مشرق نے مغرب سے سیکھا
مغرب کے بارے میں عام تصور یہ ہے کہ یہاں سب کچھ ایک نظام کے تحت چلتا ہے، انسانی حقوق کا لحاظ ہے، مرد عورت کو مساوی حقوق حاصل ہیں اور ہر کسی کو اپنا حق ملتا ہے۔ کسی حد تک یہ سب صحیح ہے لیکن تیسری دنیا میں اگر اس حوالے سے مسائل موجود ہیں تو تاریخ کا مطالعہ کریں یہ سب باتیں مغرب کے راستے تیسری دنیا میں پہنچی ہیں۔
نسلی امتیاز ہو غیر امتیازی سلوک، انسانی حقوق کی پامالی ہو یا کسی کی آزادی چھین کر ان پر حکمران ہونا۔ یہ شاید مغرب نے ہی تیسری دنیا کو سکھایا ہے۔ لیکن جو بات تیسری دنیا نے نہیں سیکھی وہ یہ کہ بقول نوم چامسکی ’مینوفیکچرنگ کنسینٹ فیکٹریاں‘ ایجاد نہیں کیں۔ جب مشرق والے یہ ہنر حاصل کریں گے تو مشرق اور مغرب میں فرق خود بخود مٹ جائگا۔
ومبلڈن ٹنیس ٹورنامنٹ میں مرد عورتیں دونوں حصہ لیتے ہیں مگر انعامی رقم میں اتنا فرق کہ مساوی حقوق کے چمپیئن کہلانے والے اب یہ اعلان کرتے ہیں کہ یہ فرق مٹادیا گیا ہے۔ مغرب والے تیسری دنیا میں عورت کے غیر مساویانہ سلوک پر ہمیشہ چلاتے ہیں لیکن کیا مغرب میں ایسی ہزاروں مثالیں موجود نہیں ہیں۔ اگر مشرق میں خرابیاں ہیں تو مغرب بھی اس سے خالی نہیں۔ کوئی معاشرہ میں پرفیکٹ نہیں ہوتا مگر آپ خود اپنے معاشرے کی صرف خرابیاں گنیں یہ شاید زیادتی ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
نعيمہ صاحبہ، آپ کو مشرقی آداب ۔۔
وہ کہتے ہيں نہ دير آئے، درست آئے۔ ٰ ٰ
انسان کے سيکھنے کا عمل تو عملِ ارتقاء ہے اور ہميشہ ہی سيکھتا رہے گا بس ضرورت يہ ہے کہ اس عملِ خير ميں کوتاہی نہ ہو اور نيت نيک ہو۔ آپ اسی طرح مغرب کو مشرق کی باتيں سمجھاتی رہيں۔
پستيوں پہ نظر جمائے ہوئے
مائلِ حُسنِ ارتقاء رہيئے
اپنا اور اپنے مشرق کا خيال رکھيئے گا
یقین نہیں آ تا کہ یہ آ رٹیکل بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر آیا ہے۔ شاید نعیمہ احمد بہن نے نظر بچا کر پبلش کر دیا ہے۔
آپ کی رائِے کسی حد تک درست ہے مگر اس سے بھی اہم سوال يہ ہے کہ مغرب جتنی توانائياں مشرق کی کوتاہيوں کو اچھالنے ميں صرف کرتا ہے اتني توجہ نيک نيتي سےسکھانے ميں صرف کرے تو مشرق ومغرب کی تفريق ہی ختم ہو جائے۔
محترمہ آپ کس دنیا میں رہتی ہیں؟ ’کنسینٹ مینیفییکچر‘ کرنے کی ضرورت صرف آزاد معاشروں میں ہوتی ہے۔ تیسری دنیا میں تو تعلیمی نظام سیدھی سادھی ’برین واشنگ‘ کرتا ہے۔ اپنے خیالوں کا اظہار کرنے کے لیے برائے مہربانی چامسکی جیسے معتبر نام کا سہارا نہ لیجیے۔
اور یہ آپ کس تاریخ کا مطالعہ کررہی ہیں جس میں مشرق نے نسلی امتیاز اور انسانی حقوق کی پامالی کرنا مغرب سے سیکھا ہے؟ گویا مغرب کے آنے سے پہلے ہندوستان جنّت تھا؟ مغل بادشاہوں نے ہیومن رائٹس کمیشن قائم کر رکھی تھی؟
یہ مغرب کی نیچ تہزیب چھوڑیے: آپ کے مدرسے کو ضرور تاریخ کی استانی کی ضرورت ہو گی۔
نعيمہ جي! يہ معاملہ تو چھوٹی برائی اور بڑی برائی کا ہے۔ ہمارے ذہنوں ميں بھی يہی تصور ہے کہ مغرب ميں سب اچھا ہے اور وہاں دودھ اور شہد کی ندياں بہہ رہی ہيں۔ مسئلہ تعليم يافتہ ہونے اور مثبت رويوں کا حامل ہونا ہے۔ اسی ليے سماجی رويئے نماياں طور پر فرق کے حامل محسوس ہوتے ہيں۔ جنس کی بنياد پر فرق ہر جگہ ہے اور رہے گا۔
نعيمہ جی دل خوش کر ديا آپ کے آج کے اس بلاگ نے۔ يہ بات حقيقت ہے کہ ہم اپنوں کی صرف برائياں ہی کرنے کے عادی ہوگئے ہيں اور ديوار کے دوسری طرف والی کوئی بھی بات ہميں بہت بھاتی ہے ليکن ہو سکتا ہے يہ بھی ہمارے اندر کی کوئی اچھائی ہی ہو کہ ہم اپنے لوگوں کی اور زيادہ تربيت کرنا چاہتے ہوں اور اُس کا صحيح طريقہ شايد يہی ہو کہ ہم اُن کی بُرائياں کر کے سُدھار کا کوئی پہلو تلاش کر رہے ہوں۔ ہو سکتا ہے ميں يہ سب کُچھ بتا کر کوئی اپنی کمی چُھپا رہی ہوں کہ ہميں سچ مُچ اپنوں ميں ہی خرابياں نظر آتی ہيں۔ يہ بھی شايد ہمارے پيار کے ہی اظہار کا کوئی انوکھا طريقہ ہو ليکن جو بھی ہے آج مجھے احساس ہوا ہے کہ پيار کے اظہار کا يہ کوئی بہت اچھا طريقہ نہيں ہے اور يہ زيادتی ہے جو ہميں نہيں کرنی چاہيے۔ چليں پھر ٹھيک ہے آج سے ہم دوسروں کی بُرائياں کرنا شروع کرتے ہيں ليکن شرط يہ ہے کہ آپ اُسے دل پر نہ ليتے ہوئے سنسر نہيں کريں گے۔
آپ کی بات سو فيصد درست ہے ليکن ہمارے مشرق ميں تعميری تنقيد کی بہت کمی ہے۔ باقی مغربی معاشرے کی اپنی خرابياں ہيں۔
کبھی کبھی آپ نہايت اچھی باتيں کرنے لگتی ہيں اور حيران کر ديتی ہيں۔ آپ کا يہ بلاگ نہايت خوبصورت ہے۔ اس پہ داد نہ دينا زيادتی ہوگی۔
میرا ایک چھوٹا سا سوال ہے کہ کیا مغرب میں عورت کو گھر میں بیٹھا کر کھلا نے کو کوئی تیار ہے؟ سب کی یہی ڈیمانڈ ہوتی ہے کہ عورت گھر سے نکلے اور ہمارے ساتھ کام کرے تب ہی وہ قابلِ قبول ہے۔ جبکہ مشرق کا یہ حسن ابھی تک قائم ہے۔
آپ کے بلاگ پہ بس اتنا ہی کہوں گا کہ ’دل کے بہلانے کو غالب يہ خيال اچھا ہے‘۔
مشرق نے مغرب سے ان کی خرابیاں سیکھ لیں اور جب ان کی اچھائیاں سیکھنے کی باری آئی تو ہم احساسِ کمتری کا شکار ہوگئے۔
محترمہ نعيمہ صاحبہ آداب!
مشرق نے مغرب سے ضرور سيکھا مگر ظلم، ناانصافی اور امتياز
اور
مغرب نے جو ترقی کی ہے وہ سب مشرق کی تاريخ سے اخذ کيا گيا ہے۔
آپ کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے اتنا کہنگ چاہوں گا کہ ہمیں دوسروں کو برا کہنے سے پہلے اپنے آپ پر نظر ڈالنی چاہیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔
محترمہ، چھری سے سيب کاٹی يا قتل کريں يہ ہمارا مسئلہ ہے۔ .مغرب نے ساری دنيا ميں تعليم، صنعت، مواصلاتی نظام وغيرہ جیسے نظام دے کر اسے گلوبل ولیج بنا ديا ہے۔ اب ہماری يہ ذمہ داری ہے کہ کم از کم مغربی کھانوں کو حرام کا نام نہ ديں۔ دوسرے کے من پسند کھانے کو اس کے منہ پر حرام کہنا ہی سيکھا ہے ہم نے؟