بہت شرمیلا ہوں
آج صبح جب میری آنکھ کھلی تو سان ڈیاگو کے آسمان کے منظر کی کیا بات تھی! شاید ایسی ہی خوبصورت صبح کے لیے جوش ملیح آبادی نے کہا ہوگا:
’ہم ایسے اہل نظر کو قبول حق کے لیے
اگر رسول نہ آتے تو صبح کافی تھی ‘
جوش ملیح آبادی، جو مشاعرے میں پڑھتے پڑھتے رک جاتے اور پھر بھڑک کر کہتے ’ بخیلو! داد کیوں نہیں دیتے؟‘ خیر۔ آج جمعہ تھا اور میں بھی بمعہ کیمرہ اپنے بلاگ کے لیے کچھ نہ کچھ ڈھونڈھنے نکلا۔
میری گلی کی نکڑ پر ایک چرچ کی ملکیتی حدود میں عراقیوں کا چلتا ہوا ’لکر اسٹور‘ یا شراب کی دکان کل رات ہمیشہ کے لیے بند ہوگئی۔ مجھے اس کے بند ہونے پر دکھ ہوا۔ یہ لوگ عراق کی قدیم ’اسیرین‘ برادری سے تھے جو آرمینی زبان بولتے ہیں اور پرانے بابلی ہیں۔ کیتھولک عیسائی عقیدے کے یہ عراقی کالدئين کہلاتے ہیں جو صدام حسین کے ستائے ہوئے ہیں۔
سان ڈیاگو میں چرچ کے نیچے شراب کی دکان! سان ڈیاگو کیلیفورنیا کے سب سے زیادہ قدامت پسند علاقوں میں سے ایک ہے۔
’جیزس از ریزن آف دی سیزن‘ امریکی پرچم کے ساتھ ایک گھر پر ایسی تحریر والا بینر آویزآں تھا۔
میرے پڑوس کے ہوم لیسوں نے ایک کتی پالی ہے جو بھی ان ہی کی طرح بےگھر یا ہوم لیس ہے اور انہوں نے اسکا نام رکھا ہے ’سینٹ پالی گرل‘۔
جرمنی میں ہیمبرگ شہر میں سینٹ پالی ڈسٹرکٹ ہے جہاں میں بھی گیا تھا۔ ’ملاحوں کے عشق اور اس وطن کی بارش پر کوئی اعتبار نہیں‘ میں نے وہاں ایک نظم لکھی تھی۔ سینٹ پالی پنک تحریک کا گڑھ تھا جہاں کبھی بیٹلز بھی رہے تھے۔ مجھے ان ہوم لیسوں کے ذوق کی داد دینا پڑتی ہے۔
کاش میں سینٹ پالی گرل کی تصویر لے سکتا۔ میں اپنا کمیرہ جیسا لیکر گیا تھا ویسا ہی واپس لے آیا۔ کمیرے سے تصویر لینے، کسی سے ادھار اور محبت یا پھر سیکس مانگنے میں بہت ’شرمیلا‘ واقع ہوا ہوں!