عوام خوش کیوں نہیں
یورپ ہو یا ایشیا، امریکہ ہو یا افریقہ سیاست دانوں پر عوام کا اعتبار کم ہورہا ہے اور اگر وہ کوئی اچھا کام بھی کریں تو شک وشبہ کی فضا بدستور قائم رہتی ہے۔
آج کل برطانیہ میں انتخابی مہم کافی زوروں پر ہے اور تین بڑی جماعتوں کے سربراہ ووٹروں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے کیا کیا جتن کر تے ہیں۔ مگر پارلیمانی اراکین کی اخراجات حاصل کرنے کے سیکنڈل نے ووٹروں کے اعتبار کو اس قدر زک پہنچایا ہے کہ بعض مقامات پر وہ اپنے امیدواروں کا چہرہ بھی دیکھنا پسند نہیں کرتے ہیں۔
پاکستان میں بھی اکثر سیاست دانوں کی شبیہ رشوت خوری یا بد دیانتی کے درجنوں معاملات کے پیشِ نظر مسخ شدہ ہے اور عوام کے بڑے طبقے کو ان پر اعتبار نہیں ہے۔ جس کےنتیجے میں ان کا اچھا کام بھی سراہا نہیں جاتا اور شکوک کی فضا کم نہیں ہوتی۔
سیاست دان بھی اشرف المخلوقات میں شامل ہیں ان کی غلطیوں کو بھی معاف کیا جاسکتا ہے اور اگر وہ عوام کے مفاد میں کبھی کوئی اچھا کام کریں تو اس کو نظر انداز کرنے کے بجائے سراہنا چاہے۔
قومی اسمبلی نےاٹھارویں ترامیم کا بل پاس کرکے چار دہائیوں سے پاکستانی جمہوریت پر لٹکتی تلوار سے پوری قوم کو آزاد کر لیا ہے اور یہ پہلی بار ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں متحد ہوکر جمہوریت کو مظبوط کرنے میں ڈٹی رہیں۔ میں تو سمجھی تھی کہ ہر گلی کوچے میں جشنِ چراغاں ہوگا لیکن عوام کے ذہنوں میں یہ شکوک اتنے پنہاں کیوں کہ انہیں اس تاریخی کارنامے پر خوشی نہیں ہوئی۔ مانا کہ عوام کو مہنگائی اور معاشی حالات نے کمزور بنادیا ہے مگر ملک کی سیاست کی نوک پلک سنوارنے کے ساتھ ہی اُن کےمسائل کا حل بھی ڈھونڈا جاسکتا ہے۔
اوئن بینٹ جونز پاکستان کے بارے میں اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ 'پاکستان میں سیاسی اتھل پتھل کے پیش نظر لوگوں میں خود پر تنقید کرنے کا رجحان انتہائی گہرا ہے شاید اسی لیے انہیں ملک میں ہورہی کوئی مثبت تبدیلی بھی اکثر اوقات منفی نظر آتی ہے۔'
یہ صحیح ہے کہ سیاست دانوں یا فوجی اداروں کو عوام کا اعتماد بحال کرنے میں کافی وقت درکار ہوگا لیکن جمہوریت کی خاطر ہی سہی، عوام کو بھی بعض اوقات فراخ دلی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ عوام بار بار کے سیاسی اتارچڑھاو اور اندرونی تشدد سے اتنے دب گئے ہیں کہ وہ خوشی کا اظہار کرنا ہی بھول گئے ہیں۔