بات سمجھنے کی ہے
مشہور مورخ سمانترا بوس کشمیر کے بارے میں اپنی کتاب 'روٹس آف کانفلیکٹ پاتھ ٹو پیس' میں لکھتے ہیں کہ اگر بھارت نے رتی بھر جمہوریت ہی کشمیر میں اپنائی ہوتی تو حالات اتنے خراب نہ ہوتے، نہ بجلی یا پانی کے مطالبات آزادی کے جلوسوں پر منتج ہوتے، نہ بھارت نواز سیاسی جماعتیں مرکزی حکومت سے بدظن ہوجاتیں اور نہ کروڑوں روپے فوج کی تعیناتی پر خرچ کرنے پڑتے۔
یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ جس کانگریس نے بھارت کے کروڑوں عوام کو سنتالیس میں آزادی دلائی اسی نے بعد میں کشمیری قوم کی آزادی پر شب خون مارا، اُسی پارٹی نے کشمیر کی اندرونی خودمختاری کا وعدہ کر کے اُس کو چھین لیا اور اسی پارٹی کے دور اقتدار میں کشمیر میں سیاسی سازباز کے نتیجے میں کبھی امن قائم نہیں ہوا۔
کانگریس نے کئی مرتبہ نیشنل کانفرنس کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے ریاست کے اندر اپنی ساکھ قائم کرنا چاہی مگر ہر بار اس کی کوشش ناکام ثابت ہوئی۔ نہ جانے کشمریوں نے اس پارٹی کو ہمیشہ ناپسند کیوں کیا حالانکہ سابق وزیراعظم (ان دنوں آئین ہند کے آرٹیکل تین سو ستر کے مطابق ریاست میں وزیراعظم ہوا کرتا تھا) بخشی غلام محمد کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ نیشنل کانفرنس کے ورکروں کو کانگریسی بنا کر ان پر روپوں کی بارش کیا کرتے تھے۔
مبصر کا خیال ہے کہ کانگریس اور نیشنل کانفرنس کا گٹھ جوڑ ریاستی عوام پر ہمیشہ بھاری پڑا ہے، اس گٹھ جوڑ کی وجہ سے کشمیری نوجوان اسلحہ اٹھانے پر مجبور ہوگئے اور اسی گٹھ جوڑ نے کشمیر کے رگ و پے میں بھارت کے تئیں نفرت کا جذبہ بھر دیا۔
کانگریس کی قیادت اس بار مطمئن تھی کہ اس نےکشمیر میں پھر گٹھ جوڑ کر کے مسئلہ کشمیر کی سنگینی کو کافی حد تک کم کر دیا ہے، پاکستان کو 'دہشت گردی کی آڑ میں' کشمیر پر اپنے موقف پرگٹھنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا، عالمی برادری کو تجارت کے کنٹریکٹ دے کر خاموشی برتنے پر مائل کر لیا مگر حکمرانوں سے ایک بڑی چُوک ہوگئی کہ انہوں نے اپنی فوج یا سکیورٹی اداروں کو ٹریگر پر سے انگلی ہٹانے کے احکام نہیں دیے اور انہوں نے نہتے عوام پر گولیاں چلا کر حکومت کے لیے پھر مشکلات پیدا کردیں۔
خود بھارت کے کئی دانشور حکومت کو اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھنے کا مشورہ دیتے ہیں اور ریت میں سر چھپانے کے بجائے اس پر گہری سوچ وبچار کرنے پر زور دے رہے ہیں تاکہ اگر کچھ نہیں تو کم از کم اُن لاکھوں وردی پوشوں کو ملک کے دوسرے حصوں میں بنیادی کاموں پر مامور کیا جا سکتا ہے جو کشمیر کی گلیوں میں گزشتہ ساٹھ برسوں سے خود بھی مر رہے ہیں اور دوسروں کو بھی مار رہے ہیں۔ ملک کے جمہوری مستقبل کے لیے شاید یہ ایک بڑی ہیومن انوسٹمنٹ ہوگی۔
تبصرےتبصرہ کریں
آداب! اگر بات سمجھنے کی ہوتی تو پھر تو پاکستان بھی نہیں بننا چاہیے تھا۔ آج جو حال ملک کا ہے، اس سے تو یہی نظر آتا ہے کہ متحدہ ہندوستان ہر سیاسی، عسکری، اور عالمی سطح پر ہزار درجہ بہتر تھا۔ شکریہ۔
‘میرے لہو کی اُنہیں قدر کیا وہ جانیں کیا
جنہیں چراغ ملے ہیں جلے جلائے ہوئے‘
اگر کشمیری بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو بھارتی فوج چاہے آدھی کشمیری قوم کو ہی کیوں نہ قتل کر ڈالے کبھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ بھارت کو کشمیری قوم کا مطالبہ سننا ہو گا ورنہ یہ مسئلہ اس کی ترقی کے سارے خوابوں کو ہوا میں تحلیل کر کے رکھ دے گا۔
کشمير کا بھی پاکستان کی طرح خدا حافظ !
نجيب صاحب اگر پاکستان نا بنتا تو آپکا بھی وھی حال ھوتا جو انڈين گجرات ميں مسلمانوں کا ھوا
پھر بھی آپ کو باکستانی ھونے بر شرمندگی ھے تو براہ کرم سچر کميشن رپورٹ پڑھ ليجيے
کشمیری فوجی طاقت سے کبھی دب نہیں سکتے۔ ان پر ہندوستان نے 60 سالوں سے عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت آزادانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب راےء میں ہے۔ بے گناہ اور نہتے کشمیریوں پر ہندوستانی افواج کس جرم کی پاداش میں گولیاں برسا رہی ہے? کدھر ہیں انسانی حقوق کے علمبردار، دنیا کے نام نہاد منصف? امریکہ اور یورپ نے مسلمانوں کے لئے دوھرا معیار کیوں اپنا رکھا ہے۔ انھیں فلسطین اور کشمیر میں اسرائیل اور ہندوستان کی ریاستی دہشت گردی نظر کیوں نہیں آ رہی۔ یہی وہ نقطہ ہے جسے مسلمان سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور انھیں استعماری طاقتوں کے خلاف اُٹھ کھڑاہونا پڑے گا۔ ورنہ اس دنیا میں انکی کوئی جگہ نہیں۔ بھارت کشمیریوں کی پر امن تحریک کو سمجھنے کی کوشش کرے ورنہ کشمیری دوبارہ بندوق آٹھانے پر مجبور ہو جائیں گے۔
اھل جہاں کہتے ہیں کشمیر ہے جنت
جنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی
مسلمانوں کو بس يہ گٹھ جوڑ لے کر بيٹھ گئے۔ دوسروں پر غصہ نکالنے کی بجائے اگر اپنے غداروں کو قابو کرليا جائے تو باقی دنيا بھی بھلی لگے گی۔ ہميں دنيا اس ليے دشمن لگتی ہے کيونکہ ہم تفرقہ کا شکار ہيں۔
ہماری آرزؤں اور امیدوں کا محور و مرکز مملکت خداداد پاکستان ہے اور اس کا ثبوت وہ سبز ہلالی پرچم ہے جس کو تھامے کشمیری نوجوان بھارتی درندگی اور سفاکی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستانی حکومت کی کشمیر کے حوالے سے کمزور خارجہ پالیسی اور بار بار اپنے موقف میں تبدیلی سے کشمیریوں کے دلوں کو ٹھیس پہنچی ہے اور ہمارے دشمن ہمیں طعنے دے رہے ہیں کہ جس پاکستان کے ساتھ تم ملنا چاہتے ہو وہ ہمارے ساتھ تو دوستی کرنا چاہتا ہے۔ میری پاکستانی عوام سے التماس ہے کہ آپ ہمارے جذبات کو سمجھیے اور خدارا ہماری اخلاقی اور سیاسی حمایت سے منہ نہ موڑئیے۔ ہم اپنے دکھ کس کو سنائیں؟ اللہ پاکستان کو سلامت رکھے اور اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے محفوظ رکھے۔ نجیب الرحمان کے تبصرے سے دل کو کافی ٹھیس پہنچی ہے۔ کاش آپ کو آزادی کی قدر و قیمت کا پتہ چل گیا ہوتا تو ایسے نہ کہتے۔ افسوس صد افسوس۔
عدنان صاحب پاکستان کيا اس ليے بنايا تھا کہ گوجرہ جيسے واقعات ہوں۔
سکرپٹ کسی کے پاس نہيں ديکھا گيا۔ اداکار متعین کردہ کردار ادا کر کے چلے جاتے رہے۔ جتنا مال ان پر لٹايا گيا اگر معيار زندگی بلند کرنے پر خرچ ہوتا تو کوئی معترض نہ ہوتا۔ بصورت ديگر اگر پاکستان ہی سنگاپور يا ملائشيا بنا نظر آتا تو کشميری ديوار برلن کی طرح لائن آف کنٹرول روند کر آن ملتے۔
آزادی بہت بڑی نعمت ہے، ليکن پاکستان ميں شموليت؟ کيا کشميريوں کی عقل گھاس چرنے گئی ہے؟ پھر کہيں گے کہ ان خودکش بمباروں سے بھارتی فوجی بہتر تھے کہ شناخت تو ہو جاتی تھی۔ اگر پاکستان سے بچ بھی گئے تو جہاديوں کی يلغاروں سے کيسے بچيں گے، ايسا کبھی سوچا ہے؟ اگر کشميری اتنے بے خبر ہيں، تو پاکستانی ہی کچھ انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کريں۔ ميزبان اپنے گھر کو آگ لگا کر بھاگنے کی تياری کر رہا ہے، ليکن مہمانوں کو دعوت نامے بانٹنے سے باز نہيں آرہا۔
بھارت اور اس کی پشت پناہی کرنے والے ممالک کو سوچنا چاہیے کہ گزشتہ ساٹھ سال سے بھارت کشمیریوں کو اپنے ساتھ نہیں ملا سکا۔ بھارت سے آزادی کے لیے کشمیریوں کی جدوجہد اور قربانیوں کا سفر نسل در نسل جاری ہے۔ آخر بھارت کب تک کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ برقرار رکھ سکتا ہے۔ اس سے پہلے کہ کشمیر میں کشمیریوں کو جلانے والی آگ بھارت، جنوبی ایشیا کو برباد کر دے، عقل کے ناخن لو، وہ جنہیں عقل مند ہونے کا دعویٰ ہے۔