امیدوں کے پودے مُرجھا رہے ہیں
یہاں اُن قیدیوں کو جو امریکی فوجیوں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں اور ان کا کہا مانتے ہیں’کیمپ ڈیلٹا چار‘ میں رکھا جاتا ہے۔
ہمیں چھ فوجیوں کی نگرانی میں یہ کیمپ دکھانے کے لئے لایا گیا تو خاردار تاروں کے پیچھے مجھے دو قیدی بیٹھے نظر آئے۔ ہمیں دیکھا تو آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے۔ میں نے اپنا کیمرہ نکالا تو انہوں نے اپنے منہ پھیر لئے اور خود کو چُھپانے لگے۔
امریکیوں کے مطابق، اس کیمپ میں قیدیوں کے ساتھ نسبتاً نرمی برتی جاتی ہے۔ انہیں دس سے بارہ گھنٹے روزانہ ورزش اور کھیل کود کی اجازت ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ قیدی فٹ بال، باسکٹ بال اور والی بال شوق سے کھیلتے ہیں۔
پچھلے برس اسی کیمپ میں کچھ قیدیوں نے گارڈز سے چھپ کر ایک کونے میں باغبانی شروع کر دی تھی۔ وہ پانی سے زمین نرم کرتے، انگلیوں اور پلاسٹک کے چمچوں سےمٹی کھودتے اور پھر کھانے میں دیئے جانے والی تربوز، ٹماٹر اور مرچوں کے بیچ بوتے۔
ایک قیدی کے وکیل کے ذریعے جب یہ بات امریکی میڈیا تک پہنچی تو مبصرین نے قیدیوں کی اس کوشش کو ان کی آزادی کی امیدوں سے تعبیر کیا۔ پینٹاگون کو اس کی خبر پہنچی تو انہوں نے فوراً حکم صادر کر دیا کہ حراستی مرکز میں یہ سب کرنے کی ہرگز اجازت نہیں۔ جواب میں قیدیوں کے وکلاء اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے احتجاج کیا کہ باغبانی جیسے بے ضرر کام سے بھلا امریکہ کی طاقتور فوج کو کیا خطرہ ہے۔ اس مسئلے پر امریکی فوج کافی عرصے تک شش وپنج کا شکار رہی۔ پھر فوج نے یہ سوچتے ہوئے کہ شاید اس سے گوانتانامو بے کا خراب عالمی تاثر بہتر کرنے میں مدد ملے، حال ہی میں محدود باغبانی کی اجازت دے دی۔
کیمپ ڈیلٹا چار کے دورے میں میرے بار بار اصرار پر فوجیوں نے ہمیں لے جا کر وہ جگہ دکھائی جہاں اب قیدیوں کو تھوڑی بہت باغبانی کی اجازت ہے۔ وہاں ہمیں کھدائی اور باغبانی کے لئے پلاسٹک کے چند چھوٹے چھوٹے اوزار پڑے ہوئے نظر آئے۔ مٹی نرم تھی لیکن اس میں زرخیزی نظر نہیں آئی۔ وہاں کوئی لہلہاتے پھول پودے نہیں لگے نظر آئے۔ جو دو چھوٹے چھوٹے پودے تھے، وہ سلاخوں اور خاردار تاروں کے پیچھے قیدیوں کی طرح مُرجھائے ہوئے تھے۔ امریکی فوجیوں کا دعویٰ کہ اپنے تئیں وہ تو فراخدلی کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن اب اگر قیدیوں کی طرف سے بوئے گئے ’امیدوں کے یہ پودے‘ گوانتاناموبے میں سورج کی تیز تپش نہیں برداشت کر پارہے تو اس میں ان کا کیا قصور؟
تبصرےتبصرہ کریں
السلام عليکم جیلانی صاحب، اميد ہے آپ ’وہاں بھي‘ خيريت سے ہوں گے۔ اميدوں کے پودے چاہے ’اس زمين‘ ميں نہ پنپ سکيں ليکن جن دلوں ميں يہ جڑ پکڑ چکے ہيں وہاں سے انہيں اکھاڑنا اب کسی کے بہی بس کی بات نہيں ہے
اللہ کرے آپ يونہی ان اميدوں کو زباں زد عام کرتے رہيں۔
گوانتانامو بے کي اصليت کيا ہے اور اس سے کيا حاصل ہوا ؟ قيديوں کے اپنےممالک ميں امريکہ کے بھاري اثر و رسوخ کي بدولت کيا واقعي اس کي ضرورت تھي؟
میرا تو اتنی رعایت کے بارے میں بھی یہ خیال ہے:
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
محترم، آپ کی تحرير سے صورت ِحال سے آگاہی ہوئی۔ خدا آپ کو خوش رکھے۔
رنج سے خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے غم مشکليں مجھ پر پڑيں اتنی کے آساں ہوں گئيں
بھائی شاہ زيب جتنا افسوس کيا جائے کم ھے۔ بس ان امريکيون کو خدا رحم کرنے کی توفيق دے۔
شاہ زيب جيلانی صاحب آپ کے بلاگ کا بہت شدّت سے انتظار تھا اور امريکی فوج کے رحم و کرم پر آپ کے لکھے بلاگ پر دل ايسے خون ہُوا کہ آج کی دُنيا کے بڑے اندر سے کتنے چھوٹے ہيں۔ ليکن شائد بلاگ ميں جگہ کُچھ کم تھی جواپنی آراء شامل نا ہوسکی۔ اگلي ڈائري کا انتظار تھا۔ سوچا شائد اُميدوں کے پھول کھل گئِ ہوں ليکن آج کی اس ڈائری کو پڑھ کر علم ہُوا کہ بنجر زمين ميں اُميدوں کے پھول کھلانا کوئی آسان کام تو نہيں جب کہ حالات بھي موافق نا ہوں۔ ہم اپنے اپنے گھروں کے سُکھی ماحول ميں بيٹھ کر اُن قيديوں کے دلوں کا حال کبھی بھی نہيں جان سکتے جو گھروں سے دُور عجيب زندگياں گُزار رہے ہيں اور ويسے بھی
جس تن لاگے وہی جانے۔
آگ کی شدّت کا اندازہ دور بيٹھ کر کيسے لگا سکتے ہيں۔