اک مملکت بیداد
گجرانوالہ میں پنجاب کی خاتون صوبائی وزیر ظل ہما کا ایک جنونی کے ہاتھوں قتل بتاتا ہے کہ مملکت خداداد ایک بیداد ریاست میں تبدیل ہو چکی ہے۔
جنونی قاتل نے کہا ہے کہ وہ عورتوں کے حکومتی عہدوں پر فائذ ہونے کے خلاف ہے اور اس نے خاتون وزیر کو قتل کر کے ’جہاد‘ کیا ہے۔ اس سے قبل بھی مبینہ سیریل کلر غلام سرور مختلف وقتوں پر چار عورتوں کو قتل کر چکا ہے جن کے کیسوں میں عدالتوں نے اسے بری کر دیا تھا۔ ایسے جنونی قاتل کا ’لڈو ونڈدے کچہریوں‘ نکلنا خود پاکستانی حکومت اور عدلیہ میں بھی بیٹھے ہوئے ان غلام سروروں کا پتہ دیتا ہے جن کی عورتوں اور اقلیتوں کے بارے میں مخصوص دماغی کیمیا ہے۔ عدلیہ ہو کہ حکومت، سیاست ہو کہ صحافت، فوج ہو کہ پارلیمان یا بہت سے عوام الناس ان کے عورت کے معاملے میں ایسے خیالات اب ایک قومی نفسیات بن چکی ہے۔
اسی گجرانوالہ شہر میں کئي سال قبل ایک حافظ قرآن کو ان کے گھر سے گھسیٹ کر جنونیوں کے ایک انبوہ نے قتل کر دیا تھا۔ پھر وہی اقبال احمد والی بات کہ ان کو ’جنونی‘ کہنا لفظ جنون کی توہین ہے۔ یہ تو پاگل ہیں۔
کبھی ظل ہما تو کبھی ڈاکٹر یاسین، کبھی محمد یوسف تو کبھی سلامت مسیح تو کبھی گریش کمار کے سر ان جنونیوں کی جہاد اور جنت کے سفر کا زاد راہ ہیں۔ سرگودھا میں ایک عیسائي شہری کے قتل کے کیس میں ماتحت عدالت نے قاتل کو محض اس لیے بری کیا تھا کہ وہ داڑھی رکھتا تھا، پانچ وقتی نمازی تھا اور بقول جج ’ایسے شخص کی گواہی کیسے ناقابل اعتبار ہو سکتی ہے!‘
عورت وزیر اعظم نہیں بن سکتی کہ اس سے اقتدار اعلٰی کی کرسی ’نجس ہوجاتی ہے‘۔ نوے کی دہائي میں فوجی جنریلوں کو نجی گفتگو میں کہتے سنا گیا تھا۔ بینظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے دوران اسامہ بن لادن نے نواز شریف کو مالی مدد کی پیش کش کی تھی، اور وہ حکومت جو اپنی ایک خاتون وزیر کے تحفظ میں ناکام گئی ہو وہ عورتوں کے حقوق کے تحفظ کا جو ڈھنڈھورا پیٹ رہی ہے وہ محض مشرفی ڈھکوسلے ہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
اس مملکت بيداد کی داد نا دينا بھی زيادتی ہوگی۔ حسن صاحب کہ يہاں ہر کوئی اتنا زيادہ آزاد ہے کہ جب جب جو جو جی چاہے کر گُزرتا ہے، وجہ وہی ہے کہ ہم اپنے قول و فعل ميں اتنے خود مُختار ہيں کہ خود ہی فتوے ديتے اور اُن پر خود ہی عمل درآمد کرنے کے قابل ہيں پھر ارد گرد کے ماحول نے کُچھ اتنے عجيب وغريب قسم کے کٹّر خيالات دماغ ميں گُھسيڑ دئے ہيں کہ مثبت سوچيں دماغ ميں گُھسنے سے ہی انکاری ہو جاتی ہيں اور ايسے ميں اس طرح کے واقعات اتنے تواتر سے ہونے لگے ہيں کہ اپنی عدليہ پر بھی حيرت ہونے لگی ہے۔
حسن مجتبٰی بھائی بی بی سی کی سائٹ پر نہ لکھنے کا تحیہ کر رکھا تھا لیکن آپ کی تحریر پڑھ کر دوبارہ قلم اٹھانا پڑ گیا۔اب بھی زیادہ تبصرہ نہیں کروں گا صرف اتنا کہوں گا کہ آپ نے جو بھی لکھا ہے وہ سب صحیح ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ابھی پاکستان میں دقیانوسی ذہن کے مالک بہت سے افراد موجود ہیں۔ میرے قریب مسئلے کا حل یہ ہے کہ اس قسم کے ذہن رکھنے والوں کے لئے سپیشل عدالت ہونی چاہیئے اور جن ججز نے غلام رسول کو رہا کیا تھا ان کو انصاف کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فوراً برطرف کر دینا چاہیئے کیوں کہ مجرم خود سابقہ قتل مان چکا۔
حسن مجتبٰی صاحب، يہ اسٹيبلشمنٹ کے کرشمات نہيں تو اور کيا ہے کہ ايک حاضر سروس جرنيل صدرِ مملکت کے لاکھ شور مچانے کے باوجود يہ طرز فکر ختم ہونا تو کجا، مزيد زور پکڑتا نظر آتا ہے۔ مجرم ببانگ دہل اعترافِ جرم کر رہا ہے۔ چار قتل اس سے پہلے کر چکا ہے ليکن بعض رفاہي و تبليغی اداروں کي مداخلت سے بچ نکلا ہے اور تبليغی دورے پر بھيجا جا چکا ہے۔
کيا تبليغ کي ہوگی اس نے؟
لگتا ہے اس سے کسي کو بھي ... قطعي کوئي فرق نہيں پڑتا ہے۔
حسن صاحب! حالات کس نہج پر پہنچ چکے ہيں آپ کی تحرير اور خيالات سے بخوبی اندازہ لگايا جاسکتا ہے۔ تاہم افسوسناک واقعات کے در پيش آجانے کے باوجود بھی نہ ہی ہمارے رويئے تبديل ہوئے ہيں اور نہ ہی سوچ۔ فی الوقت ہماری حالت ايسی ہی ہے کہ ہم ايسے کبوتر کی مانند ہوچکے ہيں جو بلی کے ہاتھوں دبوچے جانے سے پہلے ہی آنکھيں بند کر کے سوچتا ہے کہ بلی اس پر رحم کھا کر اس کی جان بخشی کردے گی ليکن وہ اسے کھا جاتی ہے۔ يا پھر ہمارا مجموعی رويہ اس شتر مرغ کی مانند ہوگيا ہے جو طوفان کی آمد پر اپنا سر ريت ميں دبا کر يہ سوچ ليتا ہے کہ طوفان نہيں آئے گا۔ جن جالات و واقعات کا تذکرہ آپ نے کيا ہے وہ معاملے کی سنگينی اور مزيد ابتری کا عنديہ ديتے ہيں۔ حالات کچھ ايسا رخ اختيار کر رہے ہيں کہ اونچے محلوں کی جانب سے غريب و بے بس افراد کی جھونپڑی ميں چنگارياں پھيلانے والوں کو بھی اس کا خميازہ بھگتنا پڑ رہا ہے کہ آگ محلوں تک رسائی پاگئی ہے۔ يہ سوچنے اور مثبت سمت ميں عمل کرنے کا وقت ہے۔ اچھائی و بہتری کی اميد اسی صورت ميں ممکن ہوگی جب ہم اپنے رويوں ميں تبديلی لائيں۔ اس جانب توجہ کرنے اور قارئین کی توجہ مبذول کروانے کا شکريہ
مملکت خداداد کو مملکت بيداد ہونے کی سہی تشخيص پر آپکا شکريہ۔
عورتوں سے نفرت کے جزبہ نے کمزور مردوں کے دل ميں جگہ بنانے ميں ملائت کا بڑا کردار ہے۔ فوجی حکمرانوں کا بھی مادر ملت سے بينظير تک ہر آمر نے مخالفت کی۔
ميں نے انساں کو کيا قتل خدا کی خاطر
يہ عمل لے کر چلا روز کی خاطر
ان شيطان صفت قاتلوں جنہوں نے اس ملک کے شہريوں کے واسطے زندگی عذاب بنا دی ہے جو ملک کو تباہی کے دہانے تک لے آئے ہيں جن کے خوف سے شہری سہمے پھرتے ہيں جنت جانے کی توقعہ رکھتے ہيں۔
شيخ جی آپ کے ارادوں پر خود مشيعت کو شرم آتی ہے
آپ سجدے ميں سر جھکاتے ہيں حور جنت ميں کانپ جاتی ہے
اپنا خيال رکھيے گا
یہ ایک افسوسناک عمل ہے لیکن اس کا پس منظر دیکھیں تو اس کے پیچھے ضیا دور کے بارہ سال ہیں جن میں اس طرح کی تحریکوں نے زور پکڑا جس میں حد درجہ شدت تھی۔ کتنی عجیب بات ہے کہ جس مملکت میں اختلافات اس قدر شدید ہوں کہ ہم ایک دوسرے کو کافر سے کم نہ کہیں اس میں ہر جماعت کو ٹریننگ کیمپ کی اجازت تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر طرف بم دھماکے اور دہشت گردی شروع ہو گئی۔ میرا تو خیال ہے کہ علم نہیں بلکہ وہ لوگ اٹھ گئے جو علماء کہلانے کے حق دار تھے۔ اب بھی جب کسی جماعت پر ثبوت ہونے کے باوجود پابندی لگے یہ اس کی حمایت کرتے ہیں۔ کاش علماء کچھ سوچ سمجھ سے کام لے لیں تو دین پر ان کا احسان ہو۔