سڈنی شیلڈن: امریکی ابنِ صفی
امریکی لکھاری اور ناول نگار سڈنی شیلڈن فوت ہوگئے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہ میں نے ان کو پڑھا تھا اور شاید ہی ان کا نام سنا تھا۔ حالانکہ وہ پام اسپرنگس میں رہ رہے تھے جو یہاں کیلیفورنیا میں میرے شہر سے کوئی زیادہ دور نہیں ہے۔
میں ’لاس اینجلس ٹائیمز‘ میں ان کی موت پر شائع ہونے والی ان کی ’آبیچیوری‘ یا تذکرۂ حیات میں پڑہ رہا تھا۔ ’وہ سب سے زیادہ ترجمہ ہونے والے لکھاری تھے جن کی کتابوں کی ایک سو تیس ملین کاپیاں ایک سو اسی ملکوں اور چھپن زبانوں میں شائع ہوئيں جن میں پاکستان اور وہاں بولی جانے والی اردو زبان بھی شامل ہے‘۔ مجھے یہ بات بہت بھلی لگی کہ نہ صرف کسی امریکی مصنف اور ناول نگار کے لیے یہ کہا گیا تھا بلکہ بہت دنوں بعد امریکی میڈیا میں کوئی تو بات پاکستان کے بارے ’مثبت‘ چھپی ہے۔
اب مجھے یاد آیا کہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد کی کتابوں کی دکانوں اور فٹ پاتھوں پر بھی کے ناول بکا کرتے تھے۔ شاید اب بھی بکتے ہوں۔ عارف وقار سڈنی شیلڈن کو امریکہ کا ابنِ صفی کہتے ہیں۔ ابنِ صفی شاید پاکستان کے ایسے سڈنی شیلڈن تھے جن کی قلم کی کمائی ان کے ناشر کھا گئے۔ اب تو پاکستان میں جاسوسی حکومت اور جاسوسی میڈیا کا دور دورہ ہے۔
میں نے انٹرنیٹ پر ’‘ پر سرچ میں امریکی سادھو ’بابا رامپوری‘ کا نام تلاش کرنے کی کوشش کی تو انکی جگہ آ گۓ۔ مجھے وِکی پیڈیا پر ان کے بارے میں یہ پڑھ کر قطعاً حیرت نہیں ہوئی کہ انیس سو اسی کی دہائی میں آئي ایس آئي نے سراغ رسانی پر سیکھنے کے لیے ابنِ صفی کی خدمات حاصل کی تھیں۔
کل صبح ابھی بستر میں پڑا گئی رات میں دیکھے بکھرےخوابوں کا شیرازہ جوڑنے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ ’میں اسلام آباد سے محمد فلاں بول رہا ہوں سر! ایک ادنیٰ صحافی ہوں۔ آپ کے کالم پڑھتا ہوں۔ آپ جو آئی ایس آئی پر لکھتے ہیں اگر میں اسلام آباد میں ایسا لکھوں تو آپ کو پھر مجھ پر کالم لکھنا پڑے گا‘۔ اچھی بات جو انہوں نے مجھے بتائی وہ یہ تھی ’میری عمر ستائیس سال ہے‘۔
تبصرےتبصرہ کریں
حسن صاحب کبھی تو کوئی دلچسپ بلاگ بھی لکھ لیں۔
وہی باتیں کہ جن کا نہ کوئی سر ہوتا ہے نہ پیر۔ پتہ نہیں بی بی سی والوں کو کیا ہوگیا ہے۔
حسن مجتبی صاحب! آپ نے کمال مہارت سے کام ليتے ہوئے وطن عزيز کے ’غازی و پر اسرار بندوں‘ کا تذکرہ کر ڈالا جو واقعی بيک وقت دل جگر گردوں کا کام ہے۔
سڈنی شيلڈن بہت بڑے مصنف تھے۔ آپ کے مضمون پر آپ کا شکريہ۔ ايک بڑا انسان ہی دوسرے بڑے کي تعريف کرتا ہے۔ خدا نہ کرے کوئی مزيد صحافی حيات اللہ کی طرح آپکے مضمون کا عنوان بنے۔
واہ حسن بھائی آپ پھر بازی لے گئے۔ ايک عظيم رائٹر کو بہت اچھا خراج تحسين پيش کيا ہے۔ مايہ ناز ابن صفی کو بھی خراج عقيدت پيش کر ديا۔ آپ کا کالم ہے يا حالات کا کتب نما يا ميٹل ڈيٹيکٹر کہ خفيہ والوں کے استاد تک جا پہنچے۔
ابن صفی کی ياد دلادی آپ نے شکريہ۔ يہ وہ مصنف ہے جسے ميں نے اسکول کے زمانے ميں پڑھا ہے وہ بھی گھر والوں سے چھپ کر۔ ابن صفی نے بہت پہلے کہا تھا ’کيا يہ اعزاز کم ہے کہ ميں تکيے کے نيچے چھپا کر پڑھا جاتا ہوں اور کيا يہ کم ہے کہ لوگ ميرے ناول پڑھنے کے لئے اردو سيکھنے لگے ہيں‘ ابن صفی نے يہ جواب ان نقادوں کو ديا تھا جو ان کے ناولوں کو سرے سے مانتے ہی نہيں ہيں ادب ميں جگہ دينا تو کجا۔ عارف وقار صاحب اور پھر آپ نے سڈنی شيلڈن کو امريکی ابن صفی بتايا ہے۔ آپ کا بلاگ پڑھنے کے بعد ميں نے کتابوں کے بازار کا رخ کرنا ہے اور يہ ديکھنا ہے کہ آخر شيلڈن کی تحريروں ميں وہ کيا بات تھی جس نے کروڑوں لوگوں کو متاثر کيا۔ اب رہی بات ابن صفی سے سراغ رسانی سيکھنے کی تو اس بات پر مجھے قطعی حيرت نہيں ہوئی ہے۔ جو شخص زمين کے بادل لکھنے کے لئے پاگل ہوسکتا ہے اس کی ذہانت کا اعتراف تو کرنا ہی پڑے گا چاہے آئی ايس آئی والے ہی کيوں نہ ہوں اور رہی بات اس نوجوان کی جو آپ کی طرح لکھنا چاہتا ہے مگر اپنے آپ پر کالم لکھے جانے کے خوف نے اسے ايسا کرنے سے منع کيا ہے تو ہم اس نوجوان کو يہی مشورہ دے سکتے ہيں کہ آپ چپ رہيں اور شيلڈن کے ناولوں کا مزہ لوٹيں۔ کيوں اپنی جان کے پيچھے پڑے ہو؟
ابن صفی کا کمال يہ کہ سارے ہندوستان ميں پڑھا گيا بلکہ افغانستان تک دری ميں پہنچا۔ ہاں کاپی رائٹس اب لاگو ہونگے مگر جو ابن صفی کے ساتھ محض ايک ڈاٹ لگا کر اين صفی کے نام سے سرکوليٹ ہوئے ان کا حساب تب بھی نہيں ہوپائےگا۔