ڈیل ویل لگی رہے
گزشتہ تین ہفتوں سے میں چھٹیوں پر تھا اور ان چھٹیوں میں اتنا تھک گیا ہوں کہ چھٹیوں کی تھکن اتارنے کے لیے چھٹیاں کرنے کو دل چاہتا ہے۔
ان چھٹیوں میں ٹی وی بھی کم دیکھا اور اخبار بھی کم ہی پڑھے لیکن پاکستان سے کوسوں دور ہونے کے باوجود پاکستان نے پیچھا نہیں چھوڑا یا شاید میں نے خود ہی پاکستان اور اس کی سیاست سے جڑا رہنا چاہا۔
شمالی امریکہ میں تو جن افراد سے بھی بات ہوئی وہ پاکستان کے حالات پر پریشان تھے۔ کوئی مشرف کو دوش دے رہا تھا تو کوئی نواز اور بی بی کو۔ اسی زمرے میں دوسرے سیاستدان بھی آتے تھے۔ اور سب یہ جاننے کہ خواہش مند تھے کہ ’میڈیا‘ ہمیں اصل بات بتائے۔ کم از کم وہاں وہ ’میڈیا‘ مجھے ہی سمجھ رہے تھے۔
انہیں کیا معلوم تھا کہ ’میڈیا‘ بھی اتنا ہی پریشان اور انجان ہے جتنے وہ خود ہیں۔ ’میڈیا‘ کو آج تک یہ معلوم نہیں تھا کہ نواز شریف پاکستان جائیں گے کہ نہیں۔ بی بی کی مشرف سے ڈیل ہو گی کہ نہیں اور ملک میں مارشل لاء لگ سکتا ہے کہ نہیں۔
’میڈیا‘ تو یہ بھی نہیں جانتا کہ اصل میں نواز اور مشرف کی ڈیل کیا ہوئی تھی۔ جو وہ دونوں یا اب سعودی شہزادے اور حریری صاحب بتا رہے ہیں ’میڈیا‘ کو بس اس کا ہی پتا ہے۔
’میڈیا‘ بس اتنا جانتا ہے کہ بینظیر کل تک ایک جرنیل کو آمر کہہ رہی تھیں اور اب اس سے ڈیل کر رہی ہیں۔ ’میڈیا‘ کو تو بس اس بات کا پتہ ہے کہ کل تک ڈیل سے انکار کرنے والے نواز شریف آج کہہ رہے ہیں کہ ڈیل دس سال کی نہیں پانچ سال کی ہوئی تھی۔
نواز شریف صاحب درست کہتے ہیں کہ سیلابوں کے منہ موڑے نہیں جا سکتے۔ ’میڈیا‘ تو بس اب یہ محسوس کر رہا ہے کہ سیلاب تو ایک قدرتی آفت ہے اس لیے پاکستان ایک نئی ’قدرتی‘ آفت کے لیے تیار رہے۔ کیونکہ اگر تاریخ کو دیکھیں تو کوئی بھی پاکستانی چاہے وہ سیاستدان ہو یا فوجی آمر کم از کم ایسی بات نہیں کرے گا جس سے پاکستان کا کچھ بھلا ہوتا ہو۔
تبصرےتبصرہ کریں
عارف صاحب کيا درست کہا کہ کوئی بھی آمر فوجی يا سياستدان ايسی بات نہيں کرے گا کہ جس سے ملک کا بھلا ہوتا ہو۔ اس کی شايد وجہ يہ ہے کہ ان حضرات کو اپنی ذات سے آگے کبھی کچھ نظر آتا ہی نہيں ہے۔ چاہے يہ ڈيل ويل اپنی جلا وطنی کے لیے کريں يا کوئی اپنے مقدمات کو ختم کرانے کے لیے۔ چاہے یہ حکومت ميں حصہ پانے کيليے ہو يا پھر اپنے اقتدار کی طوالت ہو کہيں بھی ذات سے بڑھ کر ملک و قوم کے مفاد کا شائبہ تک نہيں۔ اگرچہ ليبل بہرحال قومی مفاد کا ہی چسپاں کيا جاتا ہے۔ عارف شميم صاحب دعا کريں يہ ڈيل والی ريل (فلم) کبھی تو فلاپ ہو۔ آمين ۔
بہت خوب شميم صاحٰب۔ مجھے آپکی سيلاب والی بات سے بالکل اتفاق ہے۔ اللہ پاکستان کو ان سياستدانوں اور ظالموں سے بچائے۔ آمين۔
جناب عارف شميم صاحب
آداب۔ بہت عرصے بعد بذريعہ بلاگ ملاقات ہوئی - آپ نے بجا فرمايا کہ پاکستان کے سياسی صحرآئے بنجر ميں اتنی دھول اڑ رہی ہے کہ عوام تو دور کی بات صحافيوں کو بھی ماخذ دھول اور اصل کردار پہچاننے ميں دشواری کا سامنا ہے۔
ريحان ساجد
آسٹريليا
اچھا ہوا آپکی چٹھياں ختم ہوئيں۔ کل بےنظير بھٹونے بھي جنگ ميں اپنا آرٹيکل يورپ ميں چھٹياں گزارنے کے اپنے پروگرام کے ذکر سے شروع کيا تھا جو ملکی سياست ميں جنرل مشرف کے جوار بھاٹا ہوجانے پرخواہش نا تمام ہوئیں اور محترمہ ڈيل کرنے ميں مصروف ہوئیں۔ آپ نے ويسے ڈيل کی پتنگ کو مانجا چھوڑ اٹک قلعے تک اڑا کر خوب کہا کہ ڈيل کوئی نئی بات نہيں۔ ہاں مگر مياں صاحب کی سيلاب کی پيشنگوئی بھی يوں معنی خيز ہے کہ ہر بار سيلابوں کے دوران فوج ہی آ کر قومی خدمات ادا کرتی ہے۔ ديکھيں اب آگے کيا صورت بنتی ہے ويسے اب کے پاکستان کو در پيش اندرونی خطرہ بيرونی جارحيت سے بڑھ کر خطرناک بن گيا ہے۔
محترم عارف شميم صاحب۔ اسلام و عليکم:
آپ نے سچ لکھا ہے کوئی بھی پاکستانی چاہے وہ سياستدان ہو يا فوجی آمر کم از کم ايسی بات نہيں کرے گا جس سے پاکستان کا کچھ بھلا ہوتا ہو۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ وطن عزيز پاکستان کي شاہراہوں اور ريلوے ٹريکس کے آس پاس ، چين اور جرمن ہيلتھ کلينک والوں نے کوئی ديوار نہيں چھوڑی جس پر پوشيدہ امراض کے خفيہ رکھنے کا وعدہ نہ کيا گيا ہو۔ لہذا ان کے مريض سياستدان معاملات کو صيغہ راز ہی ميں رکھتے ہيں۔ فوجی آمروں سے تو توقع ہی فضول ہے کہ سيکيورٹی کے نام پر سيکيورٹی رسک ہي رہے ہيں۔
کسی سے کوئی توقع فضول ہے عارف
کہ زمانے بھر کی آنکھوں کا مرگيا پانی۔ وسلام آصف محمود، ميري لينڈ،
امريکہ
آداب عرض! آپ نے ميرے دل کی بات کی ہے واہ! واہ! سوال يہ ہے ايک ڈيل کر کے قوم کو چھوڑگيا اور اب اس بات کی دھمکياں دے رہا ہے کہ اک سیلاب ہے۔ دوسری کچھ دعویٰ سا کرتی ہے کہ وہ پرامن طريقے سے تبديلی لائے گي۔ تيسرا کرسی پر بيٹھا شطرنج کھيل رہا ہے۔ خير بات کچھ بھی ہو اگلے 10 - 15 دن ہمارے ديس کو کيا رنگ ديں سوچ کر لبنان ياد آتا ہے اور رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہيں۔ اس طرح يہ کہ خود حملے کرنے والے بھی بڑے غور سے ان سب کا جائزہ لے رہے ہيں۔ سب سے زيادہ دکھ کی بات يہ ہے ان پہلوانوں کے درمياں ميرے غريب بھائی کا کيا ہو گا؟ بے چارے کے پاس سر چھپانے کی، کھانے کو روٹی اور پينے کو پانی بھی نہيں۔ زلزلوں سیلابوں اور خود کش حملوں کا مارا ہوا يہ کہاں جاۓ اور کیا کرے۔اسے تو يہ بھی سوچنے کی توفيق نہيں کہ اس کے ساتھ ہو کيا رہا ہ۔ کاش کہ آسمان سے پيار امن اور روٹيوں کی بارش ہو اور يہ کہ غريب کو ان کے ہتھ کنڈوں سے بچا لے۔ شکريہ
محترم عارف صاحب آپ نے بلکل درست کہا کہ پاکستان کا ايک بھی سياستدان محب وطن نہیں۔ ان کی سياست کا محور صرف خود غرضی اور ذاتی مفادات ہيں۔
نواز شريف کی تو پھر بھی سمجھ ميں آتی ہے ليکن بينظير کے موقف کو سمجھنے کيليے آئن سٹائن کی ذہانت چاہيے۔ ايک طرف کہتی ہيں کہ ايم ايم اے کے ساتھ نہيں بيٹھ سکتی کيونکہ وہ حکومت کی اتحادی ہے، دوسری طرف خود اصلی حکومت کے ساتھ بيٹھ کر ملاقات کرنے ميں کوئی قباحت نہيں سمجھتيں۔ پھر وہ کہتی ہيں کہ ان پر مقدمات اس ليے معاف کر ديے جائيں کہ ان کو چلتے ہوئے 11 سال ہو گئے ہيں۔ يہ سب سے زبردست منطق ہے، کہ اگر مقدمات کو چلتے ہوئے گيارہ سال ہو جائيں تو ان ميں ملزم کو بری قرار دے ديا جائے۔ ميرے خيال سے دنيا کے بڑے قانون دانوں کو اس باريک نقطے پر سوچنا چاہيے۔ اور ان تمام قاتلوں، دہشت گردوں، لٹيروں، اور غداروں کو معاف کر دينا چاہيے جن کے مقدمات چلتے ہوئے گيارہ سال ہو چکے ہوں اور جو پھر بھی حل طلب ہوں۔ پھر وہ کہتی ہيں کہ مارشل لا کا کوئی چانس نہيں ليکن پھر دوسری سانس ميں وہ يہ بھی کہتی ہيں کہ اگر پرامن طريقے سے ڈيل کے ذريعے فوج کو واپس نہ کيا گيا تو مارشل لا لگ سکتا ہے۔ ہے نہ مزے کی بات۔