حکومت بد مست ہاتھی ہے
پاکستان میں چیف جسٹس کو ہٹانے کا معاملہ ہر دن ڈرامے کا نیا ایکٹ پیش کرتا ہے۔ نو مارچ سے آج تک حکومت کے ہدایت کردہ ڈرامے میں ہر ایکٹ میں ایک نیا پہلو ضرور موجود ہوتا ہے ۔ گو کہ تماشائیوں کے لیے یہ سب تسکین کا باعث ہے مگر بے چاری حکومت کے لیے باعث امبریسمنٹ، جو سمجھ دیکھ کر بھی نئی ’ پیش کش‘ کی تلاش میں سرگرداں ہے۔
ایک بات شاید آپ نے بھی محسوس کی ہوگی کہ صدر مشرف نے اپنے آس پاس نام نہاد ماہر قانون کی بڑی کھیپ داؤ پیچ سمجھانے کے لئے تو رکھی ہے مگر وہ زیادہ تر جاہل اور کامن سینس سے کوسوں دور لگتے ہیں۔ جنہیں نہ اپنی عاقبت کا خیال ہے اور نہ اپنے مشرف صاحب کی با رعب وردی کا جس کو پہنے رکھنے سے ہی سولہ کروڑ عوام کی چی نہیں نکلتی۔
اب مشرف صاحب کو کون سمجھائے کہ عوام پر حکمرانی دھونس دباؤ سے نہیں ہوتی اور نہ چاپلوسوں کی فوج جمع کرنے سے۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر وقت ضرورت پر سوچنے کی صلاحیت غائب نہیں ہوجاتی۔ وکلاء سڑکوں پر واویلا نہیں مچاتی، لوگ پریشان نہیں ہوتے، وزراء حواس باختہ نہیں لگتے، حزب اختلاف ڈیڑھ اینٹ کی مسجد تعمیر کرنے نہیں بیٹھ جاتے یا ایک ہفتے کے بعد چیف جسٹس کو جبری چھٹی پر بھیجنے کی احمقانہ حرکت نہ ہوتی۔
ان حالات میں عوام سینہ کوبی کریں، ماتھا پھوڑیں یا اس قوم کی قسمت پر روئیں جس کے تقدیر ساز بد مست ہاتھی بن گئے ہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
نعيمہ جی حکومتوں کی باتيں اور اُن کے اندرونی حالات وہی بہتر سمجھتے ہيں ہم تو بس يہ سب باتيں دل پشوری کے لئے کر جاتے ہيں اور کبھی يہ پتہ نہيں چلتا کہ کس وقت کس کے کيا کرنے کا کيا مقصد تھا۔ کبھی سالوں بعد جب حقيقت کُھلتی ہے تو ہم اور آپ کيا کرسکتے ہيں کيونکہ ہمارا نام عوام ہے اور عوام ہميشہ ہی ايسی ہی ہُوا کرتی ہے کُچھ بھی نا کرنے کی پوزيشن والی مخلُوق۔
محترمہ نعيمہ مہجور صاحبہ
خدا مغفرت کرے۔ ميري دادي کہا کرتي تھيں برا وقت آتا ہے تو عقل ماری جاتی ہے۔ وہ حماقتيں سرزد ہوتي ہيں جن کا تصور بھي نہيں کيا جا سکتا۔ ہميں تو ياد نہيں اِس قوم پہ کبھي اچھا وقت بھی آيا ہو۔ آپ کوياد آتا ہے کيا؟
نعيمہ جی، بالکل پروفيسروں والا انداز مگر لگتا ايسا ہے گويا انگريزی پڑھانے والے پروفيسر نے سياست پڑھانی شروع کردی ہو۔ ارے بھائی يہ پاکستان ہے آپ نہيں جانتيں يہاں وہ سب کچھ ہوتا ہے جس کی اخلاقيات ميں بالکل بھی گنجائش نہيں ہوتی۔ اب وہ وردی پہنے ڈرامہ بازی کريں يا پھر ايکٹنگ، کيا فرق پڑتا ہے؟ رہی بات عوام کے واويلوں کی تو عوام چاہے پاکستان کے ہوں يا انڈيا کے ان کا نصيب ہی ماتھا پھوڑنا ہے۔ يا تو اپنا پھوڑيں يا پھر ان لوگوں کا جو سڑکوں پر لا اينڈ آرڈر کی بحالی کی اپنی سی کوشش کرتے پريشان ہوتے ہيں۔ بہر حال پاکستانی عوام کے لئے نيک خواہشات کے ساتھ جو آج کل پے در پے صدموں سے دوچار ہوتے نظر آتے ہيں۔
محترمہ نعيمہ صاحبہ ، بدمست ہاتھيوں کا علاج تو ابا بيلوں کے پاس ہے ۔
رضا صاحب آپ کی دادی درست فرماتی تھيں اور ميں يہی دعا کرتا ہوں کہ خدا کچھ دے يا نہ دے بس عقل ضرور دے ۔
نياز مند
سيد رضا
سیانے يہ بھی کہتے ہيں کہ جس کا کام اسی کو ساجے۔
قانون اخلاقی ضابطوں کا ايسا مجموعہ ہوتا ہے جس سے رياست ميں عوام خوشحالی اور شادمانی سے زندگی بسر کرتے ہيں۔ قانون کو قانون بنانے والوں اور ججوں سے بہتر کون سمجھتا ہے۔
جنرل صاحب کو سب معلوم ہے مگر کچھ مجبورياں بھی تو ہيں سمجھا کريں کسی کی مجبوری کو۔
وہ تو کمبل کو چھوڑنا چاہتے ہیں مگر کمبل نہيں چھوڑتا۔ ِِ