چور کی داڑھی میں تنکا
گلیشیئرز، دریاؤں اور صحرا کی کہانی تو چلتی رہے گی۔ ابھی جملہ معترضہ کے طور پر ایک قصہ سن لیجیے۔ جب میں چولستان کے صحرا اور لال سوہانڑا کے نخلستان کی سیر کے بعد بہاولپور سے ملتان کے لیے روانہ ہوا تو ایک ٹیلی فون آ گیا۔ دوسری طرف بہالپور پریس کلب کے سیکٹری نصیر ناصر صاحب تھے۔ انہیں شکوہ یہ تھا کہ یہ آپ نے اچھا نہیں کیا کہ آپ ہمارے علاقے میں آئے ہیں اور ابھی تک ہم سے ملے نہیں۔ سلام دعا کے بعد زیادہ رسمی جملے ان سے بن نہ پڑے اور وہ جلد ہی حرف مدعا زبان پر لے آئے۔ انہیں فکر مندی اس بات کی تھی کہ میں اگر بہاولپور گیا ہوں تو کس کس مدرسے میں گیا ہوں اور ان مدرسوں کی کیسی کیسی عکس بندی کی ہے۔
چولستان سے اسلام آباد تک آتے آتے بات کا بتنگڑ بن چکا تھا۔ بہاولپور میں میرے ایک میزبان تھے عامر غوری۔ ان کا فون آیا تو لہجے میں تشویش نمایاں تھی۔ معلوم ہوا کہ گزشتہ چند گھنٹے میں کئی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکار ان کے گھر آ کر پوچھ گچھ کر چکے تھے۔ بنیادی سوال وہی تھا جو بہاولپور پریس کلب کے سیکرٹری نے دوستانہ انداز میں مجھ سے پوچھا تھا۔
اگلے چھ گھنٹوں میں بہاولپور میں جس جس سے میری علیک سلیک ہوئی ان سب کہ حتی کہ اس ٹیکسی ڈرائیور کا بھی فون مجھے آ چکا تھا جس کے ساتھ میں نے بہت تھوڑا سا سفر کیا تھا۔ سوال وہی ایک تھا۔ اور سوال کرنے والے سامنے کی اس بات پر یقین کرنے پر آمادہ نہیں تھے کہ بی بی سی کا نامہ نگار چولستان کا نامہ نگار چولستان کے صحرا اور دریا کو دیکھنے اور ان پر کہانی لکھنے بھی آسکتا ہے۔
وہ جو ایک محاورہ ہے کہ سانپ نکل گیا اور لکیر پیٹتے رہ گئے۔ اس باب میں کچھ ایسا ہی ہوا۔ لیکن میرا سوال یہ ہے کہ آخر بہالپور کے مدارس میں ایسا کیا ہو رہا ہے جسے چھپانے کی ذمہ داری حکومتی انٹیلی جنس ایجنسیاں اس تندہی سے انجام دینے کی کوشش کر رہی ہیں؟ اور یہ کہ چور کی داڑھی میں تنکا کسے کہتے ہیں؟
تبصرےتبصرہ کریں
گلیشیئرز، دریاؤں اور صحرا کی کہانی میں چُپ کر کے، آہستگی سے ‘مدارس‘ کو گھسیٹ لانا ‘چور کی داڑھی میں تنکا‘ ضرور کہلایا جا سکتا ہے جس طرح کہ کوئی بلاگ ‘سازشی بلاگ‘ بھی ہوتا ہے۔ سمجھ تو آپ گئے ہی ہوں گے !!
میری بھی عمرگزری ہے انہی راہوں پہ چل کے
میں ٹھہرے پانیوں میں بھی بھنور پہچانتا ہوں
اس ميں تھوڑا قصور آپ کا بھی ہے- اگر آپ چولستان پہنچتے ہی ايک دو رپورٹيں لکھ ديتے تو کوئی بھی شک نہ کرتا- اتنے دن انتظار کے بعد تو ہميں بھی فکر شروع ہو گئی تھي- ملکی حالات اور جنوبی پنجاب کے بارے ميں خبروں کے بعد بی بی سی کے نمائندے کا وہاں گھومنا پھرنا اور سير کرنا ( يہ الفاظ آپ نے خود لکھے ہيں) دودھ کے جلوں کو چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پينے پر مجبور کر رہا ہے- بہرحال آپکی پہلی رپورٹ کا ابھی بھی انتظار ہے۔
آصف بھائی۔ پانی کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔
میرے خیال میں اس کو "چور کی داڑھی میں تنکا" کی جگہ "بات کا بتنگڑ" بننے سے روکنا کہیں تو مناسب ہوگا۔ پاکستان کی تصویر کو مسخ کرنے والے صحافی بھی کم نہیں ہیں۔ ہمارے اپنے ملک کے صحافی حضرات ایسی حرکات کرتے رہتے ہیں- اب یہ کام 'صحافی کے ضمیر' کی جگہ حکومتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو کرنا پڑ رہا ہے- آخر " دودھ کا جلا چھاچھ تو پھونک پھونک کر پیے گا"۔
شترمرغ ديکھا ہے آپ نے؟ کہتے ہيں خطرہ بھانپ کر ريت ميں سر دے ليتا ہے کہ بچ گيا - اب مجھے کوئی نہيں ديکھ رہا - خدا ہدايت دے اسي سوچ اور دوغلے پن نے يہ معاشرہ تباہ کر چھوڑا ہے اور ہم سمجھتے ہيں کوئي ہم سا چالاک نہيں۔ ہم نے سبھی کو بيوقوف بنا رکھا ہے -
کیا کسی ایجنسی والے نے آپ کو بھی فون کیا یا صرف دوسروں پر ہی اکتفا کیا؟ اگر آپ کو فون نہیں کیا تو کیوں؟ لگتا ہے آپ بھی۔۔۔۔۔۔ کام کروالینے کے بعد دوسروں کو مشکل میں ڈال دیتے ہیں۔
جس داڑھی میں آپ نے تنکا دیکھنے کی کوشش کی، کیا وہ داڑھی حکومت کے علاوہ کسی اور کی بھی ہوسکتی ہے۔ کیا آپ کی بھی تو ایسی ہی داڑھی ہوسکتی ہے؟ حقیقت پوری بیان کرنی چاہیئے ناکہ سیاق و سباق سے ہٹ کر صرف دودھ کی بلائی اتارنے کیلئے۔
خدا جانے بی بی سی والوں کا کیا ارادہ ہے؟ بس کوئی افواہ ہی ہو پاکستان کو بدنام کرنے کی، سچ بنا کے چھوڑیں گے. پتا نہیں پاکستان نے بی بی سی کا کیا بگاڑا ہے؟ انٹلیجنس والے سب سے پوچھتے رہے، نہ پوچھا تو آپ سے نہ پوچھا۔ کیسے بدھو ہیں بیچارے انٹلیجنس والے!
کمنٹس سے تو آپ کو پتہ چل گیا ہوگا کہ ایسی بات کرنا کتنا خطرناک ہے۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ بہاولپور میں صحافی تو کجا کسی غیرملکی کو لے جائیں تو چوبیس گھنٹے پولیس کا پہرا ہوتا ہے آج کل۔
پاکستان کو بدنام کرنا بی بی سی کا پرانا کام ہے۔ اس میں آپ کی کوئی غلطی نہیں۔
جناب کے سیر کرنے اور کہانیاں لکھنے پر تو کسی کہ شبہ شاید نہیں۔ کیا ہی بہتر ہو اگر جناب من لگے ہاتھ نصیرپور، جھل مگسی اور ڈیرہ بگٹی کی بھی سیر کر ڈالیں۔ کچھ کہانیاں وہاں سے بھی ہم سن ہی ڈالیں۔ اور اگر ہارون رشید کی طرح ذرا افغانستان کا بھی چکر لگا لیں۔ ہندوستان کے کچھ قونصلیٹ ہیں وہاں۔ اچھی رہے گی ادھر کے نظارے کر کے بھی۔ وزیرستان کی سیریں کر کر کے تو تھک گئے ہیں نا بی بی سی والے۔ اب جنوبی پنجاب ہی رہ گیا تھا۔ سندھ کی بھی یہی دہائی ہے۔
بی بی سی اردو کی ساری ٹيم (ما سواۓ ايک دو کو چھوڑ کر) جب اپنی دستياب صلاحيت پاکستان کو بدنام کرنے والی رپوٹوں کی تياری ميں لگاۓ گی تو پھراس طرح کے اقدامات تو کرنے پڑيں گے۔ پہلے سے ان گنت مشکلات کے شکار ملک کو مزيد پريشان نہ کريں تو بڑی مہربانی ہو گي۔
آصف بھائی کی ٹھکائی۔ ہا ہا
فاروقی صاحب!شکر کريں آپ لاپتہ افراد ميں شامل نہيں ہوئے۔جنوبي پنجاب آج کل پنجابی طالبان سے منسوب ہے
فاروقی صاحب!شکر کريں آپ لاپتہ افراد ميں شامل نہيں ہوئے۔جنوبي پنجاب آج کل پنجابی طالبان سے منسوب ہے
اللہ خیر کرے اس قسم کے بلاگ آنے کے بعد۔۔۔
مسٹر جمال کیا آپ واضح کرنا پسند کریں گے کہ کون چور ہے اور کون کوتول؟
بس آپ ايک فقرہ لکھيں اور خيريت سے گھر جائيں- کہ پانی کہيں نہيں ملا، نہ درياؤں ميں اور نہ لوگوں کی آنکھوں ميں-
یہ سب اداروں کی نگرانی میں ہی تو ہو رہا ہے تو ان کی تشویش بجا ہے۔ ویسے بھی پانی، غربت، سیاست دانوں اور ذخیرہ اندوزوں کے شکنجے میں سسکتی انسانی بے بسی جیسے موضوع تو پیدا کر دیئے گئے ہیں تا کہ آپ جیسے خبرنگاروکالم نگاروں کی توجہ ادھر ہی رہے لیکن پھر بھی دھڑکا تو لگا ہی رہتا ہے کہ اصل مدرسہ کہانی نہ کھل جائے۔ حکومت پنجاب تو پنجابی طالبان کے نام سے ہی غیض و غضب سے لال پیلی ہو جاتی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ آگے نیلا رنگ بھی آتا ہے۔ سمجھ تو گئے ہوں گے۔
ہر کوئی جنوبی پنجاب کا امن خراب کرنے پر تلا ہے اور آپ بھی۔۔
تبصرے پڑھے کے بعد آصف صاحب آپ کو تنکا اپنی ہی ڈاڑھی میں مل ہی گیا ہوگا؟
لوگ پاکستان کو اس کے حال پر چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟
آصف فاروقی صاحب آپ کو بہاولپور کی تو بہت فکر ہے لیکن اگر کبھی فرصت ملے اور بی بی سی کی پالیسیاں اجازت دیں تو امریکی ریاست کیلی فورنیا کا بھی دورہ کرلیجئے گا کہ جہاں سے گیری فالکز جیسے لوگ پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔
بحیثیت صحافی اب تو کسی حساس معاملے پرساتھیوں سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے ہم فرشتوں کو بھی کہہ دیتے ہیں ۔سنتے رہنا بھائیو۔