’ٹاپو ٹاپ‘
میں نے کراچی کی مصروف شاہراہ طارق روڈ پر ایک مقامی دکاندار سے پوچھا یہ نذیر اسپورٹس کی دوکان کس طرف پڑے گی۔
’ایسا کریں آپ بالکل سیدھے جائیں۔ آگے ایک چوک آئے گا۔ چوک سے آپ ادھر کو مڑ جائیں۔ وہاں سے پانچ منٹ چلنے کے بعد نوید نوید کر کے ایک آدمی کا سگریٹ کا کھوکھا ہے۔ اس کی بغل میں سے پھر آگے مڑ جائیں اور پھر فوراً ادھر کو مڑ جائیں۔ بس وہیں کسی سے پوچھ لیں کہ نذیر اسپورٹس کہاں ہے۔
آپ ہکا بکا کھڑے یہی سوچتے رہ جائیں گے کہ ادھر سے مراد دائیں ہے یا بائیں؟ شمال ہے یہ مغرب؟ اور آپ کا حوصلہ اتنا پست ہو جائے گا کہ آپ اس دکاندار سے یہ پوچھنے کی بھی جرآت نہیں کریں گے کہ بھائی صاحب ایک دفعہ پھر بتا دیں کہ نذیر اسپورٹس کہاں ہے۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو وہ آپ کو پاگل یا سنکی سمجھے گا۔
میں نے روہڑی جنکشن پر شالیمار ایکسپریس کے کنڈیکٹر گارڈ سے پوچھا۔گاڑی یہاں کتنی دیر رکے گی۔
کہنے لگا یہی کوئی دس پندرہ منٹ، آدھا گھنٹہ۔۔۔
میں نے اوکاڑہ کے بس اڈے پر فیصل آباد جانے والی بس کے کنڈیکٹر سے پوچھا۔ ’کب چلے گی؟‘
’بس جی پچھلی بس کا انتظار ہے۔ جیسے ہی وہ آئی ہم ٹاپوں ٹاپ روانہ ہوجائیں گے۔‘
’مگر آپ تو روزانہ یہی کام کرتے ہیں پھر بھی کیا اندازہ ہے آپ کا، پچھلی بس عموماً کتنی دیر میں آجاتی ہے؟‘ ’اوجی مشین کا کیا بھروسہ۔ راستے میں سارجنٹ سمیت سو طرح کی پھٹیکیں ہوتی ہیں۔ آنے کو دس منٹ میں آ جائے۔ نہ آئے تو دوگھنٹے نہ آئے۔ آپ اپنی سیٹ پر بیٹھیں۔ آؤ جی فیصل آباد، فیصل آباد، ٹاپوں ٹاپ فیصل آباد، نان سٹاپ فیصل آباد۔۔۔‘
یحیی خان سے پوچھا گیا اقتدار کب منتقل ہوگا۔
’جب آئین بن جائے گا۔‘
آئین کب بنے گا۔
’جب سیاستداں چاہیں گے۔‘
ضیا الحق سے پوچھا گیا۔الیکشن کب ہوں گے۔
’نوے دن میں۔‘
نوے دن میں نہ ہوئے تو پھر۔
’پھر حالات و واقعات کی بنیاد پر فیصلہ کریں گے۔‘
پرویز مشرف سے پوچھا گیا وردی کب اترے گی۔
’اکتیس دسمبر دو ہزار چار کو انشااللہ۔‘
آپ نے انشااللہ کیوں کہا۔
’اگر اللہ نے چاھا تو۔۔۔‘
جس ملک میں طارق روڈ کے دکاندار سے لے کر صدرِ مملکت تک سب کا ایک ہی طرح کا مبہم رویہ ہو، وہاں مجھ جیسے لوگ پاگل، سنکی اور دیوانے نہ کہلائیں تو کیا کہلائیں۔۔۔؟