم ہوگی کيونکہ پاکستان ھميشہ سے دباؤ ميں اچھا کھيلتا آيا ھے۔ ميری اللہ سے رمضان کے بابرکت مہينے ميں دعا ہے کہ جيت پاکستان کی ہو۔ کيونکہ بھانت بھانت کی بوليوں والے پاکستان ميں ايک کرکٹ ہی تو ہے جو نوجوان نسلوں کو متحد رکھے ہوئے ہے۔ بہر حال کرکٹ ايک بائی چانس گيم ہے ’شکست کی صورت‘ ميں ہميں بھارت کی جيت کو کھلے دل سے قبول کرنا ہوگا۔
عارف شميم صاحب
يہاں انيس بيس کا فرق نہيں دس بيس کا تو دور کی بات ہے۔ يہ تو اعصاب کی جنگ ہو گی۔ جو ٹيم حواص قابو ميں رکھے گی اور غلطياں کم کرے گی وہی جيتے گي۔ کھيل کے ليے اچھا ہو گا کہ بعد ميں آپس ميں کھيلتے رہيں۔ دعا گو
مياں آصف محمود
ميری لينڈ
امريکہ