بھوتوں کی حکومت ہے
اگر پاکستانی حکمران اپنی امیج بنانے کے چکر میں ہیں تو کیا اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ موٹی موٹی رقم خرچ کر کے بیرونی ملکوں کے دورے پر جائیں اور عوام کی مشکلات کو نظر انداز کر کے انہیں اپنے حال پر چھوڑیں۔
پاکستان میں حالیہ بم دھماکوں کے دوران میں نے اسلام آباد میں اپنے ایک دور کے رشتے دار سے خیریت دریافت کر کے پوچھا کیا وہاں حالات اتنے ہی خراب ہیں جتنے ہمیں دور بیٹھ کر نظر آرہے ہیں۔
انہوں نے لمبی آہ بھر کر کے کہا خراب نہیں بلکہ انتہائی ابتر ہیں۔ لوگ بے یقینی کا شکار ہیں۔ بد دیانتی اور رشوت کا بازار گرم ہے۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔ ہماری سرحدیں کس کے کنٹرول میں ہیں کسی کو معلوم نہیں۔ کس کو کون اٹھاتا ہے اور کہاں لے جاتا ہے کوئی پرسان حال نہیں۔ جیسے اس ملک پر بھوت پریت کا راج ہے جو نظر نہیں آ رہا ہے۔ زندگی بڑی خراب ہے یہاں۔
ان کی باتوں کا یقین کرنا میرے لیے بہت مشکل تھا کیونکہ اگر ایسے حالات ہیں تو ملک کے حکمران بیرونی ملکوں میں جا کر اسلام کی امیج ابھارنے کے علاوہ فلسطین، عراق، ایران کے مسائل کو حل کرنے کے لیے در در کیوں بھٹک رہے ہیں؟ کوئی ڈیووس میں بہتر میعشت کا دم بھرتا ہے تو کوئی ’نیو انیشیٹیو‘ کا پیغام دیتا ہے۔
کیا گھر کے اندر کے مسائل انہیں نظر نہیں آتے یا وہ جان بوجھ کر انہیں پردے کے نیچے دبانا چاہتے ہیں؟ آپ کا کیا خیال ہے؟
تبصرےتبصرہ کریں
محترمہ و پياری نعيمہ بہن
اسلام و عليکم:
يہ ميرے ديس پر آسيب ہے يا بھوت کا سايہ
کہ رفتار تيز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ۔
مجھے آپ کی عزيزہ کا بيان اور آپکی تحرير دل کی آواز لگی۔ نجانے ان حکمرانوں کو يہ جو اپنے ملک اور عوام کے حالات تو ٹھيک کر نہيں سکے کيسےگمان ہے کہ کسی اور بگڑی صورتحال کو ٹھيک کر سکتے ہيں۔ غير ملکی آقاؤں کے ملازمين وہی چاہيں گے جو آقاؤں کو خوش رکھے۔
خدا آپکو صحت مند اور تندرستی دیئے رکھے۔
آپ اپنا خيال رکھيے گا
دعا گو عاجز
مياں آصف محمود
واشنگٹن
رياست ہائے متحدہ امريکہ
رہبروں کے ضمیر مجرم ہیں اور مسافر یہاں لٹیرا ہے۔
محبتوں کے چراغ گُل کر دو، قلبِ انسان میں آج اندھیرا ہے۔
نعيمہ مہجور صاحبہ
خيال پوچھ رہی ہيں آپ مگر اس کا ذمہ کون لےگا کہ خيال ظاہر کرنے والے محفوظ رہيں گے۔ آپ ہی کہتی ہيں کہ وہاں بھوت و پريت کا راج ہے اور آپ ہی حکمرانوں کے بيرونی دوروں کی داستان بيان کرتی ہيں۔ ويسے ايک بات آپ نے اچھی کہی کيا ؟ يہی کہ ايک موٹی رقم خرچ کرکے بيرونی دوروں اور شاہانہ مہمان نوازی کے مزے لوٹے جارہے ہيں۔ اور رہی بات اميج بنانے کی تو کون پرواہ کرتا ہے عوام جائيں بھاڑ ميں اور دنيا کا کياہے! کيا دنيا کو پتہ نہيں کہ کہاں کيا ہورہا ہے اور کون کيا کررہا ہے۔ کون کس کا کتنا غلام ہے۔ يہ بھی دنيا خوب جانتی ہے۔ جب سب جان ہی رہے ہيں تو پھر کاہے کا ٹینشن بھائی۔ ويسے بھی منا بھائی نے ٹینشن نہ لينے کا درس جو عام کر رکھا ہے!!!! آپ بھی ہلکان مت ہوئے گا
سجادالحسنين حيدرآباد دکن
خود فريبی کا ايک دور ہے جو مدہوش کیے ہوئے ہے۔ ساٹھ برس ہوگئے آزاد ہوئے۔ بجٹ متوازن کرنے کو آج بھي دوسروں کی چوکھٹ پر جا کھڑے ہوتے ہيں۔ اور بات کرتے ہيں عالمِ اسلام کی قیادت کی۔!
کسے بيوقوف بنا رہے ہيں؟
اپنے ليڈر ايسے ہی ہيں کہ دنيا کا ٹھيکہ لينا ہے مگر اپنے گھر نہ امن ہے نہ کسی کو تحفظ۔ کوئی پوچھے تو سب ٹھيک ہے کا راگ الاپنا شروع کردیں گے اور پوچھنے والے کو ہی ڈانٹ ديں گے۔
نعيمہ جی زندگی آسان کہاں ہے اور کس کی ہے جس طرح ہر گھر کے الگ الگ مسائل ہُوا کرتے ہيں بعينہ اُسی طرح ہر جگہ ہر مُلک کے اپنے اپنے مسئلے ہوتے ہيں ميں يہ بات صرف اس وجہ سے نہيں کہہ رہی کہ آپ نے کُچھ غلط کہاسب درُست ہے ليکن اپنے لوگ اپنے بہن بھائ اپنا مُلک خواہ کتنے ہی غلط کيوں نا رہے ہوں شايد ميں کُچھ غلط کہہ گئ ،غلط لوگ اور اُن کے خيالات ہُوا کرتے ہيں رشتوں يا مُلکوں کا کوئ قصور نہيں ہُوا کرتا عوام ہوں يا خواص وہی خود کو خدا بناکر پوجا کروايا کرتے ہيں اس وقت مُجھے صرف اس بات کا دُکھ ہو رہا ہے کہ ميرے مُلک کو بُرا کہا جاۓ اور ميں يہ برداشت نہيں کر سکتی بالکُل اُسی طرح جيسے اپنے بچوں کے ساتھ ماں خود جو بھی سلوک کر لے ليکن کسی اور کے مُنہ سے کُچھ بھی نا ہی سُن سکتی ہے نا ہی کسی اور کو کہنے کی اجازت ديتی ہے تو ميں کيسے کسی کو بھی يہ اجازت دے سکتی ہوں کہ کوئ ميرے مُلک کو کُچھ بھی کہے اب اگر جواب ميں آپ سے ميں يہ کہوں کہ آۓدن بھارت ميں ہونے والے ہندو مُسلم فسادات يا گُھٹالےاور ايسے بہت سے جھگڑے جن کی لائن لگائ جا سکتی ہے آپ کے مُلک ميں بھی تو ہوتے ہيں تو جوابی کاروائ کے طور پر يہ ايک کمينی سی حرکت ہو گی ليکن ميں ايسا کُچھ نہيں کہوں گی کيونکہ ہمارا آپ کا اس فورم کے واسطے سے ايک لکھاری کا رشتہ ہے اور ہم کيوں اس رشتے کو خراب کريں کيونکہ رشتوں کی معصوميّت اور پوترتا کو آپ اور ميں دونوں ہی خوب سمجھتے ہيں تو ان سياست دانوں کی سياست کو ان کے داؤ پيچوں کو ہم کيا سمجھيں گے جن کے دين دھرم صرف کرنسي نوٹ ہُوا کرتے ہيں نام مُختلف ہو سکتے ہيں کہيں پاؤنڈ کہيں ڈالر اور کہيں درہم و دينار اور روپيہ ہوتے ہيں يہی ان کے رشتے يہی ان کی محبتيں اور سب کُچھ ہوتے ہيں اور شايد نزديک کی نظر کُچھ کمزور ہوتی ہے اور ايسے ميں ظاہر ہے قريب کی چيزيں نظر نہيں آيا کرتيں اور شايد يہی اصل بات ہے اصل مسئلے کو درخور اعتنا ء قرار نا دينے کی
خوش رہيں خوشياں بانٹيں
سب کی خوشيوں کی دعاگو
شاہدہ اکرم
ا پ ٹھيک کہتی ہيں نعيمہ۔
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
بندگی میں بھی میرا بھلا نام ہوا
محترمہ نعيمہ احمد مہجور صاحبہ اسلام عليکم! کے بعد عرض يہ ہے کہ ميں آپ سے مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ ہماری حکومت کا اس وقت يہ عالم ،ہے کہ ايک بےحسی کی کيفيت ہے۔ لوگ بھوک افلاس، عرياني، فحاشی، بے حيائی، لاقانونيت جيسے مسائل سے دوچار ہيں مگر کوئی تحريک شروع نہيں کر سکتے۔ چونکہ فوجی جرنيلوں کا ڈنڈہ بڑا سخت ہے۔ تحريک چلانے کيلئے قيادت کی ضرورت ہوتی ہے اور اب مذہبی جماعتوں ميں بھی وہ والی بات نہيں رہی۔ سب لوگ پريشان حال ہيں۔ کسی کو کچھ سمجھ نہيں آرہا کہ کيا ہو رہا ہے آپکی بات ميں مجھے وزن نظر آتا ہے کہ جيسے بھوتوں کی حکومت ہو۔ بس اک خوف کا عالم ہے۔ کيا پتہ کونسی بات ايسی منہ يا قلم سےنکل نکل جائے اور دھر لئے جائيں۔ اللہ خيرکريں۔
ہم سب کو فخر کرنا چاہیئے کہ ہم اپنی پیاری فوج کی عظیم قیادت میں رہ رہے ہیں۔ ہمارے فرنٹیئر گارڈز کا شکریہ۔
نعيمہ جي! آپ نے اسلام آباد بم دھماکوں بارے کسی سے پوچھا۔ اور وہاں واقعی حالات خراب ہيں۔ ہميں ذرا غور کرنا چاہيے ۔ سال ابھرتا ہے کہ ملک ميں کہا ں حالا ت اچھے ہيں؟ اسلام آباد ميں تو کچھ ہی دن ہوئے، ميں قارئين کا دھیان بلوچستان کی گھمبير اور پر آشوب حالات کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ يہا ں گذشتہ 59 سالوں سے پاکستانی رياست کی ننگی جارحيت اب انتہا کو پہنچ چکي ہے۔ بلوچ قوم کا قتل عام جاری ہے۔ کون سے رياستی مظالم کو دہرائيں؟ ہزاروں کی تعداد ميں بلوچ صرف دورِ مشرف میں اغوا کيے گئے۔ بھٹو دور يا سابقہ فوجی جرنيلوں کے مظالم بھی ہمارے سامنے ہيں۔ گو کہ اس دور ميں ميڈيا تک خبروں کو آنے ہی نہيں ديا گيا تھا۔ ليکن ہميں( بلوچ قوم کو) اپنے پيارے نہيں بھولے ہيں۔
پاکستان کے بھوتو ں نے تاريخ سے سبق نہيں سيکھا ہے، 1971 ميں بنگلہ ديش کی عليحدگی سے بھی۔