جب بھارت اور پاکستان کی کرکٹ ٹیمیں ایک دوسرے کے مد مقابل ہوتی ہیں تو کشمیر میں صورت حال برصغیر سے ہمیشہ مختلف ہوتی ہے۔ میچ کے دوران سڑکوں گلیوں اور گھروں کے اندر اتنی کشیدگی ہوتی ہے کہ آپ بار بار کھڑکی کی جانب دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ کہیں سیکورٹی والے تو نہیں آئے (یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سیکورٹی والے کیوں آتے ہیں)۔
جاری رکھیے
آپ کو کسی کی بات اگر پسند نہ ہو یا آپ کو اس کی شکل اچھی نہ لگے تو شاید اس کو قتل کرنا کوئی بُری بات نہیں۔ کم سے کم پاکستان میں۔ اور اگر اس قتل میں آپ 'مذہب' اور 'کافر' کے پہلو لے آئیں تو شاید لوگ آپ کو اس عمل پر شاباش بھی کہنا شروع کردیں۔ کم سے کم پاکستان میں۔
پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے قتل کے بعد پاکستان میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے ان کے قاتل گارڈ کی اس حرکت کو سراہا۔ کچھ لوگوں نے اس کی مذمت کی لیکن ڈرتے ڈرتے اور سہمے ہوئے انداز میں۔ اور اب وفاقی وزیر شہباز بھٹی کو بھی اسلام آباد میں ان کی گاڑی پر فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا ہے۔
اب دیکھتے ہیں کہ اس قتل کی کتنی مذمت کی جاتی ہے، نہ صرف سرکار کی طرف سے بلکہ عوام کی طرف سے بھی۔ بیالیس سالہ شہباز بھٹی وفاقی حکومت کے وزیر تھے، پاکستانی تھے، سیاسی اور سماجی کارکن تھے، انسانی حقوق اور انصاف کے لیے جد وجہد کرنے والے ایک شہری تھے۔ اب دیکھتے ہیں کہ ان کے بارے میں یہ سب کچھ کہا جائے گا یا صرف یہ کہا جائے گا کہ وہ عیسائی تھے اور (بقول جاہلوں کے) 'توہین رسالت کے قانون کے دشمن۔'
لیکن شہباز بھٹی کے قتل کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔ جنہوں نے دہشت گردوں کی بھر پور مذمت نہیں کی، جنہوں نے انسانی جان کا لینا برا نہ سمجھا بلکہ پھانسی اور سزائے موت کو صحیح کہا، جنہوں نے ملک کی مذہبی اقلیتوں کو ایک کمتر ذات سمجھا، جنہوں نے انتہا پسندوں کی مذمت نہ کر کے ان کی ایک طرح سے حمایت کر دی ، جنہوں نے خاموش رہ کر وحشیوں کو ان پر حاوی ہونے دیا، جنہوں نے اللہ رسول کا نام لے کر وحشیانہ حرکتوں کو صحیح قرار دے دیا۔۔۔
کیا عدم برداشت نے پاکستانی معاشرے کو دور جاہلیہ کے عرب معاشرے سے بھی بد تر معاشرہ بنا دیا ہے؟