میری جہالت کا راز
میرا یہ مقولہ میرے ہی بارے میں ہے۔ لہذا آپ کو پہلو بدلنے، مٹھیاں بھینچنے یا گریبان میں گردن ڈالنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔
اب دیکھیے نا اکتیس برس پہلے جب میں صحافت کے ببولی جنگل میں نہیں اترا تھا تو اپنے تئیں خاصا پڑھا لکھا تھا۔ سترہ برس کی عمر تک ادب، تاریخ اور جغرافیے کی دو ہزار کے لگ بھگ کتابیں اور سینکڑوں رسالے چاٹ چکا تھا۔ روزانہ محلے کے دھوبی کی دوکان کے پتھریلے بنچ پر پڑے تین اخبارات چبا جاتا تھا۔
پھر میں دورِ جہالت میں داخل ہوگیا۔ سب ایڈیٹر بن گیا، رپورٹر بن گیا، اداریہ نویس بن گیا، کالم لکھنے لگا۔ ستھرے کپڑے پہن کر دفتر جانے لگا اور سکینڈلز، قتل و غارت، کرپشن، سیکس اور سیاسی منافقت کے خبری مینڈکوں سے بھرے کائی زدہ جوہڑ میں لت پت ہو کر گھر لوٹنے لگا۔ پتا یہ چلا کہ اردو کے ساڑھے تین سو الفاظ سے مداری پن دکھانےکا نام صحافت ہے۔
کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ میں بہت ذہین ہوں، قلم بہت رواں ہے، حالات کی نبض پر ہاتھ ہے، زبان پر عبور ہے۔ لیکن ان سادہ لوحوں کو یہ نہیں معلوم کہ دراصل وہی میرے کام آرہا ہے جو سترہ برس کی عمر تک پڑھ پایا۔
گزشتہ اکتیس برس کے دوران میں نے اس لالچ میں دو ڈھائی ہزار کتابیں جمع کیں کہ فرصت ملی تو پڑھ لوں گا۔ میں قسم کھاتا ہوں کہ ان میں سے بمشکل ڈھائی سو کتابیں پڑھ پایا ہوں اور ان میں سے بھی نصف کے بارے میں یاد رکھ سکا ہوں کہ ان میں کیا لکھا تھا۔ صحافت کے کوٹھے پر روز نئے خبری و واقعاتی تماشبینوں کے سامنے قلمی مجرا کرنے کے بعد جب میں شل ہو کر بستر پر گرتا ہوں تو سامنے کے ریک میں پڑی کتابیں بھی قہقہے لگاتے لگاتے نیچے گر پڑتی ہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
ديکھا ميں نہ کہتا تھا اس کا يقين مت کرنا اسے پيسے ملتے ہيں، اور آج تو حضرت چلے ہيں ماموں بنانے۔ايک جھوٹا سچا اعتراف کر کے بہت کچھ اگلوا ليں گے، ليکن ہم نے بھی کچی گولياں نہيں کھيليں، بن پڑھے گريجويٹ مداريوں کی فوجِ ظفر موج رکھتے ہيں جو برس ہا برس سے الفاظ سے کھيل رہے ہيں، بلکہ ہمارے ہاں جو بول نہيں پاتا اس مردِ شجاع کو وزيرِاعظم اور سب کچھ کيوں بتاؤں کہ ميری جہالت کا راز کيا ہے،تو ميرا ماما لگنائيں؟
میں بھی ایک صحافی ہوں، ایک اردو اخبار میں نیوز ایڈیٹر کے طور پر کام کرتا ہوں۔ یہ تحریر پڑھ کر ایسا لگا کہ جیسے میرا ہے تزکرہ ہو رہا ہے۔ صحیح کہا کہ صحافی کو مطالعہ کے لئے وقت بالکل نہیں ملتا، جو فارغ وقت ملتا ہے وہ بھی ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ دفتر جا کر حالات و واقعات ذہن میں ہوں۔
جب ميں شل ہو کر بستر پر گرتا ہوں تو سامنے کے ريک ميں پڑی کتابيں بھی قہقہے لگاتے لگاتے نيچے گر پڑتی ہيں۔
زندگی گزرنے کے ساتھ ساتھ دنيا کے ہر انسان کا تجربہ يقيناً بڑھتا ہے اور ايک مقام ايسا آتا ہے جب دنيا ميں پڑھائے جانے والے تمام مضامین، چاہے سائنس ہو يا آرٹس ايک ہی جسم کا وجود بن جاتے ہيں يعنی نوجوان طالب علم ان کو عليحدہ عليحدہ کے طور پر ہی ليتے ہيں۔ جب آپ کا تجربہ اور سوچ الماری ميں پڑی کتابوں کے برابر يا زيادہ ہوجائے تو کون ان کی ورق گردانی ميں وقت ضائع کرے گا اور اگر آپ کے ہاتھ ميں روانی ہے تو آپ بھی اس طرح کی سينکڑوں کتابيں لکھ سکتے ہيں اور بہرحال پرانی لکھی گئی کتابيں بھی تو انسانی تجربات کا نچوڑ ہيں جو کہ ايک علم کا انسان ميں نسل در نسل منتقل ہونے کا ذريعہ بنتی ہيں۔ ہاں اگر انسان ذہين بھی ہو تو عمر کے تجربات کو بلاگز کے ذريعے يا نثر، شاعری کے ذريعے بيان کرسکتا ہے۔ بلھے شاہ، شاہ حسين، سلطان باہو اور بہت سے ولی اللہ جنہوں نے لکھ کر انسانيت کی خدمت کی۔ ان کی تحريریں تجربات اور عمر گزرنے کے بعد ہی سامنے آئيں۔ يہ کتابيں نوجوانوں کے علم ميں اضافے کے لۓ ہوتی ہيں جبکہ چاليس سال کے اوپر کا شخص خود ايک کتاب ہوتا ہے اور وہ اپنے تجربات کا دوسروں سے موازنے کے لئے يا کسی انوکھی چيز ڈھونڈنے کی خاطر ہی کرے گا۔
آپ نے تو سب صحافیوں کی کلاس لے لی۔
مفصل تعارف کا بے حد شکريہ - ہم تو پہلے ہی آپ کي تحريروں کے قائل تھے۔ آپ کو فرسٹ کلاس فرسٹ رائٹر سمجھتے تھے۔ آج اور بھی متاثر ہو گۓ۔ کبھی افسانہ يا ناول نگاري کے متعلق سوچا آپ نے؟ آپ کي تحارير ميں واقعات اور کرداروں کي تصويرکشي کسي صف اول کے مصنف سے کم نہيں ہوتي اور بطور صحافی ان گنت دلچسپ کردار اور واقعات آپ کي نظر سے گزرے ہوں گے جو تخليقي مواد مہيا کريں گے۔ آپ اس پرضرور غور فرمائیےگا۔ کيا پتہ ايک کامياب اور تسکين آميز مستقبل آپ کا منتظر ہو ۔
بہت اعلٰی ہے۔ آپ بہترین مصنفوں میں سے ایک ہیں۔
اپنی صحافتی زندگی کو اتنے چھوٹے سے بلاگ میں سمو دینا آپ کا ہی کام ہے۔ الفاظ تو واقعی آپ کے آگے سر جھکا کے کھڑے نظر آٓتے ہیں اور کس لفظ کو آپ کہاں استعمال کر لیں یہ اُس لفظ کی خوش قسمتی ٹھہری۔ کتابوں سے علم صرف پڑھنے سے ہی نہیں آتا، ان سے محبت رکھنے سے بھی ان کی قدر کی جاسکتی ہے۔ آخر میں اگرآٓپ یہ سمجھیں کہ صحافت میں بہت جھوٹ ہے اور کتابیں سچ بولتی ہیں تو گزارش ہے کہ کتابوں سے رشتہ دوبارہ قائم کریں، بھلے ہمیں آپ کی تحریروں سے محروم ہی ہونا پڑے۔
یہ بہت خوب ہے ۔
ہاسٹل کے پرانے دن یاد ہوں گے "جب آتش جوان تھا"۔ آپ کے مشاہرے واقعی قابلِ تعریف ہیں۔
بات بہت حد تک ٹھيک ہے۔ مصروفيت مطالعہ کے درميان حائل ہے۔ اگر اتنے سينئر صحافی خود کو مجبور پاتے ہيں تو نئی کھيپ تو مطالعہ کے شوق سے ويسے بھی مبرا ہے اور اپنی جہالت ہی سے ناواقف۔ تو کس طرف صحافت اور ميڈيا لے جا رہے ہيں۔ مطالعہ کا شوق بہت عمدہ ليکن معياری کی بھی شرط ہے۔ اگر معياری نہيں تو جہالت ميں مزيد وسعت کا باعث بھی ہو سکتا ہے۔
جب بھی حقوق کی آواز کو منفی تاثر دے کر رد کيا جاتا رہے گا بگاڑ ہی ہو گا۔ بد قسمتی سے حقوق کو قتل وغارت اور تشدد سے دبانے کا عنصر دنيا ميں فروغ پا چکا ہے۔ جس کے معمار طاقتور قوتيں ہيں جو دنيا کے امن اور استحکام کے لئے ايک شديد خطرہ بھی ہيں۔ پاکستان ميں صرف اقتدار پر ايک مخصوص لابی کی گرفت نے ہر راہ ميں آنے والی قوت کو غداری کے الزامات عائد کر کے ديوار سے لگايا ليکن طرہ يہ کہ سزا بھی کوئی نہيں۔
وسعت صاحب! پتا نہيں کس نے آپ کا تعارف کروايا تھا جب آپ کو پہلی بار ريڈيو پر سنا تھا۔ وہ دن بی بی سی کے عروج کے دن ہوا کرتے تھے ، آٹھ بجتے ہی گلی محلوں ميں بی بی سی ريڈيو کی مخصوص موسيقی ايک سماں باندھ ديتی اور پڑھنے والے رضا علی عابدی، شفيع نقی جامعی، سارہ نقوی اور ہم سب کے پيارے سدو بھائی جو سنيچر کے دن شاہين کلب کا پورے ہفتے انتظار کرواتے، اس زمانے ميں آپ کی کھری کھری سی آواز پتہ نہيں کيوں ہميں کافی غير دلکش لگتی۔ ميں دل ميں سوچتا کہ بی بی سی والوں کو آخر يہ ہو کيا گيا ہے جو انہوں نے ايسی آواز والے شخص کو اپنی ٹيم کا حصہ بنا لياہے۔ ليکن وقت گذرتے اس شخص نے ثابت کرديا کہ نہيں بی بی سی آج بھی پرکھنے ميں چوکتا نہيں اور پھر بات سے بات اس بلاگ کے ذريعہ نہ جانے کيوں آپ نے کچھ سچی باتيں اُگلی ہيں۔ويسے ايک بات کہوں دھوبی کے پاس تو نہيں بلکہ چائے خانوں،گوشت کی دکان اور محلے کی لائبريری ميں ميں نے بھی اخبار چبائے ہيں اور تو اور ابن صفی کے ناولوں کو حفظ کرنے ميں بھی ميں نے کوئی کوتاہی نہيں کی ہے مگر قسم لے ليجيے جو آپ پہنچے کو بھی پہنچ پاؤں تو جناب يہ خدا داد ہے اور نہ پڑھنے کا غم مت کيجيے اور يونہی لکھتے رہیئے گا۔ ويسے بھی آج کل کے زمانے ميں کون کم بخت کتابيں پڑھنے کا وقت پاتا ہے بس اسی طرح گاہے گاہے آپ کی تحريروں سے بہت کچھ سيرابی ہوجائےگی۔ اللہ کرے زور قلم اور زيادہ۔
ميرے خيال ميں آج کل کامياب صحافت کا مطلب طاقت سے نہ الجھتے ہوئے نيم طاقتوں کو بھی سيف سائٹ سے بحث ميں لانا، الفاظ ميں اپنی لاچارگی کو کوسنا اور وہ بھی ذرا سی لفاظی کے فن کے ساتھ۔
ميں اتفاق نہيں کرتا ويسے تو ميری عمر اتنی زيادہ نہيں مگر آپ جيسے بڑے بوڑھے سينئرز سے سنا ہے کہ قبل از دو عشرے تک صحافت ايک مشن ہوا کرتی تھی مگر اب فيشن اور پيسہ کمانے کا ذريعہ سمجھی جارہی ہے۔ اس ليے پچھلے وقتوں ميں کتاب سے رشتہ استوار تھا لیکن اب ميری ريک ميں موجود کتابيں بھی مجھے منہ چڑا رہی ہوتی ہيں اور ميں اس ريک کے نيچے رکھے کمپيوٹر پر دفتری اسائنمنٹ پورا کرتا ہوں۔
"سب کمالات ہیں تخیل کے
ورنہ کچھ بھی نہیں حقیقت میں"
کسی بھی تحریر کی زبان پر عبور، قلم کی روانی اور ذہانت کا تعلق مطالعہ، تعلیم اور وقت کی دستیابی سے کہیں زیادہ قوتِ فکر، حساسیت، تجسس، تخیل، وجدان، داخلیت، تصورات، تنوع و ایجاد، بلند خیالی، بالغ نظری، وسیع النظری اور تنہائی پسندی جیسی داخلی خصوصیات کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ سب خصوصیات اکثر و بیشتر صرف اُنہی صحافیوں، کالم نگاروں، لکھاریوں، شاعروں، نقادوں اور تجزیہ کاروں میں پائی جاتی ہیں جو ناموافق و ناقابلِ یقین و تصور حالات و واقعات، غربت، جبر و تشدد، بیماری، افلاس، جاگیرداریت کے زیرِ سایہ پروان چڑھے ہوں۔ میر سے لے علامہ اقبال کا زمانہ اس کا گواہ ہے۔
رضا علی عابدی، وسعت اللہ خان، حسن مجتبٰٰی اور عامر احمد خان جیسے صحافی حضرات کے زمانہ کی صحافت رنگ، بود و نمائش اور سُرخی پاؤڈر سے پاک ہوتی تھی۔ برعکس اس کے، آج کی صحافت اور صحافی خبر اور تحریر کو "سنگھار میز" سے "غسل" دے کر فیصلہ کرتا ہے کہ یہ کس قدر جاندار ہوگی، کتنی اچھی لگےگی، کتنے دلوں کو اپنی طرف کھینچےگی۔ گویا آج کا صحافی اپنی تمام تر توانائیاں نئے خیالات تک رسائی کی کوشش، کوئی اچھوتا فلسفہ تراشنے کی جستجو، کسی منفرد اندازِ نظر سے دیکھنے کے بجائے محض قاری و سامعین و ناظرین کے بنیادی جھکاؤ اور مفادات کو جانچنے پرکھنے اور تلاش کرنے میں صَرف کر دیتا ہے تاکہ خبر، بریکینگ نیوز اور کالم و تجزیوں کو فیس بُک میں موجود "لائیک" بٹن کی طرح زیادہ سے زیادہ لوگ "لائیک" کرنے کی طرف مائل ہو سکیں۔ لکھنے کا مطلب یہ کہ اچھی تحریر صرف وہ ہوتی ہے جو خیال انگیز ہو، عام سطح سے بُلند شئے ہو اور اعلٰی سطح کا کاٹ دار لب و لہجہ رکھتی ہو اور جو قاری کو سوچنے پر مجبور کرے نہ کہ قاری کو سکھانے یا پَٹی پڑھانے کی کوشش کرے۔
باقی یہ کہ بی بی سی چونکہ ایک ورلڈ میڈیا ہے لہذا اس میں چاہے کسی نے اکتیس سال تک جوتے گھسائے ہوں یا جسے جوتے گھساتے ہوئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہی ہوئے ہوں، ان سب کی "جہالت" (پاپولیریٹی) کا راز صرف تین الفاظ ہی میں ہے یعنی "بی بی سی" کیونکہ "نام ہی کافی ہے"۔
خاکسار نہیں سمجھتا کہ محترم وسعت اللہ قلمی مجرا کرتے ہیں۔ ہاں البتہ جب ان کی سیلاب پر چالیس سے زائد اقساط ذہن میں لاتا ہوں تو یہ کہنے پر خود کو مجبور پاتا ہوں کہ آپ نے قلمی مجرا نہیں بلکہ "قلمی بازارِ حُسن" لگانے میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔