مسئلہ کنٹریکٹ کا
کل رات کو مجھے موبائل فون پر ایک ٹیکسٹ میسیج ملا جس میں لکھا تھا کہ پاکستان کے پولیس اور فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی میں کنٹریکٹ پر کام کرنے والے افسران کا کیس سننے والے سپریم کورٹ کے بینچ کے تین میں سے دو جج خود کنٹریکٹ پر کام کر رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں جسٹس خلیل الرحمٰن رمدے اور جسٹس غلام ربانی شامل ہیں۔ عدالت نے حال میں اپنے ریمارکس میں کہا کہ پولیس اور ایف آئی اے میں اعلیٰ عہدوں پر ریٹائرڈ لوگ نہیں ہونے چاہیے۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پولیس میں ریٹائرڈ افسروں کو لگانا درست نہیں ہے تو پھر عدالت اعظمیٰ میں ریٹائرڈ ججوں کو لگانا کیسے جائز ہے؟
اور تو اور خود سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو ریٹائرمینٹ کے بعد کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا ہے اور ایڈیشنل رجسٹرار کے عہدے پر ڈیپوٹیشن پر ایک افسر کو لگایا گیا ہے۔
اس کے علاوہ گریڈ بائیس کے دو عہدوں فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کے سربراہ اور سپریم کورٹ کے 'انسانی حقوق سیل' کے سربراہ کے طور پر ایسے افراد تعینات ہیں جو خود سپریم کورٹ کے حکم کی وجہ سے ججوں کے عہدوں سے برطرف کیے گئے ہیں۔
سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کی صدر عاصمہ جہانگیر تو یہاں تک کہہ چکی ہیں کہ ایڈہاک/ ایڈیشنل جج بھرتی کرنا بھی غلط ہے۔ لیکن پاکستان میں ہونے والے ایسی ہی واقعات کے بعد دنیا بھر میں ہمارے ملکی حالات کے بارے میں یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے: جس کی لاٹھی اس کی بھینس'
تبصرےتبصرہ کریں
بڑا دلچسپ ہے۔ جو لوگ خود مکھن کھائیں وہ دوسروں کو سادی روّٹی کھانے نہیں دیتے۔ خدا ہماری قوم اور ملک پر رحم کرے۔
چونکہ حمام میں سب ہی ننگے ہوتے ہیں، لہذا سپریم کورٹ اور سپریم کورٹ بار کے انڈر گراؤنڈ ‘کارناموں‘ سے کوئی زیادہ حیرانگی نہیں ہوئی۔ البتہ اداروں کی منافقت کا پردہ ایک بار پھر بھرپور طریقے سے فاش کیا ہے اور جس کے لیے محترم اعجاز مہر صاحب یقینآ مبارک باد کے مستحق ہیں اس دعا کے ساتھ کہ ‘اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ‘۔
جو چاۓ آپ کا حسن کرشمۂ ساز کرے
اعجاز مہر صاحب ہر وقت پیپلزپارٹی کی لائن پر خبریں دیتے ہیں۔یہ بھی اسی کا کمال ہے۔تعصب کی پٹی اتار کر دیکھیں تو پتہ چل جائے گا کہ ایڈہاک جج کس طرح قوم کو انصاف فراہم کررہے ہیں اور پولیس و ایف آئی اے کے کنٹریکٹ افسران کس طرح حکمرانوں کو مال بنا کر دے رہے ہیں۔ویسے ایڈ ہاک جج بھی صدر زرداری نے ہی لگائے ہیں
جناب ایک آدھ ریاستی اداروں کے سربراہان یا ذمہ داران کا کنٹریکٹ / ایڈھاک پر ہونا چہ معنی دارد ، یہاں تو پورا ملک ہی کنٹریکٹ پر چل رہا ہے - جب ریاستی اخراجات پورے کرنے کے لئے جعلی کرنسی کا سہارا لینا پڑے تو کیا خیال ہے ملک و قوم کا مستقبل کیا ہوگا - دو وقت کی روٹی کو ترسنے والی قوم کے نمائندوں کے لیۓ تین ارب روپے کی خطیر رقم خرچ کر کے پر شکوہ پارلیمنٹ لاجز اور ان نمائندوں کو باحفاظت اور مکمل رازداری کے ساتھ اسمبلی حال تک لانے لے جانے کی غرض سے ایک محفوظ سرنگ کی تعمیر کا منصوبہ بھی شامل ہے۔
ابھی کنٹریکٹ عملداروں کی لمبی فہرست ہے پنڈی کی جانب کیوں انگلی نہیں اٹھائی۔
سلام- جناب ميں آپ کی راۓ سے متفق ہوں-
پاکستان ميں قانون کے رکھوالے ہی قانون شکنی کرتے آۓ ہيں-
ھم مساوی تعليم کی بات کرتے ہيں اس سے پہلے مساوی قانون تو دو اس لاوارث ملک کو-
جسٹس تو اپنی بات منوانے کے ليے آدھی رات کو عدالت لگاتے ہيں پر عام آدمی کو تو دن کی روشنی ميں بھی انصاف کی توقع نہيں-
خدا اس ملک کا حامی و ناصر ہو-
مہر صاحب! جن تعيناتيوں کی جانب آپ نے اشارہ کيا ہے شايد وہ عوامی مفاد ميں کچھ اچھا کام کررہے ہوں۔يہ پوليس والے اور ايف آئی اے والے کنٹريکٹ والے کيا گل کھلا رہے ہيں وہ سب کے سامنے ہے
مقبول رائے کے برعکس تصویر کا دوسرا رخ دکھانے پر ہم آپ کے شکر گزار ہیں جناب۔
یہی ہمارا المیہ ہے دوسروں کو نصیت خود کو فصیت
ايک جج اور عام انتظامی عہدے ميں فرق ہے _ دنيا کے ترقی يافتہ قوم امريکہ ميں اعلی عدليہ کے جج ساری عمر کے ليۓ تعينات کيۓ جاتے ہيں - يہ بات ہر کوئ جانتا ہے کہ پاکستان جيسے ملک ميں پوليس يا کسی بھی اور محکمہ ميں جہاں مال بنانے اور کرپشن کرنے کی چانسس زيادہ ہوتے ہيں وہاں سے کوئ بھی ريٹائرڈ نہيں ہونا چاہتا يا پھر سفارش کراکے دوبارہ بھرتی ہو جاتا ہے - ورنہ تو ايسے محکمے بھی ہيں جہاں سے ہوگ جلد از جلد ريٹائرڈ ہوجانا چاہتے ہيں اور کبھی کبھی تو غلط طريقے استعمال کر کے ميڈيکل ريٹائرڈمنٹ کرواليتے ہيں- اس ليۓ سونے اور عام لوہے کو ايک بہاؤ ميں اس ليۓ نہ ليا جاۓ کہ دونوں کا وزن برابر ہے۔
وہ کہتے ہاں نہ نیک کام کا آغاز گھر سے ہوتا ہے۔ عدلیہ کو بہت سارے اچھے کاموں پر سراہتے ہیں لیکن وہ اپنا توازن قائم نہیں رکھ سکی۔ اگر ایک ادارے کے لیے کوئئ رمدے اچھا ہے تو کسی دوسرے ادارے کے لیے کوئی اور رمدے صاحب اچھے ہوسکتے ہیں۔
چلتا ہے بھاِ ئی چلتا ہے ہہ پاکستان ہے ہہاں کویئ اہسا ادارہ یے جو ۱۲ فیصد عام آدمی کے حق میں ہوں؟
صحیح ہے مائٹ از رائٹ ہم غریب تو تماشائی ہیں۔
اس کا جواب تو چیف جسٹس صاحب دیں گے۔ مگر کیا وہ جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔
جو ہوتا ہے ہپونے دیں، لوگوں کا ان باتوں سے اعتماد اٹھ گیا ہے ۔ عام آدمی کو یہ نہیں پتہ ہوتا کہ وہ رات کا کھا نا کیسے کھائے۔ آپ کون سی بات کو لے کر بیٹھ گئے ہیں۔
بہت باريک ہيں واعظ کی چاليں لرز جاتاہوں آوازِ اذان سے
میرے بھائیو ایک سپریم کورٹ کے جج اور ایک پولیس افسر کی کارکردگی پاکستان کے حوالے سے بڑا فرق رکھتی ہے۔ اداروں کا بھی فرق کرنا چاہیے۔
چیف جسٹس بھی انسان ہیں آخر اختیارات کا کیا فائدا
بڑے افسوس کا مقام ہے کہ آپ کو بھی سافٹ ٹارگٹ ہی ملا نشانہ بازی کے ليۓ- جبکہ آپکا اصل نشانہ پنڈی والے ہونے چاہيۓ- جج اور ٹيچر کو کبھی بھی ريٹائر نہيں ہونا چاہيۓ، جبکہ وردی والوں کا معاملہ دوسرا ہے، انھيں دن رات بھاگ دوڑ اور سخت جسمانی محنت کرنی ہوتی ہے، اس ليۓ ہی وردی والوں کا ججوں اور ٹيچروں کے ساتھ موازنہ کرنا درست نہيں-
یہ جناب شیخ کا فلسفہ جو میری سمجھ میں نہ آسکا جو یہاں پیئو تو حرام ہے جو وہاں پیئو تو حلال ہے۔
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔
پيارے پاکستان میں پرابلم مفاد کا ھے
اسے وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو سب ٹوپی ڈرامہ لگتا ہے۔ جب پرویز مشرف نے پی سی او کے ذریعے جج بنائے تو وہ جائز ہے لیکن جب انہیں ہٹایا گیا تو وہ ناجائز تھا۔ اس طرح جو چیز پولیس یا دوسرے اداروں کے لیے ناجائز ہے وہ اپنے لیے جائز قرار دی گئی کیونکہ یہ تمام لوگ یہی سمجہتے ہیں کہ وہی مخلص ترین ہیں باقی صرف بربادی کے لیے ہاتھ پاؤ مار رہے پیں۔
.
ویسے آپس کی بات ہے کہ پنڈی نے ناٹو افواج کی با سلامت واپسی کا بندو بست بھی کرنا ہے ، ابھی ہماری مغربی سرحدوں پرآقاؤں کے لیۓ ایک بہت بڑی آفت کی پیشن گوئی کی جا رہی ہے ، ایسے میں پنڈی کو تو کم از کم شیر کی کھال پہنے رکھنا چاہیے نا کیا خیال ہے ؟
ميرے خيال ميں تو ريٹائرڈ لوگوں کا ايسی مُلازمتوں پر آنے ميں کوئ حرج تو نہيں ہے کہ ريٹائرڈ حضرات ميں قابليت اور سمجھداری کا معيار زيادہ ہوتا ہے کيُونکہ خاصا لمبا عرصہ ايک جگہ پر کام کرنے سے کام کی سُوجھ بُوجھ اور طريقہ کا ر سے واقفيت زيادہ ہوتی ہے تو کام ذرا جلدی کر سکتے ہيں۔ کيا سمارٹ دِکھائ دينے والے بابے آپ لوگوں کو پسند نہيں ہيں؟؟؟؟؟؟
ہمارے پاکستان ميں ہر ادارہ اور ہمارے اس وقت ہر MNA اور ہر ايک MPA کا شمار دنيا کے کرپٹ ترين لوگوں ميں اور اداروں ميں ہوتا ہے - ھم خود ہی انھيں لاتے ہيں - کيا خوب اپنيں ساتھ مزاق کر رہے ہيں -
مجھے حیرت ہے کہ جج اچھا کام کر رہے ہیں۔ دوسرا برا کام جسے تبصروں کی نہیں بات اصول کی ہے جو سب کے لیے ایک ہونا چاہیے۔