'ایف بی' لیگ
لاہور ہائی کورٹ نے سماجی نیٹ ورکنگ ویب سائٹ فیس بک پر سے پابندی اٹھا لی ہے۔ اس سے کروڑوں پاکستان صارفین کو یقیناً فائدہ ہوگا۔ لیکن اصل خوشی شاید سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو ہو جو بقول ان کے اپنے مداحوں سے اسی ویب سائٹ کے ذریعے رابطے میں تھے۔ ان دو لاکھ مداحوں کو جواز بتا کر (جن کے بارے میں واضح نہیں کہ پاکستان سے کتنے تھے) سابق صدر کا کہنا تھا کہ ان کا وطن واپس لوٹنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہ پابندی عائد کی گئی تو سب نے کہا کہ ان کا انتخابی حلقہ متاثر ہوا ہے اور ان کی انتخابی مہم رک گئی ہے۔ اس کے علاوہ انتخابی تیاریوں کے ہی سلسلے میں صدر کی نئی مجوزہ جماعت کے اندراج کا عمل الیکشن کمیشن میں زیر غور ہے۔
انہوں نے تو اپنی جماعت کے لیے آل پاکستان مسلم لیگ کے نام کا انتخاب کیا ہے لیکن اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ کے نام سے ملک میں موجود دیگر سیاسی جماعتوں نے اس نام کی مخالفت میں انتخابی کمیشن کو درخواستیں دی ہیں۔ مخالفین میں مسلم لیگ نون، مسلم لیگ قاف، مسلم لیگ (فنکشنل)، نیشنل اور عوامی شامل ہیں۔
ان کے لیے شاید بہتر ہو اگر وہ اپنی مسلم لیگ کے ساتھ (ایف بی) نتھی کر دیں۔ ایف بی سے میری مراد امریکی تحقیقاتی ادارہ ایف بی آئی ہرگز نہیں بلکہ فیس بک ہے۔ ویسے جیسے ان کے تعلقات امریکہ سے ماضی میں رہے ہیں اس لحاظ سے اس نام سے ان کے سابق حلیف اور مستبقل کے ووٹرز دونوں خوش رہیں گے۔ سابق فوجی حکمران کی مدد آپ کس طرح کوئی بہتر نام تجویز کر کے کر سکتے ہیں؟
تبصرےتبصرہ کریں
اسلام علیکم! اگرچہ پرویز مشرف کے فلسفہ و خیالات و ذہانت و دوراندیشی و حاضر دماغی کے ملک میں بشمول خاکسار کے کافی لوگ دلدادہ ہیں لیکن ان کی جماعت کے کامیاب ہونے کا سوال اس لیے پیدا نہیں ہوتا کہ ان کی ‘میڈیا‘، ‘عدلیہ‘ اور ‘ملائیت‘ سے نہیں بنتی اور یہی تین ‘گروہ‘ ہیں جن کے تعاون کے بغیر ملک میں سیاست میں پاؤں جمانا ممکن نہیں۔ علاوہ ازیں ملک کی سیاسی جماعتوں نے پرویز مشرف کے خلاف ‘ایکا‘ کیا ہوا ہے۔
اگر حریف جماعتوں کو آل پاکستان مسلم لیگ پر اعفراض ہے تو مشرف صاحب اپنی جماعت کا نام آل انڈیا مسلم لیگ بھی رکھ سکتے ہیں۔ براستہ کارگل وہ انڈیا کے صدر تو نہ بن سکے مگر اس بہانے آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر بن جائیں گے۔
ميں حيران ہوں يورپ اور امريکہ ميں مقيم پاکستانيوں پر مشتمل پرويز مشرف کا واحد ووٹ بينک سواۓ مالي معاونت کے ان کي کيا مدد کر سکتا ہے ۔ يہ حضرات انہيں وہيں کيوں نہيں لے جاتے۔ ان کا عقد ثانی کروا کر شہريت کا مسئلہ کريں اور مقامي کونسلر کی نشست سے شروعات کرکے ان کي قائدانہ صلاحيتوںسے مستفيد ہوں۔
پاکستانی سياست ميں مسخروں کی کمی ہے جو قوم کو ايک تحفہ ديا جا رہا ہے؟
مجھے سمجھ نہیں آتی پاکستان آ کر مشرف نے کرنا کيا ہے جبکہ آپ اپنے مداحوں سے انٹرنيٹ پر رابطہ کر کے دل بہلا سکتے ہيں۔ دوسرے پاکستان جانے ميں رسک بھی ہے۔ بے نظير نوازشريف نے واپس جا کر کيا پايا اور آپکے ساتھ تو ويسے بھی آئين روندنے کی کارروائی چپکی ہوئی ہے۔ سو کوئی پرندہ بھلا کيوں صياد کو لپکے گا۔ اللہ اللہ کريں۔ اپنے گناہوں کی معافی مانگيں اور يہ شعر پڑہ کر اپنی قسمت پر راضی رہيں۔
جنرل کو دکھ کيانی سے نہ زردار سے گلہ
قسمت ميں صدری لکھی نہ تھي وردی اتار کے
ہارون صاحب! آپ نے بڑی چالاکی سے سابق مطلق اعنان حکمراں کی مددکرنے کی کوشش کر ڈالی ہے کہ لوگوں سے ان کی جماعت کے ليے نام تجويز کروا رہے ہيں۔ انکو سوچنا چاہئيے يہ اپنے دور اقتدار کے کس کارنامے کے بل بوتے پر سياسی جماعت بناکر عوام ميں آ رہے ہيں؟حالت يہ ہے کہ ان کی تخليق کردہ جماعت ق ليگ والے ان کو بطور سربراہ جماعت قبول کرنے کے ليے تيار ہی نہيں۔ ميں ان کی مسلم ليگ کے ليے نام تو تجويز نہيں کرتا مگر يہ بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ مسلم ليگ شروع سے ايک دوشيزہ لونڈی کی مانند رہی ہے جو ہر کسی کے پہلو ميں ’جبراً‘ منتقل کی جاتی رہی ہے۔خواہش مچل رہی ہے کہ مشرف صاحب اپنا پہلا جلسہ بطور سربراہ مسلم ليگ لال مسجد چوک پر کريں اور اس سلسلہ کو کراچی کی شاہراہ فيصل تک پھيلائيں جہاں بارہ مئی کے شہدا کا خون نا حق بہا تھا۔ مزيد ہمت ہو تو انگور اڈا شمالی و جنوبی وزيرستان ميں ميرے ہم وطنوں کہہ کر دکھائيں۔چاروں صوبوں ميں يکساں مقبوليت کے دعوے کو سچ ثابت کرنے کے ليے ڈيرہ بگٹی ميں فکر انگيز خطاب کر کے دکھائيں۔
ہارون صاحب! مشرف صاحب کو چاہئيے کہ وہ اپنی ليگ کا نام مسلم ليگ ’غازي‘ رکھ ليں کيونکہ يہ نام ان کے مخصوص پس منظر کی وجہ سے ان کو سوٹ کرے گا اور انکا حلقہ نيابت بھی بنے گا۔ان کو ان کے سابق غازی و پراسرار بندوں کی سرپرستی حاصل رہی تو موجاں ہی موجاں۔ان کے معتمد خاص طارق عزيز اس کارروائی ميں مہارت رکھتے ہيں، ان کی خدمات بھی حاصل کی جا سکتی ہيں۔يہ تو ان کے بائيں ہاتھ کا کمال معلوم ہوتا ہے کہ راتوں رات وفادارياں تبديل کروا ليں۔
غریب مشرف کو میں خواب دیکھنے سے روک نہیں سکتا۔ مگر میرا مشورہ ہے کہ کوئی سماجی جماعت میں شمولیت اختیار کر کے دل کو سکون بہم پہنچانے کی کوشش کی جائے، شاید افاقہ ہو۔
ہارون بھائي، مشرف موجودہ اور آئندہ حکمرانوں سے لاکھ درجہ بہتر حکمران اور انسان ہے۔ اس کا بس ايک ہی قصور تھا کہ اس نے اپنی حکمرانی کی معياد پوری کرلی تھي- اور جس کی معياد پوری ہو جائے، تو کرسي کے اميدوار اسے ايک دن بھی ٹکنے نہيں ديتے۔ حالانکہ ملک و قوم کی بہتری اسی ميں ہوتی ہے، کہ جس نے کھا پی کر پيٹ بھر ليا ہو، اسے ہی رہنے ديا جائے- ايسا شخص تو دو وقت کی روٹی اور تھوڑی سی پروٹوکول پر بھی ملک و قوم کی خدمت پر تيار ہو جاتا ہے، جبکہ نئے آنے والے نے اپنی جيل اور جلاوطنی کے تمام خرچے پورے کرنے ہوتے ہيں۔
کل کا بھولا اگر آج آ جاے تو اُسے بھولا نہیں کہتے۔ جنرل پرویز مشرف کو اس چیز کا احساس ہوگیا کہ سیاست اور سیاسی جماعت کے زریعے ہی حکمرانی کرنا درست راستہ ہے۔ اب میرا سوال جنرل پرویز مشرف سے یہ ہوگا اگر آپ کی جماعت پاکستان میں واضع اکثریت سے جیت حائے اور آپ حکمران بن جاؤ اور حاضر سروس جرنیل آپ کی حکمت کو بغیر کسی وجہ کے ختم کر دے اور آپ کے ساتھ وہ سلوک فرمائے جیسا آپ کرتے رہے تو آپ کو کیسا لگے گا؟
اس کو مشلم ليگ کا نام ديں۔
پرويز مشرف 2007 کے تمام ملکی و بين الاقوامی تجزيات کی رو سے ملک کے سب سے مقبول ليڈر تھے- مشرف دور ميں پاکستان ميں پچھلے ساٹھ برس سے زيادہ ترقی ہوئي- جن غريبوں کو علاج کی غرض سے ہسپتال ميں ايک سوئی بھی باہر سے خريدنا ہڑتی انہيں کو مشرف دور ميں جديد ايمبولينس نظام فراہم کيا گيا اور ہسپتال ميں غريب کا پيچيدہ سے پيچيدہ آپريشن مفت ہونے لگا جس کا ماضی ميں کبھی تصّور بپی نہيں تھا- غريب کے بچّے کو کتاب ، يونيفارم مفت ملنا شروع ہوئی اور فيس بھی معاف -- اور تو اور کچھ سکولوں ميں دودہ تک فراہم کيا جاتا- مشرف دور ميں پسماندہ طبقے کے سکول ٹيچرز اور کلرکوں کی تنخواہوں ميں تين دفعہ اضافہ کيا گيا- ترقياتی ادارے جيسے واسا وغيرہ کو ملکی تاريخ کا سب سے بڑا فنڈ ديا گيا جو مشرف دور ختم ہونے کے دو سال بعد تک ابھی تک پوری طرح استعمال نہيں ہوا- مشرف کو ملک ميں پی ايم ايل کيو، اور ايم کيو ايم سميت کئ بڑی بڑی سياسی پارٹيوں کے کڑوڑوں ووٹرز کی حمايت حاصل رہي- ميں نے اپنی ہوش ميں ضيا سے لے کر نوازشريف تک دور ديکھے اور بقيہ کے بارے ميں خوب پڑھا اور يہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ قائداعظم کے بعد پاکستان کا بہترين رہنما پرويز مشرف تھا- مشرف گاندھي،کاسترو،قائداعظم اور چوين لائی کے کيليبر کا ليڈر تھا - اور اس کی حکومت اور ليڈرشپ کا وقت سے پہلے خاتمہ اس ملک کی بدترين الميوں ميں سے ايک الميہ ہے- مشرف کے چاہنے والے فيس بک پر دو لاکھ لوگ ، مشرف کے کروڑں چاہنے والوں کا محظ سگنيچر ہیں-
سابق صدر مشرف ملک کے سب سے بڑے رہنما ہیں۔ پاکستان کا ایک قابل، مخلص اور بہادر بیٹا۔ جو ان کے خلاف باتیں کرتا ہے وہ پاکستانی نہیں ملک دشمن ہیں۔ قوم کی دعائیں ان کے ساتھ ہیں وہ انشا اللہ کامیاب ہو جائیں گے۔
پرویز مشرف کو چاہیے کہ وہ سیاسی جماعت کی بجائے'' ویلیں ہی ویلیں'' نام سے میوزیکل گروپ بنا لیں۔ بہت کامیاب ہوں گے کیونکہ انھیں طبلہ بجانا بہت پسند ہے۔ اگر طبلے کے ساتھ درجن بھر خواجہ سرائوں کو بھی شامل کر لیں تو بھلے بھلے بھی ہو جائے گی اور کچھ لوگوں کو روزگار بھی مل جائے گا۔ پرویز مشرف کے لکچر بھی ویلوں کے لئے ہی ہوتے ہیں انھیں عزت سے زیادہ دولت پیاری ہے اسی لئے ڈالروں کے عوض پاکستانی شہریوں کو مبینہ طور پر بیچتے رہے۔ اگر وزیر اعظم بن گئے تو رہی سہی کسر بھی پوری کر دیں گے۔اگر سیاسی جماعت بنانی ہے تو اس کا نام خونی لیگ رکھ لیں کیونکہ سابق صدر نے اکبر بگٹی، لال مسجد اور بے نظیر کے قتل کے معاملات اور عدلیہ کا خون کرنے میں کافی شہرت پائی ہے۔ انہیں انتخابی نشان کے طور پر بھی لہو رنگ چاقو الاٹ کرنے کی درخواست کرنی چاہیے۔
سابق آمر کو اپنا اقتدار کب بھول سکتا ہے۔ اسی لیے بلی کو جيسے خواب ميں چھچھڑے نظر آتے ہيں انہيں بھی ہر وقت اپنا کھويا ہوا اقتدار چين نہيں لينے ديتا اور موصوف اپنے آپ کو اسی بےلگام اقتدار کے گھوڑے پر سوار سمجھتے ہيں۔ وہ اب ماضی کا قصہ ہيں اورگزرا کل کبھی واپس نہيں آتا۔ نام تو جو مرضی رکھ ليں کچھ حاصل نہيں ہوگا۔ وہ فوج کی طاقت سے اقتدار ميں آئے تھے اور فوج سميت تمام اداروں کی عزت پامال اور وطن عزيز کو بےحال کرکے راگ الاپتے اور طبلے بجاتے رخصت ہوئے۔
آپ کی کافی ضرورت ہے موجودہ پاکستان کو۔
جنرل ریٹائرڈ مشرف کی مثال ایک چلے ہوئے کارتوس کی ہے۔
کيا خوب کہا ”پاکستانی سياست ميں کيا مسخروں کی کمی ہے جو قوم کو ايک اور تحفہ ديا جا رہا ہے؟” مشرف نے کہا کہ 80 فيصد نوجوان ان کے حامی ہيں ليکن جناب 20 فيصد لال مسجد والے نوجوان اور ان کے چاہنے والے آپ کے خون کے پياسے بھی ہوں گے- باہر بيٹھے ہيں محفوظ ہيں شکر کريں اور صدقہ خيرات کريں
مسلم ليگ (ڈرون) بہت مناسب رہے گا- کيونکہ جلد ہی يہ آل پاکستان ہو جاۓ گا-
مشرف تیری پرواز سے جلتا ہے زمانہ
مشرف صاحب کے دو کام ان کو عقلمند اور دورانديش پاکستانيوں کا ہيرو بنانے کے ليے کافی ہيں۔ ايک بگٹی کا قتل اور دوسرا لال مسجد والوں کا خاتمہ۔ ميں حيران ہوں کہ لوگ اب بھی لال مسجد سے لگاو رکھتے ہيں۔ يہيں سے شدت پسند نکلتے ہيں اور ہمارے بچوں کو يتيم بنا ديتے ہيں اور ہم اب بھی ان سے ہمدردی جتاتے ہيں۔ واہ
مشرف اپنی جماعت كا نام آل پاكستان ق لیگ ركھیں تو زیادہ مناسب لگے گا۔ جی نہیں ق سے مراد قائد اعظم نہیں قصائی لیگ ہے كیونكہ جس طرح انہوں نے سب سے پہلے كارگل وار چھیڑ كر قوم كے مجاہدوں كے سینے چھلنی كروائے، جس بھونڈے طریقے سے ایك منتخب وزیراعظم ( نواز شریف سے اختلافات اپنی جگہ) كو جیل سے جلاوطن كركے ملك پر قبضہ كیا، جس ڈھٹائی سے اكبر بگٹی كے بدن كے چیتھڑے اڑائے، جس شقی القلبی كا مظاہرہ لال مسجد كی گم كردہ راہ لیكن معصوم بچیوں اور دیگر افراد كو (زندہ گرفتار كر كے مقدمہ چلانے كی بجائے ) بموں سے بھون كر كیا گیا، جس درندگی كا مظاہرہ كراچی میں وكیلوں كو زندہ جلا كر اور كراچی كی سڑكوں كو خون سے دھو كر (اور سونے پہ سہاگہ اسے عوام كی طاقت كا مظاہرہ قرار دے كر عوام كے ذخموں پر نمك پاشی كر كے )كیا گیا، اور سب سے بڑھ كر قوم كو دہشتگردی كے جہنم میں جھونگ كر اور بے غیرتی كے ساتھ قوم كے بیٹوں بیٹیوں كو غیروں كے ہاتھوں بیچ كر ڈالر كمائے۔ اس كے بعد اگر وہ مسلم لیگ كے نام سے سیاسی جماعت بنائیں گے تو قائد كی روح كو ایك ایسی اذیت كا سامنا كرنا ہوگا جو ہر محب وطن پاكستانی اور كوئی بھی تاریخ كا طالب علم اپنے سینے میں محسوس كرےگا۔ باقی رہی بات ان كی مقبولیت كی تو میر جعفروں اور میر صادقوں كے ناخداوں كی سرزمین پر بیٹھ كر سلطان راہی كی طرح بڑھكیں مارنے سے بہتر ہے كہ وہ پاكستانی سرزمین كو اپنے وجود كا بوجھ سہارنے كی زحمت دیں تو پتہ چلے كہ ان كے دو لاكھ مداح ان كے گریبان كی طرف بڑھتے عوام كے ہاتھوں كو روكنے كے لیے آگے بڑھیں گے یا امریكہ كے ساتویں بحری بیڑے كی طرح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشرف شاید ذہنی صدمے کا شکار ہے شاید۔۔۔
ایک دفعہ پاکستان آنے کی دیر ہے۔ پھر اپنی اوقات خود بخود معلوم ہوجائےگی۔
میں تو بس امید ہی کرسکتا ہوں کہ مسٹر مشرف واپس پاکستان آ جائیں۔
پرویز مشرف پاکستانی تاریخ کا ایک بہترین رہنما تھا۔ اُس سے کچھ غلطیاں بھی ہوئیں جن کی سزا اُس نے بھگتی۔ مثلا مولویوں کو جوتے نہیں لگائے۔ میڈیا کو آزادی دی۔ نئے چینل کھولے۔ سیاسی رہنماؤں کو پاکستان میں واپس آنے دیا۔ یہ غلطیاں اگر وہ نہ کرتے یقینا پاکستان میں صورتحال مختلف ہوتی۔ وہ فوجی ہوکر بھی جمہوری رہنماؤں سے کافی بہترتھے۔
مشرف نے دہشت گردوں کا پول کھول دیا ... جیو مشرف ... جینے دو ہارون
مشرف کی مسلم لیگ کا صدر دفتر چک شہزاد میں ہونا چاہیے۔ ہر خاص و عام کو وہاں آنے جانے کی اجازت ہونی چاہیے پھر دیکھ لیں کہ کتنا مینڈیٹ ملتا ہے۔ شاید نواز شریف والا ہیوی مینڈیٹ مل جائے۔
یہ مشرف صاحب ہی کا کیا ہوا ہے کہ آج پاکستان پر برے لوگ برسراقتدار ہیں۔ مشرف کو واقعی میں پاکستان واپس جانا اور قوم کو ان غاصبوں سے چھٹکارا دلانا چاھیئے۔ قوم ہر جانے والے کو اس کے چلے جانے کے بعد ہی یاد کرتی اور اعزاز سے نوازتی ہے۔
کوئی بھی آتا کرسی پر وہی اسلام و پاکستان کا دشمن بن جاتا ہے۔ اب يہ فطرت کرسی کی ہے يا انسان کی؟ یہ تو رب کو ہی پتہ ہے۔