میڈیا کی حد
دفتری مصروفیات کی وجہ سے سیلاب کے کوریج کے لیے قدرے دیر سے متاثرہ علاقے پہنچا تو اس دوران ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔
چارسدہ کو پشاور سے ملانے والی اہم شاہراہ پر ایک ٹوٹے ہوئے پل کو دیکھ رہا تھا کہ ایک شخص غصے میں آیا اور کہا کہ میں سڑک پر مت گھوموں سرکاری افسروں کی طرح اور نیچے ان تنگ ٹیڑھی میڑھی گلیوں میں جا کر اصل تباہی دیکھوں۔ اس کا کہنا تھا کہ میرے قدرے صاف کپڑوں سے اسے محسوس ہوا کہ میں ان گلیوں میں نہیں گیا۔
تو اسے میں نے اپنے چپل دکھائے کہ دیکھو یہ تمہارے چپلوں سے زیادہ کیچڑ سے بھرے ہیں۔ پھر اسے تھوڑا بہت یقین ہوا کہ میں متاثرہ مقامات تک گیا ہوں۔
تو ایک انداہ اس سے لگا لیں کہ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ میڈیا سیلابی ریلے کا پیچھا کر رہا ہے لیکن اس کے اوپر کے علاقوں میں تباہی کی وہ تصویر کشی نہیں کر رہا جو ان متاثرین کا حق ہے۔
ایک ٹی وی چینل کی شہہ سرخی تھی کہ نو لاکھ کیوسک پانی تونسہ پہنچ گیا۔ نو لاکھ کیوسک کتنا پانی ہوتا ہے مجھے نہیں معلوم۔ صرف اتنا معلوم ہے کہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن خیبر پختونخواہ کے لاکھوں متاثرین جس کرب سے گزر رہے ہیں وہ ایک حد تک ہی میڈیا میں دکھائی دے رہا ہے۔ یہ تاثر کس حد تک درست ہے؟
تبصرےتبصرہ کریں
میڈیا نے جو بھی تھوڑا بہت سیلاب سے متاثرہ افراد کو درپیش مشکلات اور سیلاب کی تباہ کاری دکھائی ہے وہ بھی غنیمت ہے۔ خاکسار نے دیکھا ہے اور گارنٹی دے کر کہتا ہوں کہ اکثر و بیشتر کی طرح اس دفعہ بھی ملکی نجی ٹی وی چینلز نے سیلاب کو جو کوریج دینی شروع کی وہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے صفحہ اول پر سیلاب سے متعلق ہر گھنٹے دو گھنٹے بعد اپ لوڈ ہونے والی ویڈیوز، خبریں، تصایر، تازہ ترین صورتحال، فیچرز، فورم، سیلاب زدگان کی کہانیاں وغیرہ کو دیکھنے کے بعد ہی شروع کی تھی۔ سیلاب پر کوریج سے زیادہ میڈیا نے اپنی عادتوں سے مجبور صدرِپاکستان ‘ہزایکسیلینسی‘ آصف زرداری کے دورہ برطانیہ کو موضوعِ بحث بنایا جو کہ ایک ذہنی طور پر میچور میڈیا کے شایانِ شان نہیں ٹھہر سکتی۔ میڈیا نے خیبرپختونخواہ کے متاثرین کی صحیح تصویر کشی نہ کرنے اور پنجاب کے استعمار کے پنجرے میں بند، نہ صرف بیک وقت بلکہ خالصتآ ملائیت و آمریت کی پیداور، سرمایہ داروں کے ٹولے اور آڑھتیوں کے جمگھٹے پر مشتمل ن لیگ نے سیلاب زدگان کی مشکلات و مصائب کا کوئی ادراک نہیں تھا سوائے فوٹو سیشن کروانے اور بیان بازی کرنے کے۔ اور اس بات کا زندہ جاوید ثبوت یہ ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریاں تو دس بارہ دن سے جاری ہیں لیکن لاہور کے مختلف چوراہوں پر مختلف پارٹیوں، این جی اوز، فلاحی تنظیموں اور مذہبی پارٹیوں نے ابھی کل سیلاب زدگان کے لیے امدادی کیمپ لگائے ہیں۔ گویا ‘رائے ونڈ‘، ‘منصورہ‘، ‘مُرید کے‘ اور ‘جوہر ٹاؤن‘ کو تب ہوش آئی جب پانی سر سے گزر گیا۔
ميڈيا کا کام تو صرف سيلابی ريلے تک ہے اور يہ درست بھی ہے کہ لوگوں کو باخبر رکھا جائے کہ آفت کی بنيادی جڑ يعنی جنگلی درندہ اب کہاں پہنچ گيا ہے۔ جو مارے گئے ان کی قسمت مزيد اموات کو روکنے کے ليۓ سيلابی ريلے کا پيچھا کرنا ضروری ہے۔ متاثرين کی تصوير کشی تو کافی ہو رہی ہے اور ميڈيا کر بھی رہا ہے آپ نے صرف ايک شخص کی برہمی پر بلاگ لکھ ديا سب کو تو آپ خوش نہيں رکھ سکتے۔ رہی بات باقی دنيا کی امداد کی تو کچھ ہو بھی رہی ہے ليکن دنيا اس کو سونامی يا زلزلے کی طرح آفت نہيں مانے گی کيونکہ اس چيز کا سب کو علم ہے کہ پاکستان ميں سال کے ان دنوں ميں ايسا ضرور ہوتا ہے اس ليۓ عوام يا حکومت کو پيشگی انتظامات کرنے چاہيئں يعنی مستقل منصوبہ بندی مثلاً ڈيم وغيرہ۔
ہر جگہ ہی جھوٹ چل رہا ہے۔ وزیر اعظم کو جھوٹے دورے کروا دیئے جاتے ہیں۔ اس آدمی کا غصہ ٹھیک ہی تھا۔ وہ آپ کے دورے کو بھی کاغذوں کا پیٹ بھرنے کا سامان سمجھ رہا ہو گا۔
ہارون بھائي- پاکستانی ميڈيا کا اپنا ايجنڈا ہے، ليکن بی بی سی نے جس طرح سيلاب کے بارے پل پل کی خبر دی ہے، اس کے باوجود اگر کوئی ناراض ہے، تو اللہ اس کی مدد کرے- ايک بات البتہ سمجھ نہيں آتی کہ ہمارے لوگوں کے دماغ ميں يہ باتيں نجانے کس نے ڈال دی ہيں کہ ہماری حکومتيں جنہيں ہم دن رات کرپٹ، نااہل اور نالائق کہتے رہتے ہيں، جو ميڈيا پر چلنے والی بدعنوانی کی خبروں اور فلموں کو ذرہ برابر اہميت نہيں ديتيں۔ وہ ميڈيا پر دکھائی جانے والی آفتوں پر لنگوٹ کس کے عوام کی خدمت کرنے کے ليے کود پڑيں گی۔ اس ليے ميڈيا پر دکھانے يا نہ دکھانے سے کوئی فرق نہيں پڑنے وال۔ عام لوگ جب تک حکومت اور بيرونی امداد پر بھروسہ چھوڑ کر اپنی مدد آپ کے اصول کو نہيں اپنائيں گے، اسی طرح خوار ہوتے رہيں گے۔
پاکستانی میڈیا بچپنے کے خوبصورت دور سے گز رہا ہے۔ سیکھ جائے گا آہستہ آہستہ انشاء اللہ۔
ہمارے آزاد ميڈيا کا ايک ہی مشن ہے کہ آئندہ انتخابات ميں پيپلز پارٹی بھاری اکثريت سے کامياب ہو۔ اسی ليے وہ لوگوں کو مصيبتوں ميں مبتلا دکھانے کی بجائے صدرصاحب اور حکومت کے خلاف پروپيگنڈے ميں مصروف ہے۔ اس کا نتيجہ يہ نکلے گا کہ لوگ آہستہ آہستہ بالکل بے حس ہوتے جائيں گے اور اليکشن کے نزديک انھی الزامات کو دوبارہ دہرانے پر ہنسيں گے۔ اگر يقين نہيں تو پنجاب ميں جہاں وفاقی حکومت کی حالت سب سے پتلی ہونی چاہيۓ، وہاں حاليہ ضمنی انتخابات ميں پڑنے والے ووٹوں کی گنتی کر ليں۔
ميڈيا ايک طاقت ور ميڈئم ہے۔ اسے مثبت اور منفی دونوں سمت استعمال کيا جا سکتا ہے۔ اچھی بات تو يہ ہے کہ ميڈيا کے باعث لوگ لمحہ لمحہ حالات سے آگاہ ہيں دوسرے حکومتی کار کردگی سے بھی آگاہ ہيں اور جعلی کارگزاری کے بھانڈے بھی پھوڑ کر اس موقع پر لوگوں کی بھونڈی حرکتيں بھی ديکھ رہے ہيں جو اس ملک کے عوام سے روا رکھی جا رہی ہيں۔ اب لوگ اتنا شعور رکھتے ہيں کہ حقائق کس سمت ہيں اس ليے آپ کو ديکھ کر اصل مسئلہ کی طرف توجہ دلائي۔ اب تو توجہ اس بات پر مرکوز ہونی چاہيے کہ اگر ڈيم بنا لئے جاتے تو کيا تباہی کا گراف اتنا ہی شديد ہوتا جتنا قوم آج جانی و مالی صورت ميں بھگت رہی ہے- اور سياسی بازيگر اس موقع پر بھی سياسي دکانيں چمکا کر امداد کے نام پر خالی ٹرکوں کےقافلے روانہ کرنے کے جالی ڈرامے کرنے ميں مشغول ہيں۔ مہذب دنيا نے جو امداد دي اقوام متحدہ اسے مانيٹر کرنے کے لئے نگران بھی بھيجے ورنہ امداد کی رقم بھی کسی جالی ڈرامے کی نظر ہو جانے کے شبہات رہيں گے۔ ويسے بھی بيرونی امداد اورسودے پاکستان ميں کوئی اچھی شہرت نہيں رکھتے۔ يہ ايک عليحدہ بحث ہے جس ميں شرفاء کی پگڑياں آ جاتی ہيں۔ تحقيقات سياسی ميدان کے کھلاڑيوں کو ڈھونڈتی ہی رہ جائيں گی اور کھيل نہيں ہو پائے گا۔
دوبیر کوہستان میں تباہی کا ایک منظر
جناب ہارون رشید صاحب! آپ نے بہت اچھے نقطے کی طرف قارئین کی توجہ دلانے کی کوشش کی ہے اور اس بارے میں بطورمیڈیامین میں یہ بتانا چاہوں گا کہ میڈیا موجودہ سیلاب میں اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھارہا ہے کیونکہ موسم کی پیشن گوئی سے لے کرسیلاب آنے اور اس کی تباہ کاریوں تک اور پھر متاثرین کی کیمپوں میں منتقلی سے لے کر وہاں پر متاثرہ جوڑے کی شادی تک کی میڈیا نے ہر ممکن حد تک ان کی کوریج کی ہے۔ لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں پر دیگر چیزوں کی طرح میڈیا کے بارے میں بھی شعور نہیں ہے کیونکہ عوام سمجھتے ہیں کہ میڈیا کوئی الٰہ دین کا چراغ ہے۔ میڈیا کا مقصد تو کوریج دینا ہے اور متاثرہ علاقے کے عوام کے مسائل اور ان کے حل کے بارے میں حکومت اور دیگر ذمہ داران کو مطلع کرنا ہے۔ اور یہ ضروری نہیں کہ ہارون رشید گلی میں جاکر کوریج کرے گا تو وہاں پر ریلیف کام شروع کیے جائینگے ریلیف کام ہو نہ ہو۔ ہارون صاحب نے اپنے ادارے کے حساب سے اور اس کی پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے کوریج کرنی ہے۔
آخر میں جو سوال آپ نے اٹھایا ہے تو اس کے جواب میں،میں یہ کہوں گا کہ میڈیا کالام سے لے کر کراچی تک سیلاب کا اس لیے پیچھا کر رہا ہے تاکہ سیلاب کے راستے میں آنے والے لوگوں کو پہلے سے آگاہ رکھا جاسکے اوروہ بروقت نقل مکانی کرکے اپنے آپ کو نقصان سے بچانے کی کوشش کرے اور ان لوگوں کا بھی میڈیا پر اتنا ہی حق ہے جتنا کہ خیبر پختونخوا کا ہے۔ اس دوران میں نے یہ دیکھا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا سمیت تمام میڈیا اگرایک طرف سیلاب کی پیشگی خبری چلاتا ہے تو دوسری جانب وہ کالام سے لے کر تمام متاثرہ علاقوں کا ذکر کرنے کے ساتھ ستاھ وہاں پر پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالنے میں تاخیر کے بارے میں بھی خبردار کرتا رہتا ہے۔
ماسوائے ايک دو چينلز کے، باقی سب نے سيلاب کی کوريج ميں کوئی کسر نہيں چھوڑي۔ نمبر ون ہميشہ کی طرح بی بی سی اردو ريڈيو اور انٹرنيٹ سروس رہي۔ يہ آفت ہی اتنی بڑی ہے کہ کسی بھی ادارے کے ليۓ کوريج مشکل ہوتي، بہرحال جس نے بھی اس مصيبت کو کم کرنے ميں اپنا کردار ادا کيا ہے ان سب کا شکريہ-
پاکستان خصوصا خیبر پختونخواہ بدترین سیلابوں سے گزر رہا ہے۔ مختلف ممالک مدد کر رہے ہیں ضرورت اس بیات کی ہے کہ یہ مدد انتہائی متاثرہ علاقوں سمیت ضرورت کے مطابق خرچ کی جائے۔
سوات، کانجو کبل اور دیگر علاقوں میں رابطہ پل تباہ ہونے کی وجہ سے مقامی لوگوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔