کیا اسے بھی سیاحت کہتے ہیں؟
پولینڈ کے تاریخی شہر کریکو میں سرکار کی جانب سے ملنے والی گائیڈ اینہ ولڈرسکا نے عشائیے پر اس سال جون میں دبئی کی ایک شہزادی کے اس تاریخی شہر کے طوفانی دورے کے بارے میں دلچسپ کہانی سنائی۔
یہ شہزادی اپنے خصوصی طیارے میں چند گھنٹوں کی سیر کے لیے آئی۔ اس کی کہانی سن کر حیرت ہوئی کہ کیسے کیسے لوگ سیاحت کے لیے آتے ہیں اور سیر کرنے کے کیسے کیسے طریقے ہیں۔ اس چالیس سالہ شہزادی کے ہمراہ اس کی دو بیٹیاں اور دو خادمائیں بھی آئی تھیں۔ ایک خادمہ شہزادی کی جلد کا ہر وقت خیال رکھتی اور اسے کریم وغیرہ وقتاً فوقتاً لگاتی رہتی جبکہ دوسری کھانے پینے کا اہتمام کرتی۔
گائیڈ کے مطابق شہزادی ڈالروں کا بیگ بھر کر لائی تھیں اور ہر کسی کو، جو بھی سامنے آتا اسے ڈالر دیتی جاتیں۔ ریسٹورانٹ کا دروازہ کھولنے والا ہو یا کوئی اور ہر کسی کی عید ہوئی۔ بھاگم بھاگ سیر کے علاوہ خریداری بھی ہوئی۔ مہنگے ترین جیولری سٹور میں ایک یا دو نہیں دس دس ہار خریدے اور واپس روانہ ہوگئیں۔ گائیڈ نے بتایا کہ وہ ٹور کے دوران صرف اتنا پوچھتی رہیں کہ کریکو مشہور ہے یا نہیں اور بس۔
اس دورے سے محسوس ہوا کہ جیسے عالمی کساد بازاری کا امیر عرب شیوخ پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا ہے۔ ایسی کہانیاں تو ہم سمجھتے تھے کہ شاید قصہ پارینہ بن گئیں ہوں گی لیکن سن کر حیرت ہوتی ہے۔ اسے بھی سیاحت کہتے ہیں کیا؟
تبصرےتبصرہ کریں
اس سارے قصے کا پس منظر لگتا ہے سيلاب ميں بڑھی ساکھ بھائی نہیں۔
کاش میں اس کا شہزادہ ہوتا !
ہارون رشيد صاحب! ساری بات تو پيسے کی ہے۔ جب دولت کی فراوانی ہو تو يہی کچھ سامنے آتا ہے جس کی آپ نے منظر کشی کی ہے۔ يہ تو اس لحاظ سے نام نہاد سياحت ہوئی نا بلکہ سياحت کے نام پر دھبہ اور محض رقم اجاڑنا۔
گزارش ہے آئندہ کوئی نہ آيا دبئی سے۔ آپ کی پولش گائیڈ پيٹ کي ہلکي نکلي۔ اپنے ساتھ دوسروں کی روزی پر بھي لات مار دی جن کی عيد ہوگئی تھی۔ رازداری کی قدر انگريز جانتا ہے۔ آپ کے ساتھي تصديق کريں گے کہ لندن کے اعلٰی ترين ہوٹل، مہنگے ترين سٹور اور اسپتال انہی سياحوں کے نسل در نسل اعتماد کا صلہ پا رہے ہيں۔
وہ شہزادی ہے اسلامی ملک کی يہ طوفانی سياحت تو ان کا ٹائم پاس ہے۔ حسد نہ کريں صبر کريں۔
اگر یہ سیاحت نہیں ہے تو پھر آپ ہی بتا دیں کہ کیا یہ ‘ہائیکنگ‘ ہے؟ سیاحت اور ہائیکنگ کے فرق کو مدِنظر رکھیں تو موصوفہ کی سیر سیاحت ہی میں شمار ہوتی ہے۔ بس اس سیاحت کو ذرا ہائی کوالٹی کی سیاحت کہا جا سکتا ہے۔ جو لوگ پیٹرول کے کنوؤں کے مالک ہوں، عالمی کساد بازاری کا وہاں گذر نہیں ہوتا اور یہ ایک عام سی بات ہے جو کہ بچہ بچہ جانتا ہے۔
دبئی بھی کساد بازاری سے متاثر ہوا تھا لیکن یہاں لوگ جانتے ہیں کہ بحالی ہوگی کیونکہ پاکستانی بدعنوانی کا پیسہ یہاں سیاہ دہن کی صورت آ رہا ہے۔
اللہ نے بعض لوگوں کو بہت زیادہ دیا ہے۔ یہ ان کا امتحان ہے کہ وہ یہ کن لوگوں پر خرچ کرتے ہیں۔
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ- دراصل دولت کی تقسيم کا يہ روائتی انداز ہے جو بلا کسی مطلب کے کيا جاتا ہے- شہزادی صرف دولت بانٹ کر اپنی فياضی ثابت کرنا چاہتی تھيں-
اس عالم رنگ و بو ميں ”بابر بہ عيش کن کہ عالم دوبارہ نيست”
کاش کہ یہ شہزادی کبھی پاکستان کے سیلاب متاثرین میں بھی ایسے ہی رقم بانٹتی۔
بہترین قومیں اپنی مدد آپ کرتی ہیں۔ وہ دوسروں کا انتظار نہیں کرتی ہیں۔ اس بارے میں خود سوچیں اور اپنے ہاتھ سے محض ایک روپیہ ہی دے دیں۔
محنت کر حسد نہ کر