جماعت اسلامی کے خلاف سازش
اس صدی میں ہونے والی باقی ساری سازشیں ایک طرف لیکن سب سے بڑی سازش پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی محافظ، اس قوم کی بیٹیوں کی عصمت کی رکھوالی اور قوم کے بیٹوں کے اخلاق کی پہریدار جماعت اسلامی کے خلاف ہوئی ہے۔
جماعت کی خدمات پر ایک احتمالی نظر ڈالتے ہیں۔ جماعت نے پاکستان کی کافر تاریخ کو مشرف بہ اسلام کیا، پھر سکولوں کے استادوں کو سکھایا کہ یہ تاریخ پڑھائی کیسے جاتی ہے۔ جماعت نے ہمارے پہلے سے ہی مسلمان آئین کو اور مسلمان کیا پھر ججوں کو سکھایا کہ اس آئین کی تشریح کیسے کی جانی چاہیے۔ جماعت اسلامی نے کمیونزم کو شکست دی، سویت یونین کے حصے بخرے کیے، کتنی ہی وسط ایشیائی ریاستوں کو آزاد کرایا، افغانستان کو تو اتنی دفعہ آزاد کرایا کہ خود افغانی پناہ مانگ اٹھے۔ کشمیر کو بھی تقریباً آزاد کروا ہی لیا تھا لیکن کشمیری نہیں مان کے دیے۔ اور تو اور اس نے ہم جیسے صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کو بھی یہ ہنر سکھایا کہ اگر کوئی دلیل نہ بن پڑے تو کوئی آیت اور حدیث پڑھ دو مخالف کا منہ بند ہو جائے گا۔
اور ان ساری خدمات کے بعد جماعت کو کیا ملا؟ (غیر پارلیمانی لفظ ہے لیکن کہنا پڑے گا) ٹھینگا۔
عین اس وقت جب جماعت اسلامی کا پاکستان پروجیکٹ تکمیل کے قریب تھا سب کچھ کھوہ کھاتے میں جا پڑا۔ سعودی عرب سے آنے والے ٹھیکیدار شیخ اسامہ، لندن کی LSE میں پڑھے ہوئے لونڈے عمر شیخ اور پنجابی فلموں کے مشہور زمانہ ولن کا نام اختیار کرنے والے الیاس کشمیری جیسے لوگوں نے آ کر کہا کہ یہ سارا کام تم جیسے بوڑھے لوگوں کا نہیں، تم لوگوں کو تو اس کام کی الف بے کا بھی پتہ نہیں۔ کیا کالجوں، یونیورسٹیوں میں غیر جماعتیوں کی ٹانگیں توڑنے سے امت مسلمہ نشاط ثانیہ ہوسکے گی؟
اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے جماعت اسلامی کی عظمت رفتہ ہوگئی۔ اور اب یہ عالم ہے کہ جماعت ایک امریکی شہری ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے جلوس نکالتی ہے۔ آئی پی ایل میں نہ بکنے والے پاکستانی کرکٹ کھلاڑیوں کو تسلیاں دیتی ہے اور دیواروں پر گو امریکہ گو کے نعروں کی چاکنگ کرتی ہے۔ کئی انگریزی میڈیم بچے سمجھتے ہیں کہ جماعت امریکہ کے حق میں نعرے لگا رہی ہے۔ ایسے نازک وقت میں ہمیں جماعت کا ہاتھ تھام کر انہیں تسلی دینی چاہیے اور وہ بات کہنی چاہیے جو حضرت مودودی نے کہی تو نہیں لیکن کہہ بھی سکتے تھے۔ ٹماٹو کیچ اپ اسلام میں ہے، لیکن اسلام ٹماٹو کیچ اپ میں نہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
’کچھ اور بھی دے گیا لطف
انداز تمہاری گفتگو کا‘
’مجھے یقین ہے کہ اندھیرا رہے گا اب نہ کہیں
کہ روشنی کے لیے میں نے گھر جلایا ہے‘
آج تو آنکھوں سے دیکھ لیا کہ سچ ایک ایسی دوا ہے جس کی لذت کڑوی مگر تاثیر میٹھی ہوتی ہے۔ بہت خوب۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔
حنیف بھائی! اب تو آپ کی زندگی کے لیے دعائیں مانگنی پڑیں گی تاکہ آپ کے بلاگز پڑھتے رہنے کی توفیق ملتی رہے۔ آپ نے جماعت اور مودودی صاحب کی جس انداز سے تعریف و ستائش کی ہے کہ سید منور حسن صاحب بھی آپ کی ذہانت کی داد دیئے بغیر نہ رہ پائیں گے۔ وہ کہتے ہیں نا کہ ہر عمل کا رد عمل مخالف سمت میں ہوتا ہے۔ جس کام میں سید منور حسن صاحب کو کافی دقت محسوس ہو رہی تھی آپ نے نسبتاً آسان کر دیا ہے۔ جماعت مخالف بھی خوش اور جماعت بھی خوش۔ اسے کہتے ہیں ایک تیر سے کئی شکار۔ بہرحال کیا بات ہے آپ کے مزاح کی کہ داڑھی کو اب مہندی سے نہیں ٹماٹو کیچپ سے رنگا جایا کرے ۔
اسلام و عليکم
محترم جماعت کے بارے ميں جو کچھ آپ نے لکھ مارا ہے اس کے بعد تو بس الامان الحفيظ ہی کہا جا سکتا ہے۔ بہت ممکن ہے کے جناب پر فرنگيوں کا ايجنٹ ہونےکا الزام بھی۔۔۔۔ اتنا ہی کہوں گا کہ اب کيا پچتاوے ہوت جب چڑياں چگ گئیں کھيت۔ ويسے لکھتےغزب کا ہيں آپ۔
محترم حنیف صاحب،
تُسی وڈے شرارتی ہو۔۔۔
حنيف صاحب! آپ جيسے لوگوں کو صحافی نہيں ہونا چاہيے۔ اگر آپ نے بلاگ لکھنا ہی تھا جہاں آپ نے جماعت پر کھل کر طنز کيا ہے وہاں آپ کو اس کی اچھائياں بھی ضرور لکھنی چا ہيے تھيں اور رہی بات ڈاکٹر عافيہ صديقی کی رہائی کے ليے احتجاج کی تو مجھے يہ بتائيں کے آپ کی حقوق انسانی کی نام نہاد تنظيميں کہاں غائب ہيں؟ کچھ ان کے بارے ميں بھی ارشاد فرماديں خاص طور پر، عاصمہ جہانگير۔
، ہا ہا مزہ آ گیا جناب!
بہت خوب!
حنيف صاحب تنقيد اچھی چيز ہے ليکن مثبت اور انصاف تبھی ہوتا ہے جب کسی کے مثبت پہلو بھی اجاگر کیئے جائيں ورنہ لوگ تنخواہ دار کا لقب ديتے ہيں جيسے کہ لوگ عاصمہ جہانگير صاحبہ کو کہہ رہے ہيں کہ جس مسئلے پر مغرب کا فائدہ ہو اس کو پورے ملک ميں پھيلا دو باقی پر نارمل سا بيان دے کر جان چھڑا لو۔ شکريہ
ٹھينگا مل گيا کيا يہ کم ہے چوسنے کے ليے۔ آخر اس جماعت کی وجہ سے تو آج اسلام زندہ ہے۔ ابھی تو دہلی کے لال قلعہ پر اور وائٹ ہاؤس پر اسلام کا جھنڈا لگانا ہے اور اسی وجہ سے تو اسے فوجی حکمران پسند ہيں۔ آپ کی ٹماٹو کيچ کی ريسيپی ميں صرف پانچ ہی چيزيں ہيں 1۔ٹماٹر 2۔چينی 3۔سرخ مرچ 4۔سرکا 5۔نمک جبکہ مودودی حضرت تو تمام علوم و فنون ميں مہارت رکھتے تھے۔ يہ ہماری کم علمی ہے کہ ہميں معلوم ہی نہيں کہ ان حضرت نے يہ علم و فن کس سے حاصل کيا۔اس ليے ان حضرت کے پيروکار يہ کہتے ہيں کہ جماعت اسلامی ميں اسلام ہے اسلام ميں جماعت اسلامی نہيں۔
حنیف صاحب آپ نے صحیح تصویر ابھی بھی نہیں دکھائی جماعت اسلامی کی۔ پاکستان کے بننے سے لیکر آج تک جتنے بھی جمہوریت نے نقصان اٹھائے ہیں وہ سب اس جماعت کے تحفے ہیں۔
آپ نے سچ لکھا ہے ’گو امریکہ گو‘ کا مطلب ’چلو امریکہ چلو‘۔
واقعی میں آپ بہت نمک ہلال ہیں ویسے انسان کو ایسا ہونا چاہیے کہ جس کا نمک کھائے اس کے گُن گائے۔ اور کہو جماعت اسلامی کا کچھ نہیں جاتا۔
محترم حنیف صاحب! آپ اور آپ جیسے مغرب کے تنخواہ یافتہ اور مغرب کے حواری جن کی ساری تگ و دو دُنیا کی کامیابی و کامرانی پر ہوتی ہے وہ اس بات کو سمجھ ہی نہیں سکتے کہ آخرت کیا چیز ہے اور اللہ کی رضا سے وہاں کی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی میں کیا انعامات ملیں گے اور اگر خدا ناخواستہ اللہ کی ناراضگی کی صورت میں وہاں کی ذلت اور رسوائی کیا چیز ہے؟ رہی بات جماعت اسلامی کو ٹھینگے ملنے کی؟ تو ایک بات یاد رکھیں قرآن اور حدیث کے مطالعہ سے جو چیز واضح ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ سبحان وتعالیٰ نے کسی نبی کو بھی اس بات کا مکلف نہیں ٹھرایا کہ وہ اپنی دعوت کو کامیاب کرے گا۔ اُس کا کام صرف دعوت دینا ہے، دلوں کو پھیرنا صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔ حضرت نوح نے تقریباً ساڑھے نو سو سال(950)سال قوم کو دعوت دی اور صرف نوے (90) کے قریب لوگ مسلمان ہوئے۔ آپ جیسے لوگ تو انہیں ناکام کہہ سکتے ہیں، لیکن وہ اللہ کی بارگاہ میں کامیاب ٹھرے۔ اس لیے کہ انہوں نے اپنی استطاعت اور بہترین صلاحیتوں کو اللہ کی راہ میں لگایا تھا۔ اور الحمد للہ جماعت اسلامی بھی اپنے پورے خلوص اور بہترین صلاحیتوں کو اللہ کی راہ میں لگا رہی ہے۔ خواہ آنکھیں رکھنے والوں کو یہ نظر آئے یا نہ آئے۔ یہ جماعت اسلامی ہی ہے جس نے اس ملک کے نوجوانوں کو سینما اور بے حیائی کے دوسرے ذرائع سے رُخ موڑ کر انہیں اسلام کی طرف لائی ہے اور لارہی ہے۔ آخر میں دعا گو ہوں کہ اللہ ہمارا خاتمہ اہل ایمان کے ساتھ کرے اور مغربی اقدار کے چاہنے والوں کو ہدایت دے۔آمین
حنيف صاحب کے ليے
’تری سادگی بھی اک فريب ہے‘
جماعت کے ليے
’ہم آہ بھی بھرتے ہيں تو ہو جاتے ہيں بدنام
وہ قتل بھی کر ديں تو چرچا نہيں ہوتا‘
حنیف صاحب! آپ نے اس جماعت کی کشمیر میں کرتوتوں کو صرف ایک لائن میں لکھ کر گویا ایک ’نئی‘ سازش کی بنیاد رکھی ہے ورنہ اس ایک لائن کے پیچھے چھپی ہوئی داستانیں منظر عام پر آئیں تو منصورہ کے بسنے والے انسان تو ایک طرف جانور بھی ان کے ساتھ کبڈی کھیلنے لگ جائیں۔
بہت زبردست! کئی مدتوں بعد کوئی مفصل بلاگ پڑھا ہے۔ جماعت والوں کے احساسات سمجھ آ رہے ہیں اور بڑا مزا آ رہا ہے کيچپ کھانے ميں۔
جناب آپ نے کافی عقلمندی اور ہوشياری سے اپنی نوکری کو چلايا ہے اور جماعت اسلامی کی برائی لکھنے کا کام کافی چلاکی سے انجام دے رہے ہيں۔ آپ کی اصل جگہ سٹيج کے لطيفے لکھنا ہے۔
نام یاد نہیں لیکن ایک مشہور کالم نگار جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے، کے بقول ’جماعت لوگوں کو سوچنا سکھاتی ہے۔ جب وہ سوچنا سیکھ جاتے ہیں تو جماعت کو چھوڑ جاتے ہیں۔‘
حنیف صاحب! بہت ہی شاندار اور دلچسپ بلاگ لکھا ہے آپ نے کہ مزہ آگیا ! مگر مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے پہلے تو جماعت اسلامی کی فتوحات اور اچیومنٹس کا خود ذکر کر دیا اور اس کے بعد کہا کہ انہیں ٹھینگا ملا، تو اول الذکر پیرا، موخر الذکر کی تردید کرتا نظر آ رہا ہے۔ ویسے آپ جیسے بھی ہیں، ہم آپ کے اسلوب کے پرستار ہیں۔
’فراز سنگ ملامت سے زخم زخم صحیح
ہمیں عزیز ہے خانہ خراب جیسا ہے‘
ہمیشہ کی طرح Non-issue پر آپ اپنا اور ہمارا وقت برباد کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دیئے۔ برائے کرم مجھے ای میل کریں تاکہ میں آپ کو بلاگ لکھنے کے لیے بعض اچھے عنوان بتاؤں۔ کم از کم آپ تنخواہ تو حلال کریں۔ کیا خیال ہے؟
اللہ آپ کو جماعت کے شر سے محفوظ فرمائے حنيف صاحب۔ ويسے آپ نے سانپ کے بل ميں ہاتھ ڈالا ہے۔ خدا پاک آپ پر رحم کرے اور آپ کو اور وصعت دے سچ لکھنے کی۔
جماعت اسلامی کے خلاف بولنا، ہسنا، تنقید کرنا دنیا میں سب سے آسان کام ہے۔اس کی وجہ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات۔ اس کے مقابلے میں فوج، ایجنسیوں اور ایم کیو ایم کے خلاف بولنا دنیا میں سب سے مشکل کام ہے۔ ۔
حنيف بھائی آپ کو ايسا سچا اور کھرا بلاگ لکھنے پر صحافتی نوبيل پرائز ملنا چاہیے۔ غالب نے غالباً اسی موقع کے ليے کہا تھا ’ميں نے يہ جانا کہ گويا يہ بھی ميرے دل ميں ہے‘ مبارک صد مبارک!
بہت درست اور اسے جاری رکھیں۔