کس کو کیا ملا
بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کے دورہ کشمیر سے مختلف طبقوں نے مختلف امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں، اس کے باوجود کہ حکومت بھارت کے سامنے کشمیراب کوئی بڑا مسئلہ نہیں رہا ہے۔
بھارت نواز سیاسی جماعتوں کا خیال تھا کہ سنگھ جی اُن کی رہی سہی شبیہ بچانے کی خاطر اندرونی خودمختاری کا اعلان کرنے کی ان کی دیرینہ آرزو اس بار شاید پوری کریں گے۔
کشمیر کی حکمران جماعت نیشنل کانفرنس نے اندرونی خود مختاری کی خاطرکیا کیا جتن نہیں کئے کمیٹی بنائی رپورٹ تیار کی، بھارتی پارلیمان کو بھیجی ، کبھی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حلیف بنی کبھی کانگریس سے گٹھ جوڑ کرکے اپنی ساکھ بحال کرنے میں جُٹ گئی، سرحد پار جاکر خود کو ریلونٹ بنانے کی کوشش بھی کی افسوس نہ صنم ہی ملا اور نہ وصال۔صنم بلکہ پارٹی نے ہر بار اتنے زخم کھائے کہ وہ اب نہ بھرتے ہیں اور مندمل ہوجاتے ہیں۔ اُس پر ستم یہ کہ عوام کے بیشتر طبقے موجود ہ حالات کے لئے اسی پارٹی کو ہی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں
اپوزیشن پارٹی پی ڈی پی نے جنرل مشرف، حریت کانفرنس اور نیشنل کانفرنس کی پالیسیوں کا نچوڑ نکال کر سیلف رول کا روڈ میپ تیار کیا، ِاس کی جڑیں سرحد پار تک پیوست کرنے کی کوشش کی مگر بھارت کو مفتی سرکار کی کوئی ادا نہیں بھائی سوائے اس کے کہ اُس نے تین سال کے دورِ اقتدار میں حریت کو اریلونٹ بنادیا گوکہ جب بھی وادی میں حالات خراب ہوتے ہیں تو بھارت کومفتی سرکار کی یاد خوب ستاتی ہے اور ان کے روٹھ جانے کے غم میں ان کا فون بھی بجتا ہے۔
علیحدگی پسند قیادت انتظار میں تھی کہ سنگھ جی اب کی بار سنجیدگی سے مسئلہ کشمیر پر بات چیت کرنے کی دعوت دے کر انہیں پھر ریلونٹ بنائے گیں وہ کنکھیوں سے ٹیلویژن پر ہر خبر اور ہر خبر کے پس منظر کو تاک رہے تھے۔ سیکورٹی کے پیش نظر پوری وادی کے ٹیلیفون بند کردیئے گئے مگر حریت کے بعض رہنماؤں کے فون بسا اوقات بج رہے تھے۔انہیں سب کے فون ملے لیکن سردار جی کا فون نہیں آیا۔
من موہن سنگھ نےحریت قیادت کو بالائے طاق رکھ کر عسکریت پسندوں کو ہتھیار چھوڑ کر قومی دھارے میں شامل ہونے کی دعوت کیادی کہ "سرحد پار بھائیوں" کے چہرے نہ صرف کِھل گئے بلکہ اپنی مونچھوں کو تاؤ دے کر سردار جی کو دعا دینے لگے کہ آپ ہمیں بھولے نہیں حالانکہ وہ لوگ بھول گئے جنہوں نے پال پوس کر ہمیں پروان چڑھایا ہے۔
رہی بات عوامی طبقوں کی، وہ کشمیری سیاست سےاتنے بد ظن ہوگئے ہیں کہ انہیں منموہن سنگھ یا مقامی سیاست دانوں سے کوئی امید نہیں اور نہ اُن کی کسی بات پر اعتبار ہے۔وہ ایک نارمل زندگی گزارنے کا صرف خواب دیکھتے ہیں جہاں مچھل، شوپیان یا وامق فاروق جیسے واقعات نہ ہوں اور وہ عدم تحفظ کے احساس سے ذہنی مریض نہ بن جائیں کیونکہ انہیں بخوبی علم ہے کہ بھارتی میدانوں میں اس وقت گرمی کی شدید لہر جاری ہے جس کے باعث سیاست دانوں، غیر ملکی سفیروں اور کشمیر کے نام پر بننے والی دانشوروں کی بڑی کھیپ وادی کے پہاڑوں میں چند روز سستانے کے لئے آتی ہے حالانکہ ان کے آنے سے ٹوارزم کے ساتھ جڑے ہزاروں لوگوں کا روزگار سیکورٹی کے انتظامات، ہڑتال اور غیر اعلانیہ کرفیو کے پیش نظر چِھن جاتا ہے۔
مگر عام لوگوں کی کیا وقعت؟
تبصرےتبصرہ کریں
ايک کشميری ہونے کے ناطے، ميرا نہیں خيال کے کشمير کی آزادی اس انداز سے ممکن ہے، جس کے نعرے ہمارے بڑوں اور بزرگوں نے لگائے تھے، يعنی کشمير بنے گا پاکستان کا نعرہ، جو اب ايک فرسودہ سا جملہ بن کہ رہ گيا ہے۔ وصال صنم تو دور اب فراق يار کی ھوائيں چل رھی ھيں۔ کيا آپ کے خيال ميں آزاد کشمير کے موجودہ حکمرانوں کے ہاتھ جو سونے کی چڑيا، پچھلے پچاس سالوں سے لگی ہوئی ہے، کيا وہ اس کو دوسرے کشميريوں يعنی انڈين کشميروں کے ساتھ مل کر ايک ہی دن ميں پورے انڈے نکالنے پر آمادہ ہو جايے گي؟اور اگر ايسا ہو بھی جاے تو انڈين آرميی کے جنرلوں کے ڈيفنس بجٹ کا کيا ہو گا؟اور کيا کشمير کی حريت کانفرنس پاکستانی کشمير کے سياستدانوں کو کبھی ساتھ ملانے ميں کامياب ہو گي؟ کيا پاکستانی اور انڈين ايجنسياں سيلف گورننس کو کامياب ہونے ديں گي؟ان سب معملات کو حل کرنے کے ليے مزيد پچاس سال درکار ہيں، جب تک کشميری قوم کو ان معملات کی فکر ختم ہو جائے گي۔